صوفیوں اور پیغمبروں کا شہر ایودھیا

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 08-06-2023
بڑی بوا کی قبر سے متصل یتیم خانہ
بڑی بوا کی قبر سے متصل یتیم خانہ

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

چینی سیاح ہیوین سانگ 7ویں صدی میں راجہ ہرش وردھن کے عہد حکومت میں ہندوستان آیا تھا۔ وہ ایودھیا بھی گیا۔اس نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ "ایودھیا میں ایک سو وہار ہیں اورکئی ہزار پجاری ہیں۔" ایودھیا ماضی میں بدھسٹوں اور ہندووں کے لئے ہی نہیں مسلمانوں کے لئے بھی متبرک شہر رہا ہے۔تاریخی روایات کے مطابق یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے اور یہ انبیاء و اولیاء کا مسکن رہا ہے۔ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے درباری محقق ابوالفضل نے "آئین اکبری" میں لکھا ہے کہ "شہر کے نزدیک چھ سات گز لمبی دوقبریں ہیں جنہیں عوام شیث وایوب پیغمبر کا مدفن بناتے ہیں اور ان کے متعلق عجیب وغریب قصے سناتے ہیں۔"۔ابوالفضل نے مزید لکھا ہے کہ ایودھیا کو مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔

ایودھیا یعنی حرم

لفظ "ایودھیا" کا مطلب ہوتا ہے"وہ مقام جہاں یدھ (لڑائی)نہ ہو"۔ یہی مطلب لفظ "حرم"کا بھی ہے۔ شہرمکہ کے تعلق سے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہاں جنگ وجدال حرام ہے اور چیونٹی تک کو نہیں مارسکتے۔ ایودھیا اور مکہ میں یہ مناسبت محض اتفاقی نہیں ہے، ضرور اس کا تعلق انبیا سابقین سے ہے۔ اسے"مکہ خرد" یعنی چھوٹا مکہ بھی کہاجاتا رہا ہے۔ جہاں رامائن کی روایتوں میں اس شہر کا بانی "منو" کو قرار دیا جاتا ہے، وہیں مسلم روایتوں میں "نوح" کو شہر کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں "منو" ہی "مہانوح" ہیں۔

awaz

تیس ہاتھ لمبی کس کی قبرہے؟

صوفیوں کا شہر

ایودھیا "شہرِانبیاء" ہے یا نہیں؟ یہ سوال محل نظر ہے مگر یہ "شہراولیاء"ہے،اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ثبوت کے طور پر آپ یہاں گلی گلی میں پھیلی درگاہوں کو دیکھ سکتے ہیں۔یہاں جن بزرگوں کی پیدائش یا موت ہوئی ان میں نمایاں نام ہیں قاضی قدوۃ الدین، شیخ فریدالدین اودھی،شیخ بدرالدین اودھی، قاضی محی الدین کاشانی، شیخ تقی الدین علم بخش، شیخ شمس الدین اودھی، شیخ جلال الدین اودھی، مولانا قوام الدین اودھی، مولانا جمال الدین اودھی، علامہ کمال الدین اودھی، شیخ نصیرالدین اودھی، شیخ علاء الدین نیلی، شیخ زین الدین علی اودھی، شیخ شمس الدین علی اودھی، شیخ فتح اللہ اودھی،شیخ سعداللہ اودھی، شیخ جمال گوجری، شیخ صدرالدین اودھی، قاضی شہاب الدین ، سیدسلطان موسیٰ عاشقان،شیخ میاں بن حکیم، شیخ محمد درویش، شیخ علاءالدین حسینی، شیخ ،عاشق شاہ اودھی،سید شاہ صفدرحسین، حکیم محمد اسلم اودھی، شیخ عبدالحق اودھی وغیرہ۔ ان میں کئی حضرات کا تعلق سیدھے طور پر محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء سے تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایودھیا کے نام پر خواہ پورے ملک میں فرقہ وارانہ سیاست ہوئی مگر ایودھیا آج بھی سیکولر ہے اور یہاں کے باشندے رواداری، قومی ہم آہنگی اور انیکتا میں ایک ایکتا کی مثال ہیں۔ یہاں آج بھی مزارات اور مساجد کی رکھوالی کرنے والوں میں بڑی تعداد ہندووں کی ہے۔

awaz

حضرت شیث علیہ السلام کی قبر

پیغمبروں کی قبریں

حضرات شیث و ایوب کی قبریں ایودھیا میں ریلوے اسٹیشن کے پیچھے ایک احاطے کے اندر واقع ہیں۔ احاطے کے پاس ایک ٹیلہ بھی ہے جسے منوپربت کہتے ہیں۔ راقم الحروف کو 1987 میں دومرتبہ یہاں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔اس مقام پر پہنچ کر انتہائی سکونِ قلب کا احساس ہوتاہے اور دل میں سوزوگداز کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

حضرت شیث علیہ السلام ، ابوالبشر آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے اور نسل انسانی، صرف شیث کے ذریعے ہی آگے بڑھی۔ ان کا زمانہ ماقبل تاریخ کا ہے لہٰذا حتمی طور پر ان کی قبر کی نشاندہی ممکن نہیں۔ یہی بات حضرت ایوب کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے مگر مورخین اور سیر نویسوں میں یہ بات مشہور چلی آرہی ہے کہ ان بزرگوں کی قبریں ایودھیا میں ہیں۔

ائین اکبری میں ابوالفضل نے، خلاصۃ الاحادیث میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے خلاصۃ الوقائع میں علامہ شہاب الدین دولت آبادی نے اور تواریخ انبیاء میں منشی سرفراز خان دہلوی نے یہ بات لکھی ہے۔ علاوہ ازیں دوسرے لگ بھگ ایک درجن مورخین اور مصنفین نے بھی ایودھیا میں انبیاء کرام کی قبروں کی موجودگی کی بات کہی ہے۔

ایودھیا میں ایک انتہائی لمبی قبر کوتوالی کے پیچھے ایک احاطے میں ہے جسے نوگزی قبر کہتے ہیں، اسی مناسبت سے اس محلے کو بھی نوگزی محلہ کہتے ہیں۔ راقم الحروف کو یہاں حاضری کا موقع ملا اور قبر کو ہاتھ سے ناپ کر دیکھا تو اس کی طوالت لگ بھگ تیس ہاتھ پائی۔ یہاں سالانہ عرس ہوتا ہے۔ تاریخی کتابوں میں اس قبر کا ذکر موجود ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے نوح علیہ السلام کے بیٹے ہند کی قبر قرار دیا ہے تو بعض کا ماننا ہے کہ یہاں کشتی نوح کے ٹکڑوں کو دفن کیا گیا تھا۔ بہرحال یہ معاملہ بھی قبل از تاریخ کا ہے لہٰذا یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔

خواجہ عثمان ہارونی کے خلیفہ کی قبر

دہلی میں مسلم سلطنت کے قیام کے وقت سنٹرل ایشیا کے جو صوفیہ ہندوستان آئے ان میں معروف نام خواجہ معین الدین چشتی کا ہے مگر کم لوگ جانتے ہیں کہ اسی عہد میں ایک اور بزرگ ہندوستان آئے جو آپ کے پیر بھائی تھے۔ خواجہ صاحب نے تو اجمیر میں قیام کیا مگر ان کے پیربھائی نے ایودھیا کو مسکن بنایا۔ یہ بزرگ تھے قاضی قدوۃ الدین جو خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ان کی قبر زیرتعمیر رام مندر کے سامنے ہے جہاں کبھی بابری مسجد واقع تھی۔ قاضی صاحب کی اولاد پورے علاقے میں پھیلی اور پچاس سے زیادہ گائووں آباد ہوئے۔ ان کی اولاد کے لوگ قدوائی کہلاتے ہیں۔ قاضی صاحب کے بارے میں تفصیلات نزہۃ الخواطر میں ہیں۔

  چراغ دہلی ایودھیا کے تھے

دہلی میں مدفون کئی صوفیہ اور بزرگوں کا تعلق ایودھیا سے تھا جن میں حضرت نظام

الدین اولیاء کے خلیفہ و جانشیں شیخ نصیرالدین چراغ دہلی بھی شامل ہیں۔ شیخ کی ابتدائی زندگی ایودھیا میں گزری، جوانی میں دہلی آئے مگر اپنے اہل خانہ سے ملاقات کے لئے ایودھیا جاتے رہتے تھے۔ شیخ کی بہن کی قبر شہر میں موجود ہے اور "بڑی بوا" کی درگاہ کے نام سے مشہور ہے۔

ایودھیا میں جن اولیا وصوفیہ کی درگاہیں آج بھی موجود ہیں، ان میں ایک درگاہ خلیفہ نظام الدین اولیاء بھی ہے جو مزار شیث سے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے۔ ان کے بارے میں زیادہ جانکاری کتابوں میں نہیں ملتی بس عوام میں یہ مشہور ہے کہ مرحوم، نظام الدین اولیا کے خلیفہ تھے۔

awaz

بڑی بوا کی قبر

ایودھیا کی درگاہیں

درگاہ پاتی شاہ، سری رام اسپتال کے قریب واقع ہے جہاں ماضی میں خانقاہ ، قبرستان بھی ہوا کرتے تھے مگر اب صرف ایک مسجد بچی ہوئی ہے۔

درگاہ شاہ ابراہیم بھی مشہور ہے۔ مغل عہد کے اس صوفی کا عرس رجب مہینے میں ہوتا ہے جس میں بڑی تعداد میں ہندوومسلمان شریک ہوتے ہیں۔عوام کا عقیدہ ہے کہ یہاں چالیس دن آنے والے کی دعائیں بارگاہ الٰہی میں قبول ہوتی ہیں۔

محلہ شاہ مدار میں شاہ علی اکبر چشتی کی درگاہ ہے جو عہد آصف الدولہ میں تھے اور نواب کے ہمنوا تھے۔اسی کے قریب پیرکشائی کی درگاہ ہے جن کے بارے میں مشہورہے کہ سیدسالار مسعود غازی کے استاد تھے۔

ہنومان گڑھی محلہ میں شاہ بدیع الدین کی درگاہ ہے جو عہد عالمگیری کے صوفی تھے۔ یہ رہنے والے جونپور کے تھے مگر ایودھیا چلے آئے تھے اور یہیں انتقال فرمایا تھا۔

ایودھیا کوتوالی کے پیچھے ایک درگاہ ہے جو تین درویشوں کی درگاہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس مقبرے میں تین قبریں ہیں مگر تینوں درویشوں کے بارے میں کوئی جانکاری موجود نہیں ہے۔

ایک مقبرہ بجلیا شہیددرگاہ کے نام سے مشہور ہے۔ صاحب مزارکے حالات زندگی زیادہ نہیں معلوم مگر نام زین العابدین بتایا جاتاہے۔یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک مسجد بھی ہے جس کے صحن میں ایک قبر ہے،اسے بھی کسی پیغمبر کی قبر بتایا جاتا ہے۔

awaz

تین درویش کا مقبرہ

محلہ قضیانہ میں مسجد کے سامنے شاہ جلال کا مزار ہے۔ ان بزرگ کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں ہے مگر بعض محققین کا خیال ہے کہ آنجناب، محبوب الٰہی نظام الدین اولیا کے خلیفہ تھے۔

ایودھیا میں جہاں بزرگوں کے مزارات ہیں ، وہیں کسی زمانے میں خانقاہیں بھی تھیں۔ یہاں شاہ فتح اللہ کی خانقاہ تھی۔ اس سے متصل شاہ مظفر کی خانقاہ تھی جو عہد عالمگیری کے بزرگ تھے۔ روایات کے مطابق اورنگ زیب عالمگیر کے حکم سے یہاں ایک مسجد تعمیر ہوئی تھی۔ مسجد آج بھی موجود تھے اور یہیں شاہ مظفر کی قبربھی ہے۔ان کے علاوہ بھی ایک درجن درگاہیں ایودھیا میں موجود ہیں جبکہ بہت سی درگاہوں اور خانقاہوں کے نام ونشان مٹ چکے ہیں۔