اٹل بہاری باجپئی دانش ہند کا شاعر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 16-08-2022
اٹل بہاری باجپئی دانش ہند کا شاعر
اٹل بہاری باجپئی دانش ہند کا شاعر

 

 

 مضمون نگار /جگ موہن سنگھ

بھارت رتن ایوارڈ یافتہ اٹل بہاری باجپئی جدید ہندوستان کے معماروں میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ہندوستان صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ ایک نظریۂ حیات کا نام ہے۔ اٹل بہاری باجپئی کی سیاسی سرگرمیاں اسی نظریے کے ارد گرد گھومتی ہیں لیکن سیاست سے الگ ان کی جو تخلیقی سرگرمیاں، نثر یا شاعری کی شکل سامنے آتی ہیں ان سے اندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے ملک وقوم کی ترقی کے لیے اپنے گزارے ہوئے شب وروز میں سے اگر کچھ اور زیادہ وقت اپنے تخلیقی اظہار وبیان کے لیے نکالا ہوتا تو ادبی حلقوں میں بھی ان کا شمار اس ملک کے دوسرے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں سے زیادہ بلند ہوسکتا تھا۔

اٹل بہاری باجپئی پیدائشی شاعر تھے۔ شاعری انھیں ورثے میں ملی تھی۔ ان کے والد شری کرشن بہار ی باجپئی معتبر شاعر تھے ا ور مشاعروں میں بھی شرکت کیا کرتے تھے۔ اٹل بہاری باجپئی کے بڑے بھائی شری اودھ بہاری باجپئی بھی شعر کہتے تھے۔ چوں کہ اٹل جی کا مزاج لڑکپن سے ہی شاعرانہ تھا اس لیے ان کے شعری ذوق وشوق کو دیکھتے ہوئے ان کے والد اکثر انھیں بھی مشاعروں میں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ مشاعروں سے اٹل بہاری باجپئی نے شعر وشاعری کے مضمرات اور لوازمات کا گیان حاصل کیا اور ان کے والدنے اٹل بہاری باجپئی کے شاعرانہ ذوق کو صیقل کیا جس کی بنا پر وہ بہت جلد ایک شاعر کی حیثیت سے بھی مشہور ہو گئے۔

 شاعری اٹل بہاری باجپئی کی آتما تھی لیکن ملک وقوم ان سے عملی سیاسی رہنمائی کا تقاضا کررہے تھے۔ چنانچہ اٹل جی نے حصول تعلیم کے دنوں سے ہی ہندوستان کی جنگ آزادی اور سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا۔ اٹل جی ہندوستانی سیاست کے ایک اہم ستون تھے جس کا اعتراف پنڈت جواہر لال نہرو کے علاوہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے تمام بڑے لیڈروں نے کیا ہے لیکن اٹل بہاری باجپئی کی شاعرانہ حیثیت پر کم ہی توجہ دی گئی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جیسے جیسے وقت گذرتا جارہاہے اور ہندوستان کے سماجی، سیاسی، تہذیبی اور اخلاقی مسائل میں پیچیدگی پیدا ہوتی جارہی ہے، عوام اور خواص میں اٹل بہاری باجپئی کی شاعری زیادہ سے زیادہ مقبول ہوتی جارہی ہے۔

عوام اور خواص میں اٹل بہاری باجپئی کی شاعری زیادہ سے زیادہ مقبول ہوتی جارہی ہے۔ اگر دیکھاجائے تو اٹل جی کی شاعری ملک وقوم کو ہر نئے چیلنج کے موقع پر رہنمائی کے لیے سامنے آجاتی ہے۔ اٹل بہاری باجپئی پوری دنیا میں امن چاہتے تھے اور کسی ایک سماج کی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی آزادی انھیں عزیز تھی۔ اسی لیے جب ملک آزاد ہوا تودوسرے دیش واسیوں کی طرح اٹل جی نے بھی خوشیوں کے گیت گائے لیکن اسی دن 15اگست 1947 کو انھوں نے ایک نظم ’سوتنترتا دِوس کی پکار یوم آزادی کے عنوان سے لکھی۔

اٹل بہاری باجپئی کی پیدائش کرسمس کے دن 25 دسمبر 1924 کو گوالیار میں ہوئی۔ ابتدا سے لے کر گریجویشن تک کی تعلیم گوالیار میں ہی حاصل کی۔ کانپور سے پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا اور پھر قانون کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اٹل صاحب ایک ہونہار مقرر تھے۔ ان کی خطابت میں لب ولہجے کی تیزی کے ساتھ ساتھ فکر وخیال میں بھی منفرد روشن خیالی ہوتی تھی۔ اسی لیے اکثر وبیشتر ادبی، علمی اور سیاسی مباحثوں میں انھیں اول انعام سے نوازا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔

’’ایک بار الٰہ آباد میں بحث کا مقابلہ رکھا گیا جس میں اٹل جی گوالیار سے ٹرین لیٹ ہوجانے کے باعث مقابلے  کے مقام پر تب پہنچے جب مقابلہ تقریباً ختم ہوچکاتھا۔ ججوں نے لگ بھگ اپنے فیصلے تیار کرلیے تھے، لیکن سفر سے تھکے اٹل جی جلد ہی اسٹیج پر پہنچ کر بولنے لگے اور انھوں نے دیر سے آنے کا سبب بیا ن کر کے معذرت چاہی اورمتعلقہ موضوع پر مؤثر طریقے سے تقریر کی۔ ان کی تقریر پر سامعین عش عش کراٹھے  اور ججوں کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑ گیا۔ اٹل جی اول نمبرپر آئے اور انھوں نے انعام پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ججوں میں ڈاکٹر ہری ونش رائے بچّن بھی شامل تھے۔‘‘

 (بحوالہ مضمون ’اٹل بہاری باجپئی اور ان کی شاعری‘  از کرشن موہن۔ کتاب ؛اٹل بہاری باجپئی کی نظمیں1998، ص 12)

awaz

اٹل بہاری باجپئی نے 1942 کی ’بھارت چھوڑو تحریک‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جس کے نتیجے میں کئی دوسرے سیاسی لیڈروں کی طرح اٹل بہاری باجپئی کو بھی گرفتار کرلیا اٹل جی24دنوں تک جیل میں رہے اس کے بعد بھی انھیں ان کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے کئی بار قید وبند کی سختیاں جھیلنی پڑیں۔

سنہ1946 میں اٹل بہاری باجپئی نے سنگھ کے پرچارک کا کام شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہی ’راشٹریہ دھرم‘ نامی اخبار کی ادارت بھی کرتے رہے۔ اس اخبار میں اٹل بہاری باجپئی جواداریے اور مضامین لکھتے اور گاہے بگاہے ان کی جو نظمیں شائع ہوتی، انھیں پورے ملک میں پسند کیا گیا۔ خاص طورپر چلا پتی راؤ، پرشوتم داس ٹنڈن، بنارسی داس چترویدی، یشپال، امرت لال ناگر، رام کمار ورما، مہادیوی ورما، پنڈت سوریہ کانت ترپاٹھی جیسے ادبا، شعرا اورصحافی اٹل بہاری باجپئی کی تحریروں کی بہت تعریف کرتے تھے۔

اٹل بہاری باجپئی صاحب کی نظموں کا ایک مجموعہ بعنوان ’ اٹل بہاری باجپئی کی نظمیں‘ اردو اکیڈمی دہلی نے 1998 میں شائع کیا ہے۔ اس مجموعے میں ’حرف ِآواز‘ کے طورپر اردو کے مشہور شاعر مخمور سعیدی نے لکھا کہ

’’جناب اٹل بہاری باجپئی ملک کے صف اول کے سیاسی رہنما ہونے کے علاوہ ہندی کے بلند پایہ شاعر بھی ہیں۔ کچھ مدت پہلے ان کی منتخب نظموں کا ایک مجموعہ دیوناگری میں شائع ہوا تھا اور ملک اوربیرون ملک کے ہندی حلقوں میں اس کی دھوم مچ گئی تھی۔ اب یہی نظمیں جو اٹل جی کی شاعرانہ شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں کی نمائندگی کرتی ہیں  اور ان کی ذہنی اور جذباتی رویوں کی ترجمان ہیں، اردو رسم الخط میں شائع کی جارہی ہیں۔‘‘

(اٹل بہاری باجپئی کی نظمیں ص10)

 اٹل بہاری باجپئی کی شاعری کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے حصے کا عنوان ’انوبھوتی کے سرُ‘ (محسوسات کے نغمے) ہے۔ اس حصّے کی نظموں میں آمد کے رنگ میں اپنے اعزازت اور سچے احساسات کی کار فرمائی، اظہارکی سادگی، بے ساختگی اور روانی ملتی ہے۔ دوسرے حصّے میں ’راشٹریتا کے سُر‘ کے عنوان سے قومی نظمیں ملتی ہیں۔

ان نظموں میں اٹل بہاری کی اپنے وطن سے محبت مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہوئی ہے۔ تیسرے حصے میں جس کا عنوان ’’چنوتی کے سر‘‘(للکار کے نغمے) ہے۔ اٹل بہاری باجپئی نے ملک کے مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اہل وطن کو صبر وسکون اور ہمت سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔ اس مجموعے کا چوتھا اور آخری حصہ ’وِودھ سُر‘ (متنوع نغمے) ہے۔ جس میں انھوں نے بحیثیت انسان اپنے آس پاس کی زندگی، زمانہ،حالات و واقعات کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیاہے۔

awaz

 مجموعے کے  پہلے حصے میں اٹل بہاری باجپئی نے ملک کی آزادی کو ایک نعمت قرار دیتے ہوئے ماضی، حال اورمستقبل کی بات کی ہے۔ نظم ’آؤ پھر سے دیا جلائیں‘ میں اٹل بہاری باجپئی نے کہا ہے کہ آزادی تو مل گئی لیکن ابھی کام ادھورا ہے۔ آزادی کے باوجود ملک سے غریبی اور مفلسی کا اندھیرا دور نہیں ہوا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک بار پھر ملک کے تمام لوگ اس پسماندگی کے اندھیرے کو دور کرنے کے لیے متحد ہوکر جدو جہد کا دیا جلائیں۔ اٹل صاحب فرماتے ہیں          ؎

 بھری دوپہری میں اندھیارا

سورج پرچھائیں سے ہارا

انتر تم کا نیہہ نچوڑیں، بجھی ہوئی باتی سُلگائیں

 آؤ پھرس ے دیا جلائیں

 ہم پڑاؤ کو سمجھے منزل

لکشیہ ہوا آنکھوں سے اوجھل

ورتمان کے مئوہ جال سے آنے والا کل نہ بھلائیں

 آؤ  پھر سے دیا جلائیں

اٹل جی نے اپنی نظم’پہچان‘میں انسانیت اور مساوات کا درس دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں  

 پیڑ کے اوپر چڑھا آدمی

اونچا دکھائی  دیتا ہے

 جڑ میں کھڑا آدمی

نیچا دکھائی دیتا ہے

آدمی نہ اونچا ہوتاہے نہ نیچا ہوتاہے

نہ بڑا ہوتاہے نہ چھوٹا ہوتاہے

آدمی صرف آدمی ہوتاہے

اسی طرح اپنی نظم’گیت نیا گاتا ہوں میں‘ میں اٹل جی اپنے تصور میں ایک ایسے ہندوستان کا سپنا دیکھتے ہیں۔ جس میں پورا ملک خوشحال ہے اور کہتے ہیں حالات جیسے بھی ہوں میں ہارنہیں مانوں گا اسی لیے میں امید کے گیت گاتا ہوں۔ لکھتے ہیں 

 ٹوٹے ہوئے تاروں سے ٹوٹے واسنتی سُر

 پتھر کی چھاتی میں آگ آیا تو اَنکُر

 جھڑے  سب پیلے بات

کوئل کی کوہک رات

پراچی میں ارونما کی ریکھ دیکھ پاتا ہوں

گیت نیا گاتا ہوں

ٹوٹے ہوئے سپنے کی سنے کون سسکی

انتر کو چیرویتھا پلکوں پر ٹھٹکی

ہار نہیں مانوں گا

رار نئی ٹھانوں گا

کال کے کپال پر لکھتا مٹاتا ہوں

گیت نیا گاتا ہوں

اٹل بہاری باجپئی کے وجود میں دیش بھکتی بھری ہوئی تھی۔ ملک کے آزاد ہونے کی انھیں خوشی تھی لیکن مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم کا انھیں بے حد رنج بھی تھا۔ اسی لیے انھوں نے 15اگست1947 کو ہی ’سوتنترتا دِوس کی پکار‘ کے نام سے جو نظم لکھی ہے،  اس میں آزادی کے بعد بھی ہندو اور مسلمانوں کے رنج وغم کا ذکر کیاہے۔

اٹل بہاری باجپئی نے’چنوتی کے سر‘ کے عنوان کے تحت ملک اور ملک کے عوام کو درپیش چیلنجوں پر نظمیں لکھی ہیں۔ اپنی نظم ’ماتر پوجا پری بندھت‘ میں لکھا ہے کہ انسان کو چنوتیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے کیوں کہ پھول کانٹوں کے درمیان کھلتے ہیں اور اندھیروں کے بیچ ہی چراغ روشن ہوتے ہیں جیسی بھی مصیبتیں آئیں اپنے وطن سے محبت اور اس کی ترقی کے جذبات کو رُکنے نہیں دینا چاہیے۔ اٹل بہاری باجپئی صاحب لکھتے ہیں     

پشپ  کنٹکوں میں کھلتے ہیں

دیپ اندھیروں میں جلتے ہیں

آج نہیں، پرہلاد یُگوں سے

پیڑاؤں میں ہی پلتے ہیں

کنتو یاتناؤں کے بل پر

نہیں بھاؤنائیں رکتی ہیں

چتا ہولیکا کی جلتی ہے

انیائی کرہی ملتے ہیں

اور پھر دیش وایسوں کواٹل بہاری باجپئی اپنی نظم ’قدم ملا کر چلنا ہوگا‘ میں کہتے ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ سبھی لوگ ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں۔ اٹل جی کے لفظوں میں   

 بادھائیں آتی ہیں آئیں

گھِریں پرلے کی گھورگھٹائیں

پانو کے نیچے انگارے

سرپر برسیں یدی جوالائیں

نج ہاتھوں سے ہنستے ہنستے

آگ لگا کر  جلنا ہوگا

قدم ملا کر چلنا ہوگا

اس مجموعے کے آخری حصے میں جس کا عنوان ہی ’وودھ سر‘ (متنوع نغمے) ہے۔اٹل بہاری باجپئی نے ذاتی جذبات و خیالات کو نظموں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ دراصل ان نظموں میں اٹل جی نے اپنے من کی گھانٹھوں کو کھولنے کی کوشش کی ہے لیکن انسان کی مجبوری یہ ہے کہ کوشش کے باجود من کی ساری گھانٹھیں کُھل نہیں پائی۔ اس لیے انھوں نے لکھا ہے        ؎

من میں لگی جو گانٹھ مشکل سے کھلتی

داغدار زندگی نہ گھاٹوں پر دُھلتی

 جیسی کی تیسی نہیں

جیسی ہے ویسی سہی

 کبیرا کی چدریا بڑے بھگ مِلتی

 اس حصے کی دوسری نظموں میں بھی انھوں نے اپنے من کی مختلف الجھنوں،جذبات اور کیفیات کا اظہار کیاہے۔ لیکن اس حصے میں ایک نظم امن اور شانتی کی حمایت میں بھی ہے۔اٹل بہاری باجپئی نے اپنی زندگی میں مغرب کی کئی جنگوں کے علاوہ پاکستان اور چین کے ساتھ بھی کئی جنگوں کو دیکھا تھا۔

awaz

وہ یہ مانتے تھے کہ ہندوستان ایک امن پسند ملک ہے۔اسی لیے وہ ہمیشہ سے جنگ کے مخالف رہے ہیں اپنے امن پسند نظریے کی بنیاد پر ہی انھوں نے پاکستان کا بھی دورہ گیا تھا لیکن اس دور ے کے فوراً بعد ہندوستان اور پاکستان کے بیچ کارگل جنگ ہوگئی۔

اٹل بہاری باجپئی کو جنگ سے نفرت اور امن سے محبت تھی کیوں کہ امن میں ہی انسانیت پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے اپنی نظم ’جنگ نہ ہونے دیں گے‘میں لکھا ہے کہ ہم عالمی امن کے پجاری ہیں اس لیے پچھلی عظیم جنگوں میں پوری  دنیا میں جو تباہی ہوئی۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں انسانی لاشوں کی فصل کٹی اور ایٹم بمبوں سے ناکا ساکی جس طرح جلا ہم اس کے حق میں نہیں ہیں ہم ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھتے ہیں۔ جہاں جنگ نہ ہواور صرف امن کا ہی بول بالا ہو۔ اٹل بہاری باجپئی کے ان جذبات کا اندازہ ان کی نظم کے اس بند سے لگایاجاسکتاہے۔

ہم جنگ نہ ہونے دیں گے

وشوشانتی کے ہم سادھک ہیں جنگ نہ ہونے دیںگے

کبھی نہ کھیتوں میں پھر خونی کھاد پھلے گی

کھلیانوں میں نہیں موت کی فصل کھلے گی

آسمان پھر کبھی نہ انگارے اگلے گا

ایٹم سے ناگاساکی پھر نہیں جلے گی

یدھ وہین وشوکا سپنا بھنگ نہ ہونے دیں گے

جنگ نہ ہونے دیں گے

بحیثیت مجموعی اٹل بہاری باجپئی ایک بے حد حساس انسان اور محب وطن شاعر اور دانشور تھے۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ ان کے یہاں رومانیت اور حقیقت پسند ی کو توازن کے ساتھ برتا گیاہے۔ ان کی شاعری کے لفظ لفظ سے ان کی دیش بھگتی ٹپکتی ہے۔ زبان پر انھیں کامل عبور حاصل ہے۔ اسی لیے انھوں نے موضوع اور موقع محل کے حساب سے الفاظ اور تراکیب کوپوری مہارت کے ساتھ برتاہے۔اٹل بہاری باجپئی کی شاعر ی میں ترقی پسندی بھی ہے اور انقلابیت بھی۔ لیکن وطن دوستی ان کی شاعری کی روح ہے۔

جس کا اظہار ان کی شاعری میں پورے یقین اور روانی کے ساتھ ہوا ہے۔ ویسے تو ہندوستان میں محب وطن شاعروں کی ایک بڑی تعداد رہی ہے لیکن بیسویں صدی کی چھٹی دہائی سے لے کر اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک کے دور میں اٹل بہاری باجپئی نے جس طرح کہیں استعاروں اور علامتوں کے سہارے اورکہیں صاف اورسادہ اسلوب میں ہزاروں سال پر پھیلی ہندوستان کی تاریخ کے حوالے سے اس ملک کے امن پسند اور عالمی بھائی چارے کے نظریے کو پیش کیا ہے، اس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتاہے کہ اٹل بہاری باجپئی صاحب دانش ہند کے سچے شاعر تھے۔