بہادر شاہ ظفر ویر ساورکرکی نظر میں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 23-10-2021
بہادر شاہ ظفر ویر ساورکرکی نظر میں
بہادر شاہ ظفر ویر ساورکرکی نظر میں

 

 

awaz

ثاقب سلیم، نئی دہلی

انتخابی سیاست کا سب سے بڑا مقصد پسماندہ افراد کوبلند کر انہیں متحد کرنا تھا، مگر خود غرض سیاستدانوں کی مصلحت پرستانہ روش نے خود ان پسماندہ طبقوں کو چھوٹے چھوٹے خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔

پھر یہ چھوٹےچھوٹے خانے مذہب، ذات، زبان، خطہ، رنگ ونسل اور تہذیب و ثقافت کی بنیاد پراپنی شناخت بنانےمیں الجھتے چلے گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کیمپوں یا خانوں کی شناخت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی اور اب خود ملک تقسیم شدہ گھروندے کی مانند لگنے لگا ہے۔

اوراب صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ ایک خیمے سے تعلق رکھنے والے افراد دوسرے خیموں کے لوگوں کے لیے بھی قابل ذکر ہستی نہیں رہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک خیمے کی حرکات و سکنات دوسرے خیموں کے لوگوں کے لیے کبھی توجہ کا مرکز نہیں بن سکی۔ حتیٰ کہ ایک خیمے والے افراد دوسرے خیمےکے لوگوں یا رہنماوں کو صرف اس لیے تسلیم نہیں کرپاتے کہ وہ ایک مختلف گروہ یا خیمے سے تعلق رکھتے ہیں۔

تاہم سوسال پہلے ہم ہندوستانی ایسے نہیں تھے۔ ہندوتوا کے سیاسی نظریات کے علمبرداروں میں سے ایک ونایک دامودر ساورکر نے 20 ویں صدی کے پہلے عشرے میں ایک کتاب 1857 کی ہندوستانی جنگ آزادی(The Indian War of Independence of 1857) لکھی تھی۔نئی نسل کو یہ جان کو حیرت ہوگی کہ ساورکر نے1857 کی جنگ کے مسلمان انقلابیوں کی تعریف کی تھی۔

آج بہادر شاہ ظفر کی سالگرہ کے موقع پرمیں آخری مغل بادشاہ کے بارے میں ساورکر کے نظریات کو اشتراک کرنا چاہوں گا۔

ساورکر کا خیال تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں اور بہادر شاہ ظفر کو ان دونوں نے اپنا لیڈر منتخب کیا تھا۔ قرون وسطی کے حکمرانوں کے برعکس بہادر شاہ ظفر نے تلوار کی طاقت سے تخت پر قبضہ نہیں کیا، اس کے بجائے انہیں ہندوستانیوں نے اپنا حکمران تسلیم کیا تھا۔

ساورکر نے لکھا کہ صحیح معنوں میں بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان کے تخت پر بٹھانا کوئی تقرری کا معاملہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ اعلان تھا کہ ہندو اور مسلمان کے مابین دیرینہ جنگ ختم ہو گئی ہے، ظلم ختم ہو گیا ہے اور یہ کہ اس مٹی کے لوگ اپنے بادشاہ کے انتخاب کے لیے ایک بار پھرآزاد ہیں۔ بہادرشاہ ظفردراصل ہندوستانی شہریوں کی آواز تھے، جنہیں ہندو، مسلمان، سول سوسائٹی اور فوجیوں نے جنگ آزادی ہند کا سربراہ تسلیم کیاتھا۔

 اس لیے11مئی کواکبر یا اورنگ زیب کے تخت پر براجمان ہونےوالا شہنشاہ بہادرشاہ ظفریہ کوئی پرانامغل بادشاہ کا جانشین نہیں تھا بلکہ وہ آزادی کی جنگ لڑنے والے لوگوں کا آزادانہ طور پر منتخب بادشاہ تھا۔

آئیے ہندواور مسلمان11 مئی 1857 کومنتخب ہونے والے اپنے شہنشاہ کو مخلصانہ اوروفادارانہ خراج عقیدت پیش کریں!

ساورکر کا خیال تھا کہ آزادی کی جدوجہد 1757 میں پلاسی کی جنگ میں نواب کی شکست سے شروع ہوئی اور1857 تک مختلف انقلابی جنگجووں نے اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کیا۔ تقریباً ایک صدی کی جدو جہد کے دوران گدی آف تنجور، میسور کی مسند اور رائے گڑھ کی شاہہیدری نے اپنے اپنے کردار ادا کئے، بالآخر دہلی کے دیوان خاص نے 1857 میں آزادی ہند کی جدوجہد کی قیادت سنبھالی۔

ناناصاحب اوران کے وزیرعظیم اللہ جیسے قوم پرست ہندوستانی برطانوی راج کے خلاف آزادی کی منظم جنگ کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کئی راجاوں ، نوابوں ، مہاراجوں اور شہزادوں کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم بہادر شاہ ظفر نے انقلاب کے خیال کو دل و جان سے قبول کیا تھا۔

 ظفر اپنے قوم کی کھوئی ہوئی عزت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے تھےاور غلامی کی زندگی گزارنے کے بجائے شہنشاہ کی موت کو ترجیح دیتے تھے۔ ساورکرنے یہ بھی تحریر کیا کہ 10 مئی کو میرٹھ میں سپاہیوں کے بغاوت کرنے سے پہلے بہادر شاہ ظفر اور ان کے ہم خیال انگریزوں کے خلاف بغاوت کے بارے میں کھل باتیں کر رہے تھے اورانگریزوں کے ملک سے نکالے جانے کے بعد حکومت سازی سے متعلق منصوبہ بنا رہے تھے۔

دہلی کے سپاہی بیرک پور میں منگل پانڈے کی شہادت کی خبر پر بغاوت کرنا چاہتے تھے، لیکن بہادر شاہ ظفر نے انہیں اس قسم کے فوری ردعمل سے روکا کیونکہ جنگ شروع کرنے کی کی تاریخ 31 مئی رکھی گئی تھی، جس میں ابھی دو ماہ باقی تھے۔ وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ انگریزوں سے جنگ جیتنے کے لیے منصوبہ بند حکمت عملی کے مطابق اقدامات کرنے ہوں گے۔

ساورکر افسوس کے ساتھ لکھتےہیں کہ بدقسمتی سےمیرٹھ کے سپاہیوں نے طے شدہ تاریخ سے 21 دن پہلے بغاوت کر دی اور دہلی کی طرف مارچ شروع کیا۔ تاہم بہادرشاہ ظفرجنگ کی اس قبل از وقت قیادت میں ہچکچاہٹ محسوس کررہےتھےاورتب تک سپاہیوں نے دہلی کو انگریزوں سے پاک کر دیا تھا۔

اس وقت سپاہیوں نے شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر کو ایک میمورنڈم پیش کیا۔ جس میں لکھا تھا کہ میرٹھ میں انگریزوں کو شکست ہوئی ہے، دہلی آپ کے ہاتھ میں ہے اور پشاور سے کولکاتہ تک تمام سپاہی اور دیگر حکام آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔ پورا ہندوستان غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور خدا کی دی ہوئی آزادی کو حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔

اس وقت آزادی کا جھنڈا آپ اپنے ہاتھوں میں لے لیں تاکہ ہندوستان کے تمام جنگجو اس کے نیچے لڑنے کے لیے جمع ہوسکیں!۔ ہندوستان نےآزادی کودوبارہ حاصل کرنے کے لیے لڑنا شروع کر دیا ہے اور اگرآپ اس کی قیادت کو قبول کرلیں تو بہتر ہے۔

awaz

شہنشاہ بہادرشاہ ظفرکی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا کہ اےہندوستان کے بیٹوں، اگرہم نےاپنا ذہن بنا لیا تو ہم دشمن کو کچھ ہی وقت میں تباہ کر سکتے ہیں! ہم دشمن کو نیست ونابود کر دیں گےاوراپنے ملک کو خوف سے نجات دلائیں گے جو ہمیں جان سے بھی عزیز ہے!

یہی نہیں بلکہ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا اور ساورکر کے مطابق گائے کے ذبیحہ پر مکمل پابندی لگا دی۔ بہادر شاہ ظفر نے اس موقع پر مزید کہا تھا تمام ہندواورمسلمان اس جدوجہد میں متحد ہوں اور کچھ معزز رہنماؤں کی ہدایات پرعمل کرتے رہیں۔

ساورکر نے لکھا ہے کہ اگر یہ باتیں ظفر کی سیکولر قوم پرستی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں تو ظفر کے ان خطوط کو دیکھنا چاہیے جو انہوں نے ہندو راجاوں کو بھیجے تھے۔ ظفر نے اپنے بڑھاپے کی وجہ سے دوسرے راجاؤں کو تخت سنبھالنے کی بھی دعوت دی تھی۔

ساورکر نے ان کے ایک خط کا حوالہ دیا کہ میری (ظفر کی) شدید خواہش ہے کہ ہر طرح سے اور کسی بھی قیمت پر فرنگیوں کو ہندوستان سے باہر نکالا جائے اورپورا ہندوستان آزاد ہو جائے۔ تاہم یہ انقلابی جنگ جس مقصد کے لیے چھیڑی گئی ہےاُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کہ تحریک کا سارا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھنے والا آدمی اس کو منظم انداز میں چلانے کے لیے تیار نہ ہو جائے۔

اس وقت ایک ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو قوم کی مختلف قوتوں کو منظم اور مرتکز کر سکتا ہو اورتمام طبقے کے لوگوں کو متحد کر سکتا ہو، نیزاس کی درست رہنمائی کر سکتا ہواورمیری ایسی کوئی خواہش نہیں ہے کہ انگریزوں کے ہندوستان سے بے دخل ہونے کے بعد میں ہندوستان پرحکمرانی کروں اورنہ میں کسی بھی اعتبارسے اپنی ذاتی ترقی چاہتا ہوں۔

اگر یہاں کے تمام مقامی راجہ دشمن کو بھگانے کے لیے اپنی تلواریں نیام سے نکالنے کے لیے تیار ہو جائیں تو میں اپنے شاہی اختیارات کسی بھی مقامی شہزادوں میں سے ایک کودینے کے لیےتیار ہوں۔ ساورکر کا خیال تھا کہ یہ الفاظ آخری مغل بادشاہ کے نیک ارادوں کی گواہی دے رہے ہیں۔ان کے خیال میں یہ الفاظ ہندوؤں اور مسلمانوں کی حب الوطنی میں ہم آہنگی کے مذہبی جذبات کے بے مثال اتحاد کو بھی ظاہر کررہے ہیں۔

ساورکر نے اپنی کتاب کا اختتام بہادر شاہ ظفر کے لکھے ہوئے اس شعر پر کیا ہے:

غازیوں میں بو رہے گی جب تلک ایمان کی

تب تو لندن تک چلے گی تیغ ہندوستان کی

نوٹ: ثاقب سلیم مصنف و تاریخ نگار ہیں۔