بہادرشاہ ظفر:جس نے لال قلعے سے ادبی سلطنت پر حکومت کی

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 21-10-2021
بہادرشاہ ظفر
بہادرشاہ ظفر

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

بہادرشاہ ظفرؔکوآخری مغل تاجدار کے طور پردنیا جانتی ہے مگراسی کے ساتھ وہ شاعر، فلسفی اور صوفی منش انسان بھی تھے۔حالانکہ وہ بادشاہ، صرف نام کے تھے۔ مغلوں کا چراغ تو پہلے ہی فرنگی ہوا نے بجھا دیا تھا۔وہ محض ایک علامتی بادشاہ تھے جس کی سلطنت لال قلعے تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ انگریزوں سے پنشن پاتے تھے اور بیوی، بچے بھی بادشاہ کی نہیں سنتے تھے۔

بہادرشاہ ظفرکون؟

بہادر شاہ ظفر 24 اکتوبر 1775 کو پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام مرزا ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفرؔ تھا۔ وہ مغل خاندان میں پیدا ہوئےلیکن بیشتر مغلوں کی طرح ان کی والدہ ایک ہندو خاتون تھیں۔ بہادر شاہ ظفر نے اردو ، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی تھی۔

انھیں سپہ گری کی بھی تعلیم دی گئی تھی جو اس دور میں عموماً شہزادوں اور سپاہیوں کے بچوں کو دی جاتی تھی۔ گھوڑ سواری اورتیر اندازی وغیرہ سے بخوبی واقف تھے۔وہ پتنگ بازی میں بھی ماہرتھے اور مشہورہے کہ جمناکے کنارے پتنگ اڑانے چلے جاتے تھے۔

حالانکہ ان کی خاص دلچسپی شاعری وسخنوری میں تھی۔

awaz

رنگون(میانمار) میں بہادرشاہ ظفر کی آخری آرامگاہ

سخنوراور سخن نواز

وہ ایک قادرالکلام شاعرتھےاوران کے ہم نشینوں میں اہل سخن کی تعداد زیادہ تھی۔ اردوکے سب سے نمایاں شعرا میں سے دوابراہیم ذوقؔ اور اسد اللہ خان غالبؔ تو ظفرؔ کی شاعری پراصلاح بھی دیا کرتے تھے۔

ان کافطری رجحان سیاست سے زیادہ ادب کی جانب تھا،یہی وجہ ہے کہ وہ کامیاب سیاست داں کے بجائے،حساس سخنور لگتے ہیں۔وہ بچپن سے ہی سیاست کے تئیں زیادہ پرجوش نہیں تھے، اس کے برعکس ادب، تصوف ، موسیقی اور دیگر تہذیبی سرگرمیوں کی جانب میلان طبع رکھتے تھے۔

 

سیاست سے عدم دلچسپی

اکبر شاہ ثانی کی موت کے بعد28 ستمبر 1837 کوبہادر شاہ ظفر کو تخت پر بٹھایاگیا۔وہ بیس سال تک بادشاہ رہے۔انھیں تختِ سلطنت بھی اس لئے ملا کہ ان کے سوتیلے بھائی کو انگریزتخت پر نہیں بٹھانا چاہتے تھے۔

انگریزوں کو ظفرؔ سے کوئی خطرہ نہیں محسوس ہوتاتھا۔حالانکہ ایک وقت وہ بھی آیا جب آزادی کے متوالوں نے انھیں اپنا لیڈر منتخب کرلیا اورپہلی آزادی کی لڑائی ان کی قیادت میں لڑی گئی۔

مشترکہ تہذیب میں یقین

ایک بادشاہ کی حیثیت سے ان کے پاس کرنے کے لئے کچھ خاص نہیں تھا مگر ایک محب وطن ہندوستانی اورادب وتہذیب کے دلدادہ کے طور پروہ بہت کچھ کرسکتے تھے اور انھوں نے کیا بھی۔

ان کا خیال تھا کہ کسی بھی حکومت میں تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے اوراپنے دور حکومت میں انہوں نے دربار میں سبھی مذاہب کو جگہ دینے کی کوشش کی۔

بڑے ہندو تہوار ہولی اور دیوالی کا اہتمام لال قلعے میں ہوتا تھا اور بادشاہ خود بھی شرکت کرتے تھے۔ وہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات کا بہت احترام کرتے تھے ، اور ایک مسلمان ہوتے ہوئے بھی شدت پسندی کے قائل نہیں تھے۔

بہادر شاہ ظفر ،اورنگزیب عالمگیر کی اولادسے تھےلیکن ان دونوں میں لگ بھگ180سال کا فرق تھا۔ دونوں کے درمیان کئی پشتوں کا فاصلہ تھا، ساتھ ہی مزاج کا بھی بڑا فرق تھا۔

جہاں اورنگ زیب ایک طاقتورحکمران تھا ،وہیں بہادر شاہ ظفر ااورنگ زیب کی ہی نسل کے کمزور ترین بادشاہ تھے۔ جنگ آزادی1857کے لئےانھیں سبھی مذاہب کے لوگوں نے قائدچنا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تمام طبقوں میں یکساں مقبول تھے۔

awaz

لال قلعے کا آخری مشاعرہ(ڈرامہ) میں بہادرشاہ ظفر کے کردار میں ٹام الٹر

ماں کا اثر

آخری مغل بادشاہ مخلوط ہندوستانی کلچر کے رنگ میں رچے بسے تھے۔ یہ اس لئے بھی تھا کہ ان کی ماں لال بائی، ہندو پس منظر سے تھیں اور انھوں نے جانے انجانے میں ماں اور باپ دونوں سے اثرات قبول کئے تھے۔

یوں تو مغلوں میں ہولی کا تہوار منانے کی روایت عہدقدیم سے چلی آرہی تھی مگربہادر شاہ ظفراس کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ مشہور ہے کہ ہولی پران کےوزیرانہیں رنگ لگانے جایا کرتے تھے۔

اسے’’عیدگلابی‘‘ کہا جاتا تھاکیونکہ ہولی میں ایک دوسرے پرعرق گلاب ڈالاجاتا تھا۔ اس سلسلے میں ظفر کا ایک دوہا بھی ہے:

کیوں موپہ رنگ کی ماری پچکاری

دیکھو کنورجی دوںگی گاری

ادب سے شغف

بہادرشاہ ظفرؔ نے جب ہوش سنبھالا توخود کو شعروادب کے درمیان پایا۔ لال قلعے میں مرد ہی نہیں بیگمات شاہی بھی ادبی ذوق رکھتی تھیں۔

خدائے سخن میرتقی میرؔپیرانہ سالی کے دور سے گزر رہے تھے مگر شہرت عروج پر تھی، جب کہ میردردؔ ،مرزامظہر جان جاناں اور مرزا رفیع سوداؔ کاعہد گزرچکا تھا۔ خودظفرؔکے عہد میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک شاعرتھا۔

قلعہ معلیّٰ میں بادشاہ کی سرپرستی میں مشاعرے ہوتے رہتے تھے۔ اس موقع پر باشاہ بھی اپنا کلام سناتے تھے۔ ظفرؔ اچھے شاعر تھے۔عموماً غزلیں کہا کرتے تھے۔ان کی کلیات آج بھی محفوظ ہے اور ان کی بعض غزلیں عوام میں مشہور ہیں اور معروف سنگرس نے آوازیں دی ہیں۔ جیسے:

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

یار تھا گلزار تھا مے تھی فضا تھی میں نہ تھا

لائق پابوسِ جاناں کیا حنا تھی میں نہ تھا

رنگون جلاوطنی کے دوران انھوں نے جو شاعری کی ہے،اس میں دردکی انتہا ہے:

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آسکے، میں وہ ایک مشت غبار ہوں

کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

اگرچہ انھیں ایک غزل گوکے طورپر شہرت ملی مگرمخمس، مسدس، قصائد، سہرا، دوہے، ٹھمری، گیت، قطعات وغیرہ بھی لکھے ہیں۔