بنگلہ دیش:ہندووں پرمظالم کے لئے ذمہ دارتین تنظیمیں

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 02-11-2021
بنگلہ دیش:ہندووں پرمظالم کے لئے ذمہ دارتین تنظیمیں
بنگلہ دیش:ہندووں پرمظالم کے لئے ذمہ دارتین تنظیمیں

 

 

ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں اقلیتی ہندو، انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے مسلسل نشانہ بن رہے ہیں۔ 9 سالوں میں ان پر 3721 حملے ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں بنیادی طور پر 3 مسلم بنیاد پرست تنظیموں کوذمہ دارقرار دیا جاتاہے۔ ان کے نام انصار اللہ بنگلہ، حفاظت اسلام، جماعت المجاہدین بنگلہ دیش ہیں۔ان کے بارے میں جانئے،کہ کب ان کا قیام عمل میں آیا؟ کس نے قائم کیااور ان کی سرگرمیاں کیاہیں؟

انصاراللہ بنگلہ ٹیم

انصاراللہ بنگلہ ٹیم  کو، شاہ محمد جاسم الدین رحمانی نے قائم کیا۔ رحمانی ڈھاکہ کی ایک مسجد میں امام تھا۔ 2008 سے 2013 تک یعنی تقریباً 5 سالوں کے درمیان اس نے یہ تنظیم قائم کی تھی۔ وہ انصاراللہ بنگلہ ٹیم نامی ویب سائٹ کے ذریعے اپنے خیالات کا پرچار کرتا تھا۔ اس ویب سائٹ کا سرور پاکستان میں ہے۔ یہ فیس بک پر بھی دستیاب ہے۔ یہ ہندوؤں کے خلاف ۔عوام کوبھڑکانے کا کام کرتی ہے۔

پہلی بار 2013 میں بنگلہ دیش کے ایک سیکولر بلاگر کے وحشیانہ قتل کے بعد اس کا نام منظر عام پر آیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے 2015 میں ایک بڑی بینک ڈکیتی میں ملوث ہونے کے بعد اس پر پابندی لگا دی تھی۔

حفاظت اسلام

حفاظت اسلام، کو محب اللہ بابو نگری نے قائم کیا۔ 2010 میں مدرسہ اساتذہ اور طلباء نے اسے بنایا۔مبینہ طور پر اس کی فنڈنگ ​​پاکستان کرتا ہے۔ 2009 میں، بنگلہ دیش کی حکومت نے خواتین کی ترقی کی پالیسی کا مسودہ تیار کیا، جس کی بنیاد پرست گروہوں نے بڑے پیمانے پر مخالفت کی اور توڑ پھوڑ کی۔ اس کے بعد یہ تنظیم پوری دنیا میں زیر بحث آئی۔ اس سال مارچ اپریل میں ایک نوجوان نے اس کے جوائنٹ سکریٹری مامون الحق پر تنقید کرتے ہوئے ایک ویڈیو اپ لوڈ کیا تھا۔ احتجاج میں ہندوؤں کے 80 گھر جلا دیے گئے۔

اسی تنظیم نے پی ایم مودی کے دورہ بنگلہ دیش کے دوران فسادات اور تشدد کو ہوا دی تھی۔ جماعت المجاہدین، بنگلہ دیش (جے ایم بی)، کو مولانا سید الرحمن نے قائم کیا۔ 1998 میں یہ تشکیل پائی تھی۔ یہ 2005 میں اس وقت روشنی میں آئی جب بنگلہ دیش کے 64 اضلاع میں تقریباً 500 سلسلہ وار دھماکے ہوئے۔

اس کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے اس تنظیم کے تمام اہم ارکان کو ختم کر دیا۔ 2010 تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ تنظیم ختم ہو چکی ہے۔ اس تنظیم کے وجود کا پتہ 2014 میں اس وقت چلا جب بردوان میں ایک حادثہ پیش آیا۔ پھر تنظیم کے خفیہ اڈے منظر عام پر آگئے۔ 2016 میں جے ایم بی کے ایک گروپ نے ڈھاکہ کی ہولی آرٹیسن بیکری میں دھماکہ کیا تھا۔

ہندوؤں پر تقریباً 413 حملے

انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم آئین او سولش کے مطابق 9 سالوں میں ہندو مندروں، مورتیوں اور عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ کے 1678 کیس درج کیے گئے۔ جب کہ سال 2014 بدترین رہا۔ ہندوؤں کے 1201 گھر تباہ ہوئے۔ پچھلے پانچ سالوں سے حالات بہتر ہو رہے تھے لیکن اس سال دہشت گردی پھر بڑھنے لگی۔ بنگلہ دیش میں ستمبر 2021 تک ہندوؤں کے 196 مکانات، تجارتی مراکز اور مندر تباہ ہو چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جنوری 2013 سے ستمبر 2021 کے درمیان توڑ پھوڑ کے کل واقعات میں سے 45.11 فیصد میں مندروں اور مورتیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ 42.35 فیصد واقعات اقلیتی ہندوؤں کے گھروں پر حملوں کے ہیں۔ 2001 میں خالدہ ضیا کی انتخابی کامیابی کے بعد ان کے حامیوں نے لگاتار 150 دنوں تک ہندوؤں کے خلاف پرتشدد واقعات کو انجام دیا۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس دوران تقریباً 18 ہزار بڑے مجرمانہ واقعات ہوئے، تقریباً ایک ہزار ہندو خواتین کی عصمت دری اور 200 کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ اس کے سبب ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان ہجرت کر گئی۔