سید تالیف حیدر
اسلامی روایت کے مطابق اگر ایک وقت میں کوئی ایک ایسا حاکم موجود ہو جس کے ہاتھ پہ جمہور نے بیعت کر لی ہو تو اس کے مقابل کسی بھی شخص کے الدعی کو قبول نہیں کیا جاتا اور مدعی واجب القتل ہوتا ہے ۔ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی کے بعد جب یزید ابن معاویہ خلیفہ وقت ٹھہرایا گیا تو اس کے مخالفت میں چار بڑی شخصیات نے آواز بلند کی، جن میں ایک نام امام حسین علیہ السلام کا بھی تھا۔ چوں کہ یزید اسلامی احکامات کا پابند نہ تھا اس لیے امام حسین نے اسے خلیفہ تسلیم کرنے سے انکار کیا ۔ اس مخالفت کا ساتھ حضرت علی کے دارالخلافہ کوفہ کے ساکنان نے بھی دیا کوفہ سے امام حسین کو ہزاروں لوگوں نے خطوط بھیجے کہ آپ حق بجانب ہیں اور ہم آپ کے ساتھ ہیں ، خلافت کے اصل حق دار آپ ہیں لہذا آپ کوفہ تشریف لائیں تاکہ ہم آپ کے ہاتھ پہ بیعت کر سکیں ۔
امام حسین نے جب بڑی تعداد میں لوگوں کے خط وصول کیے تو اپنے نائب جناب مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ کوفہ کے صحیح حالات کا جائزہ لیں اور انہیں آگاہ کریں ۔ مسلم بن عقیل نے جب کوفہ پہنچ کر یہ دیکھا کہ یہاں کے لوگ واقعی امام حسین کے ساتھ ہیں تو انہوں نے امام حسین کو کوفہ بلانے کی سعی کی ۔
لہذاتیسری ذی الحجہ کو امام حسین اپنےبیاسی رفقا کے ساتھ کوفہ کی جانب روانہ ہوگئے جن میں مسلم بن عقیل کی اولادیں بھی تھیں ۔اس دورا یزید نے بڑھتی مخالفت کے باعث کوفہ کے گورنر کے طور پر ابن زیاد کو منتخب کیا ۔ ابن زیاد نے کوفہ کے لوگوں سے اس طرح کا معاملہ کیا کہ اہل کوفہ امام حسین کا ساتھ چھوڑنے لگے اور مسلم بن عقیل کو اہل کوفہ نے قتل کردیا ۔
امام حسین اس دوران مدینہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہو چکے تھے۔ مکہ سے کوفہ کی دوری ایک ہزار کلو میٹر کی تھی ۔ جس کی مصافت بیس روز کی تھی۔ مسلم بن عقیل نے قتل سے قبل اہل کوفہ سے یہ گزارش کی کہ اگر تم میں کوئی اہل ایمان ہے تو یہ خبر امام حسین تک پہنچا دے کہ اہل کوفہ باغی ہو چکے ہیں ۔ لہذا جب امام حسین مکہ سے روانہ ہوئے تو مقام صفاح پہ مشہور عربی شاعر فرزدق ان سے ملا جو کوفہ سے آ رہا تھا اس نے امام حسین سے کہا کہ اہل کوفہ خائف ہیں ابن زیاد سے۔ان کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں ۔
یہ سن کر امام حسین کو اہل خانہ کے لیے تشویش ہوئی۔اس کے بعد جب وہ عراق کی سرحد میں داخل ہوئے تو بشیر بن غالب نے انہیں یہ پیغام پہنچایا کہ یا ابن رسول اللہ آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ الکوفی لایوفی اس پہ امام حسین نے اثبا ت کیا اور انہیں حالات کا اندازہ ہو نے لگا۔ لہذا جب امام حسین بطن الرمہ کے مقام پہ پہنچے تو انہوں نے قیس بن مسہر کو ایک خط دے کر کوفہ روانہ کیا جس میں انہوں نے اہل کوفہ سے کہا تھا کہ اہل کوفہ تم خاطر جمع رکھو میں جلد تمہارے پاس آرہا ہوں ۔ لیکن ان کا یہ خط اہل کوفہ تک نہ پہنچا اور ابن زیاد نے قیس بن مسہر کو کوفہ میں ایک مکان کے چھت سے نیچے پھینک کر شہید کر دیا ۔
امام حسین جب اس مقام سے آگے بڑھے اور شقوق پہنچے تو کوفہ سے ایک اور شخص آکر ان سے ملا اور انہیں بتایا کہ مسلم بن عقیل اور ان کے ساتھ ہانی بن عروہ کو اہل کوفہ نے قتل کر دیا جس پہ امام حسین کو بہت افسوس ہوا اور انہوں نے اگلے مقام ذبالہ پہ پہنچ کر اس خبر کو متحقق کیا اور قصر بنی المقاتل میں مقیل ہوئے ۔ وہاں سے اگلے مقام ثعلبیہ تک کئی بار غور کیا کہ واپس لوٹ جانا چاہیے اور پھر منزل قطقطانہ میں اپنے تمام اہل سفر کو جمع کیا اور مسلم بن عقیل کے قتل اور اہل کوفہ کی بے وفائی کا تذکرہ کرتے ہوئے سب سے کہا کہ جو یہاں سے واپس جانا چاہیے چلا جائے ۔کیوں کہ اب اہل کوفہ ہمارے ساتھ نہیں ۔دس لوگ وہیں سے واپس ہوگئے۔ حضرت مسلم بن عقیل کی اولاد سے بھی امام حسین نے گزارش کی کہ تمہارے والد شہید ہوگیے میں نہیں چاہتا کہ تم کو کچھ نقصان ہو ۔ لہذا تم بھی یہاں سے لوٹ جاو۔
مگر ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ نہیں ہم آپ کے ساتھ آخیر تک رہیں گے ۔ اس کے بعد آپ مقام ماریہ پہ پہنچے جو کوفہ سے دو دن کی دوری پہ تھا تو انہیں ابن زیاد کا بھیجا ہوا لشکر ملا جس کے سپہ سالار حر تھے انہوں نے امام حسین سے کہا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ میں آپ کو یہاں سے آگے نہ بڑھنے دوں جس کے جواب میں امام حسین نے کہا کہ میں خود اپنے لیے نہیں آیا بلکہ اہل کوفہ کے اصرار پہ یہاں آیا ہوں ۔ حر کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ حیران ہوئے کیوں کہ اہل کوفہ کے خطوط کی خبر اس وقت تک بہت کم لوگوں کو تھی ۔
حر نے جب یہ سنا تو امام حسین سے کہا کہ مجھے ابن زیاد نے یہ حکم دیا ہے کہ آپ پہ پانی بند کر دوں اور آپ کو یہ یہیں قید کر دوں ۔ لیکن میں قیامت کے دن سے ڈرتا ہوں کہ آپ نواسہ رسول ہیں ۔ لہذا میری خواہش ہے کہ آپ یہاں سے لوٹ جائیں کیوں کہ اہل کوفہ اب آپ کے ساتھ نہیں ہیں ۔ امام حسین نے سنا تو وہ مقام ماریہ سے واپس ہوئے، لیکن یہ روایت ہے کہ مسلم بن عقیل کی اولادوں نے اصرار کیا کہ ہم اپنے والد کا بدلا لیں گے۔ ان کے اصرار پہ امام حسین نے ان کو حق بجانب پایا۔ لیکن امام حسین جنگ نہیں چاہتے تھے لہذا انہوں نے عمر و بن سعد جو ابن زیاد کے ایک لشکر کا حاکم تھا اس کے سامنے تین شرطیں رکھیں ۔
1۔ مجھے وہیں لوٹ جانے دو جہاں سے میں آیا ہوں
2۔ مجھے یزید سے اپنا معاملہ طے کر لینے دو
3۔ مجھے سرحدوں کی طرف چلے جانے دو
عمرو بن سعد ان شرطوں سے خوش ہوا کہ غالباً یہ مناسب راہ ہے لیکن ابن زیاد جو ظالم تھا اس نے ان اسے قبول نہ کیا اورشمر ابن الجوش کے بھڑکانے پہ کہ اگر اس مرتبہ امام حسین کو چھوڑ دیا تو وہ دوبارہ بڑا لشکر لائیں گے، انہیں ان میں سے کسی بھی شرط پہ عمل کرنے سے روکنے پر آمادہ ہوگیا۔ اس کے بعد ایک روایت میں ہے کہ امام حسین نے مقام ماریہ کے اصل نام کو جاننے کی کوشش کی تو انہیں معلوم ہوا کہ اس مقام کا ایک نام کربلا ہے جس پہ انہوں نے وہیں خیمے نسب کر دیے کہ یہ ہی وہ مقام ہے جہاں میں شہید ہوں گا