ایک گمنان خاتون، جس نے 1857 میں حصہ لیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 01-08-2021
علامتی تصویر
علامتی تصویر

 

 

ثاقب سلیم،نئی دہلی

جدو جہدآزادی میں جابرانہ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کا مقابلہ ہندوستان کے ہر طبقے نے کیا۔

خواہ وہ کسی بھی مذہب، علاقہ، زبان، ذات یا جنس سے تعلق رکھتا ہو، سب نے انگریزوں کے جابرانہ نظام سے مقابلہ کیا۔

سنہ 1857 کی ہندوستانکے آزادی کی جنگ اول کے دوران انگریزوں سے لڑنے میں خواتین کے کردار پر بالکل خاموشی سی چھائی ہوئی ہے۔

جب کہ یہ حقیقت ہے کہ شاہی گھرانوں کی خواتین کے علاوہ متعدد غیر معمولی خواتین نے غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔

مغربی اتر پردیش (یو پی) میں کسان اور شہری خواتین نے خود کو مسلح گروہوں میں لڑنے کے لیے منظم کیا۔ ان میں سے بہت سی عورتیں مثلا اصغوری بیگم ، آشا دیوی ، بے بی، بھاگوتی اور دیگر خواتین کو بعد میں انگریزوں نے ان کے خلاف لڑنے پر پھانسی دے دی۔

انگریزوں کے خلاف جنگ کی سب سے نمایاں غیر شاہی خواتین رہنماؤں میں سے ایک برقع پوش خاتون کا بھی نام شامل ہے۔ وہ ایک ضعیف مسلم خاتون تھیں، جو سبز برقعہ (نقاب) پہنتی تھیں، اور شہر میں گھومتی پھرتی تھیں اور مردوں سے لڑنے کی تلقین کرتی تھیں۔

وہ لڑائی کے دوران گھوڑے پر سوار رہتی تھیں، ان کے پاس بندوق بھی تھی۔ مگر یہ عجیب اتفاق ہے کہ کوئی بھی ان کا نام نہیں جانتا تھا، اس کے پیچھے متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں، انگریزوں کے قتل کے ڈر سے لوگ ان کا نام نہیں لیتے تھے کہ کہیں ان کا نام ظاہر ہونے پر وہ قتل نہ کر دی جائیں۔؎

خواجہ حسن نظامی نے کئی زندہ بچ جانے والوں کے بیانات ریکارڈ کیے جنہوں نے اس عورت کو میدان جنگ میں دیکھا تھا۔ وہ دہلی کے بازاروں میں آتی تھیں اور باآواز بلند کہتیں: "میرے ساتھ چلو ، خدا نے تمہیں عالم ارواح میں بلایا ہے۔" اس کے بعد وہ خاتون کہتی تھیں کہ برطانوی افواج پر حملہ کر دو اور ان کے ساتھ شامل ہو جاؤ۔

لوگوں نے انہیں ننگے ہاتھوں سے لڑتے اور دشمن کے کئی سپاہیوں کو مارتے دیکھا تھا۔ ایک دن لڑائی کے دوران ، وہ اپنے گھوڑے سے گر گئی۔ انگریزوں نے انہیں پکڑ کر امبالہ چھاؤنی بھیج دیا۔

لیفٹیننٹ ڈبلیو ایس آر ہوڈسن نے 29 جولائی 1857 کو امبالا کے ڈپٹی کمشنر ڈگلس فارسیتھ کو لکھا: میرے پیارے فارسیتھ میں ایک بوڑھی مسلمان عورت کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں۔ وہ ایک عجیب عورت ہے۔ یہ عورت سبز رنگ کا لباس پہنتی تھی ، اسلحہ اپنے ساتھ رکھتی تھیں ، عوام کو ہمارے خلاف بغاوت کی ترغیب دیتی تھیں اور ہماری افواج پر حملہ کرنے کے لیے ان کی رہنمائی کرتی تھیں۔

ان کا سامنا کرنے والے سپاہیوں نے گواہی دی کہ اس نے مردانہ بہادری سے لڑائی کی اور پانچ آدمیوں کی طرح مضبوط تھی۔ گرفتاری کے دن وہ گھوڑے پر سوار تھیں اور حکمت عملی کے ساتھ باغیوں کو ہم پر حملہ کرنے میں رہنمائی کر رہی تھیں۔ ہمیں ان کے پاس سے ایک بندوق ملی ہے۔ ہمارے فوجیوں نے گواہی دی کہ اس نے اپنے جنگی مہارت کی وجہ سے ہمارے کئی مردوں کو قتل کیا۔ ہڈسن نے مزید لکھا کہ اگر یہ عورت آزاد رہی تو یہ ہندوستانیوں کے لیے جون آف آرک لیڈر بن جائے گی اور اس طرح اسے 'مناسب سزا' دی جانی چاہئے۔

ان کے خیال میں یہ 'چڑیل' برطانوی مفادات کے لیے 'خطرناک' تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس امبالا میں اس خاتون کے ساتھ کیا ہوا اس کا پتہ لگانے کے لیے کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

مورخین نے اس خاتون کا نام ٹریس کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی حتمی ثبوت نہیں مل سکا۔ مادر وطن کی اس سچی بیٹی نے قوم کے لیے اپنی جان قربان کر دی بغیر کسی شناخت کے ، ایک سچی بے لوث خدمت۔

نوٹ: ثاقب سلیم تاریخ نگاراورمصنف ہیں۔