بخت خاں:جنگ آزادی کےایک عظیم سپاہی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 04-08-2022
بخت خاں:جنگ آزادی کےایک عظیم سپاہی
بخت خاں:جنگ آزادی کےایک عظیم سپاہی

 

 

 درخشاں تاجور

ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ میں 1857کا سال ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے جب صدیوں سے دبے کچلے عوام نے انگریزوں کے غاصبانہ اور جابرانہ اقتدار کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ 1857 میں جب ہندوستانیوں کے دلوں میں پکتا ہوا لاوا شعلۂ جوالا بن کر پھوٹا تو ہر شخص سر پر کفن باندھ کر اس لڑائی میں حصّہ لینے کے لیے کود پڑا۔ اس لڑائی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں بادشاہ، علما، بوڑھے، جوان،  مرد و عورت سبھی انگریزوں سے آر پار کی جنگ کرنے کو اُٹھ کھڑے ہوئے اور شجاعت اور بہادری کی وہ مثالیں پیش کیں جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی میں جن لوگوں نے قیادت کی ذمے داریاں سنبھالیںان میں بخت خاں کا نام منارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔

بخت خاں کو جنگ آزادی میں شمولیت حاصل کرنے کی ترغیب مولانا سرفراز علی گورکھپوری نے دلائی جو گورکھپور کے سوداگر محلے کے رہنے والے تھے ان کی فکری تبدیلی میں ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔سرفراز علی جنگ آزادی کے نمائندہ قائدین میں سے تھے۔ بخت خاں پہلے انگریزوں کی فوج میں صوبیدار تھے۔سرفراز علی نے انھیں اپنی صلاحیتوں کو انگریزوں کے خلاف استعمال کرنے اور ان سے برسرِ پیکار ہونے کی ہدایت دی۔ شروع میں تو انھوں نے کچھ تامل کیا ‘لیکن آخر میں انھوں نے بخت خاں کو بغاوت میں حصّہ لینے کے لیے آمادہ کر لیا اور وہ انگریزوں کے غاصبانہ تسلط سے نجات حاصل کرنے کی لڑائی میں شریک ہونے کو تیار ہو گئے

  بریلی سے بخت خاں تحریک میں حصّہ لینے کے لیے جب دہلی پہنچے تو ان کے ساتھ سو علما بھی تھے.جن کی رہنمائی سرفراز علی گورکھپوری کر رہے تھے.مراد آباد کی پلٹن نمبر29 بھی ان کے ساتھ تھی.ان کا دہلی آنا بہادر شاہ کے لیے نیک شگون ثابت ہوا۔ بہادر شاہ نے انھیں انقلابی فوجوں کی کمان سونپ دی 5۔جس وقت وہ دہلی پہنچے تو بہادر شاہ  نے ان کے استقبال کے لیے احمد قلی خاں کو بھیجا ان کے ہمراہ حکیم احسن اللہ خاں، ابراہیم خاں جنرل صمد خاں، غلام علی خاں اور چند افسر بھی موجود تھے.بخت خاں نے دہلی آنے کے بعد تحریک میں تیزی لانے کے لیے ایک فتویٰ جہاد مرتب کرایا. ساتھ ہی انھوں نے ایک حلف نامہ بھی تقسیم کرایا جن پر سات آٹھ ہزار سپاہیوں سے عہد لیا گیا کہ وہ آخر دم تک انگریزوں سے لڑیں گے.

 وہ اپنے ساتھ چار لاکھ خزانہ بھی لائے تھے اور جو فوج ان کے ہمراہ آئی تھی اس کو وہ چھ ماہ کی تنخواہ پیشگی دے چکے تھے. بخت خاں کو دہلی پہنچنے کے بعد بڑے ہی اعزاز و مراتب سے نوازا گیا۔ انھیں معزالدولہ فرزند کا خطاب دیا گیا، گور نر کا عہدہ ملا اس کے علاوہ انھیں صاحبِ عالم اور بخت بلند خاں کا خطاب دے کر ان کی پذیرائی بھی کی گئی. بہادر شاہ نے انھیں ایک ڈھال اور تلوار بھی دی.ان کے نام کی مہر بھی بدرالدین مہر کن سے تیار کروائی 12اور انھیں دہلی میں موجود باغی فوج کا کمانڈر انچیف بھی بنادیا ان کی تقرری کا استقبال صادق الاخبار میں بھی کیا گیا۔

اس نے اپنی 6جولائی 1857کی اشاعت میں یہ لکھا :

’’ آسائش رعایا ہند منظورِ خدا ہے اس لیے منتظم دوراں جناب محمد بخت خاں بہادر جنرل کو عدالت،مدبری اور انتظام میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہمارا شفیق بنایا ہے اور جناب موصوف نے حضور سے خلعت فاخرہ سپردوشمشیر پائی ہے۔ شہر کا انتظام بخوبی کردیا۔‘‘14

بخت خاں نے قیادت کی کمان سنبھالنے کی بعد بہت سے اہم فیصلے کیے شہر میں امن و امان کی فضا بحال کرنے کی کوشش کی شہر کوتوال کو یہ واضح کردیا کہ بد امنی اور لاقانونیت کو کسی طرح برداشت نہیں کیا جائے گا اور اگر انھوں نے لاپروائی کی تو وہ بھی سزا کے حقدار ہوں گے15  لوٹ مار میں ملوث شہزادوں اور مہاجنوں پر قدغن لگائی16 شکر اور نمک کے محصول کو معاف کرایا 17کیونکہ ان سے عام انسانی زندگی متاثر ہوتی تھی فوج کو نئے سرے سے درست کیا ۔بچھڑا پلٹن کے نام سے ایک نئی پلٹن کی تشکیل کی جس نے کئی مورچوں پر انگریزوں سے سخت مقابلہ کر کے انھیں مشکل میں ڈال دیا۔18

بہادر شاہ چاہتے تھے کہ انگریزوں کے خلاف یہ لڑائی ہندو مسلمان مشترکہ طور پر لڑیں اس لیے انھوں نے ہر وہ کوشش کی جس کی ذریعے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کا ماحول قائم ہو۔ شاہ دہلی یہ جانتے تھے کہ گائے ہندوؤں کے لیے قابلِ تعظیم ہے اس لیے انھوں نے بخت خاں کو احکام دیے کہ وہ منادی کرا دیں کہ اگر کوئی شخص گائے کی قربانی کرے گا تواسے توپ سے باندھ کر اُڑا دیا جائے گا  19  چنانچہ بخت خاں نے شہر میں بہ آوازِ دہل یہ اعلان کرادیا کہ کوئی شخص گائے کی قربانی نہ کرے 20اس بات کا ذکر اس عہد کے سبھی وقائع نگاروں نے کیا ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ 1857میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے کندھے سے کندھا ملا کر انگریزوں کو دادِ شجاعت دی اور انگریز اپنی بھرپور توانائیاں صرف کرنے کے باوجود ان کی متحدہ قوت کو توڑنے میں ناکام رہے۔ اس بات کی تصدیق کے لیے ملاحظہ ہو کیتھ ینگ کے خط کا یہ اقتباس جسے اس نے 2 اگست 1857کو اپنی بیوی کے نام لکھا:

’’ بظاہر کل شہر میں زبردست فساد کے لیے ہماری امیدیں پوری نہیں ہو سکیں بادشاہ نے نہ صرف گائے بلکہ بکری تک کی قربانی کے لیے شہر میں ممانعت کردی ہے اور ایسا عمل کیا گیا تو یہ یقینا ہندوؤں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے۔ چنانچہ بجائے اس کے کہ وہ لوگ آپس میں لڑتے ہمارے خلاف متحدہ اور بھرپور حملہ کرنے کے لیے ایک ہوگئے ہیں تاکہ ہمیں برباد کردیں اور صفحۂ زمین سے ہمارا نام و نشان بھی مٹا ڈالیں۔ 

ان کے مد برانہ فیصلوں کی وجہ سے ان کی عزت میں بہت اضافہ ہو گیا 27 جولائی کو صادق ا لاخبار میں ان کی مدح میں ایک مثنوی شائع ہوئی جسے مولوی ظہور علی تھانہ دار نجف گڑھ نے لکھا تھا۔ 

بخت خاں ایک بہادر اور نڈر سپاہی تھے انھوں نے اپنی آخری سانس تک دہلی کو بچائے رکھنے کی کوشش کی مختلف مورچوں پر شریک ہوئے اور وہاں کامیابی کے جھنڈے گاڑے جس کی تصدیق اس عہد کے بیشتروقائع نگاروں نے کی ہے. ان کی رہنمائی میں انقلابیوں نے انگریزوں سے زبردست مقابلے کیے۔ ان کے اندر فوجی حکمت عملی کی صلاحیت بھی موجود تھی لیکن ان کی قیادت کو سبھی انقلابی تسلیم نہیںکررہے تھے وہ شہزادگان جو بدعنوانی میں ملوث تھے اور فوج کے وہ افسران جنھیں کم اختیارات حاصل تھے وہ ان کے احکامات کو ماننے کو تیار نہیں تھے خصوصاً غوث خاں اور سدھاری سنگھ جن کا رتبہ نیمچ میں برابر تھا دہلی میں اُن کا مرتبہ بخت خاں سے کم ہو گیا تھا اس لیے ان کے اندر بخت خاں کے لیے زبردست حسد کا جذبہ تھا اور وہ انھیں اپنا سپہ سالار ماننے کو تیار نہیں تھے.

یہ آپسی پھوٹ انگریزوں کے لیے سود مند ثابت ہوئی اور اکثر مورچوں پر انقلابیوں کو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سازشوں کے جال نے انقلابیوں کی طاقت کو کمزور بھی کیا‘ وہ الگ کمانڈر مقرر کرنے کی بہادر شاہ سے سفارش کرتے رہتے تھے خود بخت خاں نے بھی یہ خواہش ظاہر کی کہ میں صرف بریلی برگیڈ کی کمان سنبھالوں گا  اس آپسی چپلقش نے بھی تحریک کو کمزور کرنے میں حصّہ لیا اور ملک و قوم کو نااتفاقیوں کا نتیجہ بھگتنا پڑا۔بخت خاں مورچے میں مصروف تھے کہ انھیں خبر ملی بہادر شاہ نے قلعہ چھوڑ کر ہمایوں کے مقبرے میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے   اس خبر نے انھیں  بیچین کردیا وہ اسی رات بہادر شاہ کے پاس گئے اور کہا کہ حالات بے شک نازک ہیں انگریز شہر پر قابض ہو گئے ہیں انھوں نے قلعہ بھی لے لیا ہے لیکن ابھی پورا ملک ہماری طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے اور آپ کے نام سے جنگ جاری رکھی جا سکتی ہے آپ ہمارے ساتھ چلیں ہم محفوظ مقامات سے انگریزوں سے جنگ جاری رکھیں گے آدمی رسداور ہتھیار فراہم کرنے کی ذمے داری ہماری ہوگی.

بخت خاں کی تقریر کا بہادر شاہ پر اثر بھی ہوا۔ انھوں نے دوسرے دن یعنی 20ستمبر 1857کو انھیں قلعہ میں بلایا   دوسرے دن وہ پھر گئے ان کے ساتھ وزیر خاں اور مولانا فیض احمد بدایونی بھی تھے اس دوران انگریزوں کا جاسوس اور ایجنٹ الٰہی بخش جو بہادر شاہ کا سمدھی بھی تھا بہادر شاہ کوشیشے میں اتار چکا تھا  بہادر شاہ مایوس تھے اس دوران وہ دیسی راجاؤں سے مدد کی درخواست کر چکے تھے جنھوں نے ان کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا تھا اور ان کی پکار صدا بہ صحرا ثابت ہو چکی تھی31بہادر شاہ نے اپنی صحت اور ضعیف العمری کا حوالہ دے کر بخت خاں سے معذرت کر لی اور کہا کہ میرے جسم کی قوت جواب دے چکی ہے بخت خاں کی اس دوران الٰہی بخش سے تیکھی گفتگو بھی ہوئی بخت خاں نے غصّے میں تلوار بھی نکال لی بہادر شاہ نے بخت خاں کو روک دیا اور کہا کہ اب مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور تم خود ہندوستان کی لاج رکھ لو اور اپنے فرض کو انجام دو   بخت خاں ناامیدی اور مایوسی کی کیفیت میں وہاں سے لوٹ آئے۔  الٰہی بخش نے ہڈسن کو مطلع کردیا۔ بہادر شاہ کو انگریزوں نے گرفتار کرلیا اور انھوں نے اپنے اس مجرم کو جلاوطنی کی کرب ناک اذیت میں مبتلا کر کے ان سے اس جنگ آزادی میں شریک ہونے کی قیمت وصول کرلی۔

دہلی سے شکست کے بعد وہ بدایوں ہوتے ہوئے فرخ آباد پہنچے اور فتح گڈھ اور فرخ آباد کے معرکوں میں شریک ہوئے ولیم میور کے مطابق بخت خاں نانا صاحب کے بھائی (400 سو محافظ عملہ) کے ہمراہ بدایوں ہوتے ہوئے 23 اکتوبر 1857کو فرخ آباد پہنچے تھے.فرخ آباد میں بھی وہ انگریزوں سے نبرد آزما ہوئے لیکن شکست کھائی۔ انگریزوں کے تسلط سے قبل ہی دسمبر 1857کے آخری ہفتے میں فرخ آباد سے نکل گئے  اور وفادار ساتھیوں کے ساتھ لکھنؤ روانہ ہو گئے تاکہ اودھ میں ہونے والی لڑائیوں میں شریک ہوسکیں اس مرتبہ بھی ایک کثیر فوج ان کے ہمراہ تھی۔ 

بیگم حضرت محل نے ا ن کا استقبال کیا انھیں خلعت اور رومال عطا کر کے ان کی پذیرائی کی سلطان بہو نے انھیں خلد منزل میں ٹھہرایا لکھنؤ میں بھی انقلابی رہنماؤں میں گروہ بندی تھی وہ کسی گروہ بندی میں شامل نہیں ہوئے اور بیگم حضرت محل کی فوج میں شامل ہو گئے۔16 مارچ 1858 کو عالم باغ کے مورچے میں شریک ہوئے  جب لکھنؤ بھی انقلابیوں کے ہاتھوں سے نکل گیا تو بخت خاں نے شاہجہاں پور کا رُخ کیا جہاں احمد اللہ شاہ، ان کے پیر سرفراز علی اور نانا صاحب موجود تھے شاہجہاں پور میں بھی انگریزوں سے سخت مقابلے ہوئے وہاں بھی جب انگریزوں کا پلڑا بھاری ہو گیا تو ان سبھی رہنماؤں نے محمدی کا رُخ کیا۔ محمدی میں احمد اللہ شاہ نے ایک عارضی حکومت کا قیام کیا تو بخت خاں اور نانا صاحب کے ساتھ ان کی کابینہ میں شامل ہوئے اس کابینہ میں بخت خاں وزیر جنگ نانا صاحب دیوان اور سرفرازعلی (قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) بنائے گئے.

جب کو لن کیمپبل کی فوجوں نے محمدی پر قبضہ کر لیا تو وہ تحریک کے دوسرے رہنماؤں سرفرازعلی،محمود خاں حضرت محل، نانا صاحب اور عظیم اللہ خاں کے ہمراہ نیپال کی طرف نکل گئے  نیپال میں پہنچنے کے بعد بخت خاں کے بارے میں کوئی خاص جانکاری نہیں ملتی۔رکٹس نے لکھا ہے کہ بخت خاں بڑی جستجو کے بعد کہیں نہ ملا  ڈاکٹر سین نے لکھا ہے کہ وہ 13 مئی 1859کو ایک لڑائی میں مارا گیا 44 ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن بنیر ضلع سوات زخمی حالت میں پہنچ گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا  لیکن اس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ انگریز اپنے ازلی دشمن کو پکڑنے میں ناکام رہے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنماؤں میں بخت خاں کا مرتبہ بہت بلند ہے۔

 جواہر لال نہرو کے اس بیان کی صداقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ :’’ اگر دہلی کی ساری جنگ کا ’تاج‘ بہادر شاہ ظفر تھا اور ہاتھ پاؤں ہندو، مسلمان تھے تو اس جنگ کا دماغ بخت خاں تھا۔‘‘ 

بخت خاں نے اپنی پوری زندگی انگریزوں کے غاصبانہ تسلط سے نجات دلانے کے لیے صرف کردی۔ شجاعت اور اولوالعزمی کے اس پیکر نے وطن مالوف کو غیر ملکی قبضے سے نجات دلانے کے لیے جو کوششیں کیں وہ تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں اور جنھیں فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔