امیرخسرو ہمہ جہت شخصیت کے مالک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-05-2021
امیر خسرو
امیر خسرو

 

awazurdu

 قربان علی 

امیر خسرو بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے اور ان کی شخصیت بہت وسیع تھی ۔ وہ شاعر تھے ، تاریخ داں تھے ، فوجی جنرل ، ادیب ، سیاست داں ، موسیقار ، گلوکار ، فلسفی ، صوفی اور نہ جانے کتنی شخصیات کے مالک تھے ۔

 میری رائے میں گزشتہ ۸۰۰برس کی ہندوستان کی تاریخ میں اگر کسی ایک شخص نے ذاتی طور پرہندستان کی تہذیب ، تمدن اور ثقافت کو سب سے زیادہ مالا مال کیا اور زینت بخشی ، تو بلا شبہ ، اس شخصیت کا نام حضرت ابو الحسن یمین الدین خسرو ہے جنہیں لوگ پیار سے امیر خسرو دہلوی اور طوطی ہند کے نام سے پکارتے ہیں ۔ وہ خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں ۔ ’ترک ہندستانیم من ہندوی گویم جواب‘ یعنی میں ترک ہندوستانی ہوں اور ہندی بولتا اور جانتا ہوں ۔ ( دیباجہ گرات الکمال )

 امیر خسرو نے اس برصغیر کو ایک نیا اور بہت ہی خوبصورت نام دیا ۔ ہندوستان ، شہریتدی ۔ ہندی اور ایک بہت ہی خوبصورت زبان دی ۔ ہندوی جو آگے چل کر ہندی اور اردو زبان کے نام سے مشہور ہوئی ۔

اردو کے عظیم شاعر جاں نثار اختر نے ۱۹۷۰ء ؁ میں اردو شاعری کا ایک ضخیم مجموعہ ہندوستاں ہمارا مرتب کیا تھا ۔ اس کتاب کی تمہید میں وہ لکھتے ہیں ’کھڑی بولی میں عربی ، فارسی اور ترکی کے الفاظ کی ملاوٹ کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اور جو امیر خسرو کے زمانے میں ریختہ کہلایا ، نئی ہندوستانی زبان کو جنم دینے میں کامیاب ہوا جسے شروع میں ہندی یا ہندوی کہا گیا اور جو بعد میں اردو کہلائی‘۔ (ہندوستاں ہمارا) امیر خسرو نے اس زبان کو نیا رنگ روپ دیا ۔ ایک طرف جہاں انہوں نے اپنی شاعری میں فارسی کا استعمال کرتے ہوئے لکھا ’جہال مستی مکن تغافل درائے نینا بنائے بتیاں، سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں‘۔ وہیں دوسری جانب انہوں نے اودھی اور برج بھاشا کا استعمال کرتے ہوئے لکھا ’چھاپ تلک سب لے لی ری موسے نینا ملائی کے اور’‘بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی ‘جیسی شاعری کی ۔

 امیر خسرو نے موسیقی کو دو ایسے نایاب تحفے دیئے جنہیں ستار اور طبلہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ امیر خسرو نے فارسی اور ہندی میں شاعری کی ، خیال کو ترتیب کیا ، غزل ، مثنوی ، قطع، رباعی ، دوبیتی ، اور ترقی بند میں اپنی شاعری کی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ان گنت دوہے ، گیت ، کہہ مکریاں، دو سخنے ، پہیلیاں، ترانہ اور نہ جانے کیا کیا لکھا ۔ حضرت امیر خسرو ’بابائے قوالی‘ بھی کہے جاتے ہیں جنہوں نے موسیقی کے اس صوفی فن کو نیا انداز دیا اور برصغیرکی شاید ہی کوئی ایسی درگاہ ہو جہاں سالانہ عرس کے دوران امیر خسرو کا کلام نہ پڑھا جاتا ہو ۔ عرس کے آخری دن یعنی قل کے دن امیر خسرو کا رنگ تو لازمی طور پر گایا جاتا ہے ۔ آج رنگ ہے اے ماں رنگ ہے ری ،

میرے محبوب کے گھر رنگ ہے ری   سجن ملاورا ، سجن ملاورا ، مورے آنگن کو

 جگ اجیارو ، دنیا اجیارو

..  میں تو ایسے رنگ اور نہیں دیکھی رے ،

موہے پیر پایو نظام الدین اولیاء

نظام الدین اولیاء، نظام الدین اولیاء

دیس بدیس میں ڈھونڈ پھری ہوں

تورا من بھایو نظام الدین

 ایسی رنگ دے رنگ ناہی چھوٹے

 دھوبیا دھووے ، ساری عمریا

 پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ’ڈسکوری آف انڈیا‘ میں امیر خسرو کو بہت ہی خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’امیر خسرو فارسی کے اول درجے کے شاعر تھے اور سنسکرت بھی بخوبی جانتے تھے ۔ وہ عظیم موسیقار تھے جنہوں نے ہندوستانی موسیقی میں کئی تجربے کئے اور ستار ایجاد کیا ۔ امیر خسرو نے مختلف موضوعات پر لکھا ، خاص طور پرہندوستان کی تعریف میں قصیدے پڑھے ۔ انہوں نے یہاں کے مذاہب کے بارے میں ، فلسفہ اور منطقکے بارے میں ، الجبرا کے بارے میں ، سائنس کے بارے میں ، اور پھل کے بادشاہ آم اور خربوزے کے بارے میں خوب لکھا‘ ۔

 پنڈت نہرو لکھتے ہیں ۔ ’ہندوستان میں ان کی مقبولیت کا راز عام فہم زبان میں کی جانے والی ان کی شاعری تھی ۔ جان بوجھ کر انہوں نے بڑی عقلمندی سے اس ادبی زبان کا سہارا نہیں لیا جس کو چند لوگ ہی جانتے تھے ۔ وہ گاؤں اور دیہات میں جا کر رہے ، وہاں کے لوگوں کے طور طریقے اور رسم و رواج سیکھے ۔ وہ ہر موسم میں نئے طریقوں کے گیت لکھتے ، اور قدیم ہندوستانی کلاسیکی روایات کے تحت ہر موسم کی اپنی ایک نئی دھن نئے الفاظ کے ساتھ تیار کرتے ‘۔ انہوں نے زندگی کے مختلف دور اور پہلوؤں پر شاعری کی ، جن میں بیٹی کا باپ کے گھر سے رخصت ہونا ، بہو کا گھر آنا ، عاشق کا معشوق سے بچھڑنا ، اور ورہ کے گیت گانا ، برسات کا ہونا ، بہار کا موسم آنا ، سردی پڑنا اور پھر گرمی میں زمین کا خشک ہونا ۔ سینکڑوں برس پہلے لکھے گئے امیر خسرو کے گیت آج بھی شمالی ہندوستان کے بہت سے گاؤں میں گائے جاتے ہیں ۔ خاص طور پربرسات کے موسم میں باغوں میں یا درختوں پر بڑے بڑے ہنڈولے /جھولے ڈالے جاتے ہیں اور گاؤں کی لڑکیاں اور لڑکے ایک ساتھ اکٹھا ہو کر برکھا موسم کا جشن مناتے ہیں ۔ امیر خسرو نے بے انتہاپہیلیاں اور کہہ مکریاں لکھے جو آج تک لوگوں میں بے حد مقبول ہیں اور خسرو کو لازوال بنائے ہوئے ہیں ۔

پنڈت نہرو لکھتے ہیں ۔ ’مجھے نہیں معلوم ایسی کوئی دوسری مثال جہاں ۷۰۰برس پہلے لکھے گئے گیت آج بھی لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہیں اور بغیر الفاظ بدلے اپنی ماس اپیل بنائے ہوئے ہیں ‘۔ (ڈسکوری آف انڈیا۲۴۵ ) امیر خسرو کی پیداش اترپردیش کے ایٹہ ضلع کے پٹیالی گاؤں میں گنگا کنارے سن ۶۵۲ہجری یعنی ۱۲۵۳ء ؁ کو ہوئی تھی ۔ امیر خسرو کے والد سیف الدین خراسان کے ترک قبیلے کے سردار تھے ۔ امیر خسرو ۴ برس کی عمر میں دہلی آ گئے اور ۸ برس کی عمر میں مشہور صوفی حضرت نظام الدین اولیا کے مرید بن گئے ۔ کہا جاتا ہے ۱۶۔۱۷ برس کی عمر میں امیر خسرو مشہور شاعر ہو چکے تھے اور دہلی کے مشاعروں میں اپنی دھاک جمانے لگے تھے ۔ اسی دوران دہلی کے سلطان بلبن کے بھتیجے سلطان محمد کو ایک مشاعرے میں امیر خسرو کی شاعری بہت پسند آئی اور وہ انہیں اپنے ساتھ ملتان لے گیا اور ان سے ایک مثنوی لکھوائی جس میں بیس ہزار اشعار تھے ۔

حضرت امیر خسرو نے شاعری کے علاوہ نثر بھی لکھی اور ان کی کتابوں کی تعداد ۹۹سے لے کر ۱۹۹تک بتائی جاتی ہے ۔ ( جامی سیرالاولیاء:۳۰۱۔۳۰۵ اور امیر راضی نفہات الانس۷۰۱ ) خلجی اور ترک دور کا مشہور مؤرخ ضیاء الدین برنی لکھتا ہے کہ امیر خسرو کو علائی دور کا شاہی مورخ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ جس نے مفتاح الفتوح، خزائن الفتوح، قصہ دیولرانی ۔ خضر خاں ، نوح سپیہراور تغلق نامہ جیسی کتاب لکھی ۔

 امیر خسرو کے لکھے ہوئے ۵ دیوان بتائے جاتے ہیں

۔ ۱۔ تحفۃ الصغار۔ اس کے دیباچے میں امیر خسرو لکھتے ہیں کہ یہ ان کا پہلا دیوان ہے جسے انہوں نے ۱۵سے ۱۹سال کی عمر میں لکھا

۔ ۲۔ وسط الحیات ۔ یہ ۱۹سال سے لے کر ۳۴برس کی عمر کی شاعری ہے جس میں سلطان محمد اور بلبن وغیرہ کی تعریف میں قصیدے لکھے گئے ہیں ۔

۔ ۳۔ غرۃ الکمال۔ یہ دیوان امیر خسرو نے اپنے بھائی علی الدین خطاط کی خواہش کے مطابق لکھا ۔ اس میں سلطان جلال الدین کی فتح سے متعلق شاعری کی ہے جسے مفتاح الفتوح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔

۔ ۴۔ چوتھا دیوان وقیع نقیع ۔ یہ شاعری ۷۱۵ہجری یعنی ۱۳۱۵۔۱۳۱۶ عیسوی کے دور کی ہے ۔

۔ ۵ ۔ پانچواں دیوان نہایت الکمال ہے ۔ یہ خسرو کے آخری دور کی شاعری ہے جس میں انہوں نے غزلوں کے علاوہ قطب الدین مبارک خلجی کا مرثیہ اور کچھ قصیدے بھی شامل کئے ہیں ۔ امیر خسرو نے کئی مثنویاں لکھیں ۔ ۲۶سال کی عمر میں انہوں نے پہلی مثنوی لکھی ۔

- قران السعدین۔ اس میں دہلی کی بے حد تعریف کی گئی ہے ۔ اس لئے اس کو مثنوی در صفت دہلی بھی کہتے ہیں ۔160

خضر خاں ۔ دیولرانی : ۔ اس کو خضر نامہ اور عشقیہ بھی کہتے ہیں ۔ شرح اصل دیولرانی گجرات کے ایک بادشاہ کی بے حد خوبصورت بیٹی تھی اور خضر خاں جو سلطان علاء الدین کا بیٹا تھا ، وہ دیولرانی کا عاشق ہو گیا اور اس سے شادی کر لی ۔ خسرو نے خضر خاں کی زندگی میں ہی یہ مثنوی پوری کر لی تھی ۔ لیکن بعد میں انہوں نے اس کی موت کا حال اور دیولرانی کے ساتھ جو واقعات پیش آئے انہیں بھی اس مثنوی میں شامل کیا ہے ۔ نوح سپہر:قطب الدین مبارک شاہ کی خواہش کے مطابق خسرو نے یہ مثنوی لکھی ۔ اس میں ۹باب ہیں اور ہر باب کی ایک الگ بحر ہے ۔ اس لئے اس کا نام نوح سپہر یعنی نو آسمان رکھا گیا ہے ۔ اس مثنوی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں تاریخ، لسانیات ، حب الوطنی، ہندوستان اور ہندوستانیوں کا دوسرے ممالک اور وہاں کے شہریوں سے موازنہ اور ان کی فوقیت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ خسرو نے یہ مثنوی ۶۵سال کی عمر میں لکھی ۔

 امیر خسرو نے ہنندوستانی شاعروں خاص کر اس وقت کے فارسی شاعروں کی بہت تعریف کی ہے اور ان کی شاعری کو دوسرے ملکوں کی فارسی شاعری سے شفاف اور افضل بتایا ہے ۔ غرۃ الکمال کے دیباچے میں امیر خسرو لکھتے ہیں ’ہندوستان کے عالم خصوصاً وہ جو دہلی میں مقیم ہیں ، ان تمام اہل ذوق سے جو دنیا میں کہیں بھی پائے جاتے ہیں فن شعر میں بر تر ہیں ۔ عرب ، خراسان ، ترک وغیرہ جو ہندوستان کے ان شہروں میں آتے ہیں جو اسلامی حکومت میں ہیں مثلاً دہلی ،ملتان یا لکھنوتی (بنگال) اگر ساری عمر بھی یہاں گزار دیں تو بھی اپنی زبان نہیں بدل سکتے اور جب شعر کہیں گے تو اپنے ملک کے محاورے میں ہی کہیں گے ۔ لیکن جو ادیب ہندوستان کے شہروں میں پلا بڑھا ہے خصوصاً دہلی میں ، بغیر کسی ملک کو دیکھے یا وہاں کے لوگوں سے ملے جلے اس ملک کی طرز میں لکھ سکتا ہے بلکہ ان کی نظم ونثر میں تصرف کر سکتا ہے اور جہاں بھی چلا جائے وہاں کے اسلوب کے مطابق بخوبی لکھ سکتا ہے ۔

 شکایت نامہ مومن پور پٹیالی۔اس مثنوی میں پٹیالی کی شکایت اور افغانوں نے وہاں جو مظالم ڈھائے ان کا تفصیل سے ذکر ہے ۔

تغلق نامہ۔ اس مثنوی میں پہلے قطب الدین کا حال ہے پھر غیاث الدین تغلق کے عروج کا حال اور جنگ جیت کر گدی نشین ہونے کا حال بیان کیا گیا ہے ۔ خسرو نے یہ مثنوی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں لکھی تھی ۔ خمسہ خسرو ۔ خسرو نے یہ خمسہ فارسی شاعر نظامی کے خمسے کے جواب میں لکھا ہے ۔ اس خمسہ میں ۵ مثنویاں ہیں ۔

۔ ۱۔ مطلع الانوار:یہ تصوف کے بارے میں ہے اور اس میں ۳۳۱اشعار ہیں ۔

۔ ۲ ۔ شیریں خسرو ۔ یہ سکندرنامہ کا جواب ہے ۔ اس میں ۴۱۲۴اشعار ہیں ۔

۔ ۳۔ مجنوں لیلیٰ: اس مثنوی میں خسرو نے بے حد دلچسپ انداز میں لیلیٰ مجنوں کا قصہ بیان کیا ہے ۔ اس میں ۲۶۶۰اشعار ہیں ۔

۔ ۴۔ آئینہ اسکندری: یہ مثنوی دستیاب نہیں ہیں ۔

۔ ۵۔ خمسہ خسرو کی پانچویں اور آخری مثنوی ہے ہشت ۔ بہشت ۔ اس میں ۳۳۸۲اشعار ہیں ۔

 نثر

ابھی تک امیر خسرو کی شاعری کا ذکر کیا گیا ہے اب کچھ بات ان کے نثر کی

۔ ۱ ۔ رسائل اعجاز یا اعجازخسروی۔ یہ کتاب پانچ باب پر مشتمل ہے جو حضرت نظام الدین اولیاء کی منقبت سے شروع ہوتی ہے اور اس میں فارسی اسلوب کے ۹حصوں کو لیا گیا ہے ۔ اس میں خاص و عام سے لے کر عالم فاضل صوفیائے کرام ، مزدور، کسان اور کارخانداروں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ امیر خسرو نے اس کتاب کو اپنا بہترین اسلوب بتایا ہے ۔

۔ ۲ ۔ خزائن الفتوح :اس کتاب میں سلطان علاء الدین خلجی کے دور حکومت یعنی ۶۹۵ہجری سے لے کر ۷۱۱ہجری تک کے واقعات کا ذکر ہے اور کئی جگہ اس میں شعر بھی کہے گئے ہیں ۔

۔ ۳ ۔ افضل الفوائد:اس میں امیر خسرو نے اپنے پیر ومرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی حکایت اور ان کے قول یکجا کئے گئے ہیں ۔

 اس کے علاوہ امیر خسرو کی کتابوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں خالق باری ، جواہرالبحر ، مکتوبات امیر خسرو ، حالات کنہیا و کرشن ، مناقب ہند ، تاریخ دہلی شہر آشوب ، مناجات خسرو ، مقالہ تاریخ الخلفاء،راحت المحبین،ترانہ ہندی ، مراۃ الصفا، بحرالابر ، اسپ نامہ یا فرس نامہ ، احوال امیر خسرو ، مجموعہ رباعیات ، مجموعہ مثنویات اور کلیات شامل ہیں ۔

 امیر خسرو سن ۱۲۸۶ء میں اودھ کے گورنر (صوبیدار) خان امیر علی عرف حاتم خاں کے یہاں دو سال تک رہے ۔ یہاں خسرو نے انہیں امیر کے لئے ’ اسپ نامہ ‘ عنوان سے کتاب لکھی ۔ خسرو لکھتے ہیں ۔ ’ واہ کیا شاداب سرزمیں ہے یہ اودھ کی ۔ دنیا جہان کے پھل پھول موجود ۔ کیسے اچھے میٹھی بولی کے لوگ ۔ میٹھی اور رنگین طبیعت کے انسان ۔ دھرتی خوشحال، زمیندار مالا مال ۔ اماں کا خط آیا تھا ۔ یاد کیا ہے ۔ دو ماہ ہوئے پانچواں خط آ گیا ۔ اودھ سے جدا ہونے کو جی تو نہیں چاہتا مگر دہلی میرا وطن ، میرا شہر ، دنیا کا البیلا شہر اور پھر سب سے بڑھ کر ماں کا سایہ ، جنت کی چھاؤں ۔ اف، دو سال نکل گئے اودھ میں ۔ بھئی بہت ہوا ۔ اب میں چلا ۔ حاتم خاں دل جان سے تمہارا شکریہ مگر میں چلا ۔ زرو مال پایا ، لٹایا ، کھلایا ، مگر میں چلا ۔ وطن بلاتا ہے دھرتی پکارتی ہے ۔ اب تک امیر خسرو کی زبان میں برج اور کھڑی (دہلوی) بولی کے علاوہ پنجابی ، بنگلہ اور اودھی کی بھی چاشنی آ گئی تھی ۔

۔ ۱۲۸۸ء ؁ میں خسرو دہلی آ گئے اور بغرا خاں کے نوجوان بیٹے کیکباد کے دربار میں بلائے گئے ۔ کیکباد کا باپ بغرا خاں بنگال کا گورنر تھا ۔ جب اس نے سنا کہ کیکباد گدی پر بیٹھنے کے بعد عیاش اور باغی ہو گیا ہے تو اس نے اپنے بیٹے کو سبق سکھانے کے لئے دہلی کوچ کیا، لیکن اس دوران امیر خسرو نے دونوں کے درمیان صلح کرا دی ۔ خوشی میں کیکباد نے خسرو کو اعزاز سے نوازا ۔ خسرو نے اسی ضمن میں قران السعدین نام سے ایک مثنوی لکھی جو ۶ماہ میں پوری ہوئی ۔ (۶۸۸ ھ ) ۔ اس میں اس وقت کے دہلی کی عمارتیں ، موسیقی وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس میں دہلی کی خاص طور پر تعریف کی گئی ہے اس لئے اسے مثنوی در صفت دہلی بھی کہتے ہیں۔ اس میں اشعار کی بھر مار ہے ۔ امیر خسرو اپنی اس مثنوی میں لکھتے ہیں کہ کیکباد کو ان کے پیر استاد نظام الدین اولیا کا نام بھی سننا پسند نہیں تھا ۔ خسرو آگے لکھتے ہیں ۔ کیا تاریخی واقعہ ہوا ۔ بیٹے نے امیروں کی سازش سے تخت پر قبضہ کر لیا ، باپ سے جنگ کو نکلا ۔ باپ نے تخت اسی کو سپرد کر دیا ۔ بادشاہ کا کیا ؟ آج ہے کل نہیں ۔ ایسا کچھ لکھ دیا ہے کہ آج بھی لطف دے اور کل بھی زندہ رہے ۔ اپنے دوستوں ، دشمنوں کی ، شادی کی ، گرمی کی ، مفلسوں اور خوشحالوں کی ، ایسی ایسی رنگین ، تصاویر میں نے اس میں کھینچ دی ہے کہ رہتی دنیا تک رہیں گی ۔ کیسا ثواب ؟ کہاں کے ہاتھی گھوڑے؟ مجھے تو فکر ہے کہ اس مثنوی میں اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ نظام الدین کا ذکر کس طرح پروؤں؟ میرے دہلی کے بادشاہ تو وہی ہیں اور وہی میری اس نظم میں نہ ہوں ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ خواجہ سے بادشاہ خفا ہیں، ناراض ہیں ، دل میں گانٹھ ہے ، یہ نہ جلتا ہے ۔ خواجہ نظام الدین اولیا نے شاید اسی خیال سے اس دن کہا ہوگاگا کہ دیکھاخسرو ، یہ نہ بھولو کہ تم دنیادار بھی ہو ، دربار حکومت سے اپنا تعلق برقرار رکھو ۔ مگر دربار سے سلسلہ کیا حیثیت اس کی ۔ تماشا ہے ، آج کچھ کل کچھ ’۔ خسرو کو قران السعدین مثنوی پر ملک الشعراء اعزاز سے نوازاگیا ۔ ۱۲۹۰ء ؁ میں کیکباد ماراگیا اور غلام سلطنت کا خاتمہ ہو گیا ۔

 امیر خسرو کی غزلوں میں غضب کی چاشنی ہوتی تھی ، لیکن اس کے باوجود بھی خسرو تصوف والے اپنے کلام سے پوری طرح انصاف کرتے ۔ خسرو مذہبی شخص تھے ۔ انہیں کے ایک قصیدے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ نماز پڑھتے تھے اور روزہ رکھتے تھے ۔ شراب نہیں پیتے تھے اور نہ ہی اس کے عادی تھے ۔ بادشاہوں کی عیاشی سے انہوں نے اپنے دامن کو ہمیشہ بچائے رکھا ۔ وہ دہلی میں بلا ناغہ نظام الدین اولیاء کی خانقاہ میں جاتے تھے پھر بھی وہ خالص صوفی نہیں تھے ۔ وہ گاتے تھے ، ناچتے تھے ، ہنستے تھے ، گانا سنتے اور داد دیتے تھے ۔ شاہو اور شہزادوں کی شراب ۔ محفلوں میں حصہ ضرور لیتے تھے ۔ مگر حاضری کی حد تک ۔ مگر غیر جانبدار انداز سے ۔ ضیاء الدین برنی کا کہنا ہے :خسرو اب تک اپنی زندگی کے ۳۸بسنت دیکھ چکے تھے ۔ اس درمیان مالوا میں چتوڑ میں رتھمبھور میں بغاوت کی خبر بادشاہ جلال الدین کو ایک سپاہی نے لا کر دی ۔ بغاوت کو کچلنے کے لئے بادشاہ خود میدان جنگ میں گیا ۔ بادشاہ نے جنگ میں جانے سے پہلے بھرے دربار میں اعلان کیا ۔ ہم جنگ کو جائیں گے ۔ تلوار اور سازوں کی جھنکار بھی ساتھ جائے گی ۔ کہاں ہے وہ ہمارا ہدہد ۔ وہ شاعر ۔ وہ بھی ہمارے ساتھ رہے گا سائے کی طرح ۔ کیوں خسرو ؟‘ خسرو اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے ۔ جی حضور ۔ آپ کاہدہد سائے کی طرح ساتھ جائے گا ۔ جب حکم ہوگا چہچہائے گا سرکار ۔ جب تلوار اور پانی دونوں کی جھنکارتھم جاتی ہے ، جم جاتی ہے تو شاعر کا نغمہ گونجتا ہے ، قلم کی سرسراہٹ سنائی دیتی ہے ۔ اب جو میں آنکھوں دیکھی لکھوں گا وہ کل سینکڑوں سال تک آنے والی آنکھیں دیکھیں گی حضور ‘۔ بادشاہ خوش ہوئے اور بولے ۔ شاباش خسرو ۔ تمہاری بہادری بے خوفی کے کیا کہنے ۔ میدان جنگ اور محفل رنگ میں ہردم موجود رہنا ۔ تم کو ہم امیر کا عہدہ دیتے ہیں ۔ تم ہمارے منصب دار ہو ۔ بارہ سو تنگا سالانہ آج سے تمہاری تنخواہ ہوگی‘ ۔ایک اور واقعہ ہے، منگولوں نے اچانک دہلی پر حملہ بول دیا ۔ علاء الدین خلجی کی فوج نے خوب ڈٹ کر سامنا کیا ۔ منگولوں کو آخر کار منہ کی کھانی پڑی ۔ کچھ تو اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے تو بہت سے گرفتار کر لیے گئے ۔ امیر خسرو آنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے کہتے ہیں :کیاخبر لائے ہو حضورفتح کی ۔ وہ تم سے پہلے پہنچ چکی ہے ۔ سچ سچ بتاو کتنے منگول لشکری مارے گئے ہیں ؟ حضور بیس ہزار سے زیادہ ۔ کتنے گرفتارکئے ؟ ابھی شمار نہیں مگر ہزاروں ، جو سر جھکائے توبہ کریں ، ان کے کانوں میں ہلکا ٹکاؤ ۔ شہر سے دس کوس دور ایک بستی بساکر رہنے کی اجازت ہے ان نامرادو کو ۔ بستی ہوگی منگول پور۔ پہرہ چوکی۔ جن سے سرکشی کا اندیشہ ہو ، ان کے سر اتار کر مینار بنا دو۔ ان کے باپ دادا کو کھوپڑیوں کے مینار بنانے کا بہت شوق تھا اور اب ان کے سر اتارتے جاؤ ، مینار بناتے جاؤ ۔ انہیں دکھاتے جاؤ ۔ شہر کی دیوار بنانے میں جو گارا لگے گا ، اس میں پانی نہیں ، دہلی پر چڑھائی کرنے والوں کا خون ڈالو ، لہو ڈالو ۔ سنا میرِ تعمیر ، سرخ گارا (گاڑھا) خون ۔ شہر پناہ کی سرخ دیوار۔اہاہا۔ تیاری کی جائے ۔ گجرات کی اور فوج روانہ ہو ۔ کسی طرح کی کوئی تاخیر نہ ہو ۔ دربار برخاست ‘

 خسرو آگے کہتے ہیں شاہی تلوار پر منگولوں کا جو گندا خون جم گیا تھا ، سلطان علاء الدین خلجی سکندر ثانی اسے گجرات پہنچ کر سمندر کے پانی سے دھونا چاہتا تھا ۔ اپنے دل کا حال بیان کرتے ہیں خسرو کچھ اس طرح ۔فوج چلی ۔ میں کیوں جاؤں ؟ میرا دل تو دوسری طرف جاتا ہے ، میرے پیر میرے مرشد ، میرے محبوب کے تلووں میں میں سر کے بل جاؤں ۔ رات گئے جمنا کنارے غیاث پور گاؤں کے باہر ، جہاں اب ہمایوں کا مقبرہ ہے ، چشتی صوفی خانقاہ میں ایک فقیر بادشاہ ، محتاجوں، مسافروں، فقیروں، درویشوں ، سادھوں ، علماء ، سنتوں ، صوفیوں ضرورت مند ، گویوں ، اور بیراگیوں کو کھلا پلا کر اب اپنے تنہاحجرے میں جو کی باسی روٹی اور پانی کا کٹورا لئے بیٹھا ہے ۔ یہ ہیں خواجہ نظام الدین چشتی ۔ خواجہ نظام الدین عرف محبوب الٰہی عرف سلطان المشائخ، جنہوں نے زندگی بھر روزہ رکھا اور بانوے سال تک امیروں اور بادشاہوں سے بے نیاز اپنی فقیری میں بادشاہی کرتے رہیں ‘۔ امیر خسرو جب بھی دہلی میں ہوتے انہی کے قدموں میں رہتے ۔ راز ونیاز کی باتیں کرتے اور روحانی امن کی دولت سمیٹا کرتے ۔ اپنے پیر سے مشکل اور نازک حالات میں صلاح مشورہ کیا کرتے اور وقتاً فوقتاً اپنی غلطیوں کی معافی اپنے پیر اور خدا سے مانگا کرتے تھے ۔ خسرو اور نظام الدین اپنے دل کی بات اور راز کی بات ایک دوسرے سے اکثر کیا کرتے تھے ۔ کئی بادشاہوں نے اس فقیر ، درویش یا صوفی نظام الدین اولیاء کی زبردست مقبولیت کو چیلنج کیا مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلے ۔ کئی بادشاہوں نے نظام الدین کی خانقاہ میں آنے کی اجازت ان سے چاہی مگر انہوں نے قبول نہ کی ۔

ایک رات نظام الدین چشتی کی خانقاہ میں حضرت امیر خسرو حاضر ہوئے ۔ آتے ہی بولے ۔ خواجہ جی میرے سرکار ، شہنشاہ علاء الدین خلجی نے آج ایک راز کی بات مجھ سے تنہائی میں کی ۔ کہہ دوں کیا ؟ خواجہ صاحب نے کہا :خسرو تمہاری زبان کو کون روک سکتا ہے‘ ۔ خسرو نے سنجیدہ ہو کر کہا کہ علاء الدین خلجی آپ کے اس خانقاہ میں چپکے سے بھیس بدل کر آنا چاہتا ہے ۔ جہاں امیر غریب ، ہندو مسلمان ، اونچ نیچ ، کا کوئی امتیاز انداز نہیں ۔ وہ اپنی آنکھوں سے یہاں کا حال دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس میں کھوٹ ہے ، چور ہے ، دل صاف نہیں اس کا ۔ اسے بھی دشمنوں نے بہکا دیا ہے ، ورغلا دیا ہے کہ ہزاروں آدمی دونوں وقت یہاں لنگر سے کھانا کھاتے ہیں تو کیسے ؟ اتنی دولت کہاں سے آتی ہے؟ اور ساتھ ہی شہزادہ خضر خاں کیوں بار بار حاضری دیا کرتے ہیں ۔ خواجہ بولے ۔ کیا تم چاہتے ہو خسرو ؟ خسرو کچھ اداس ہوئے بے من سے بولے ۔ حضور بادشاہِ وقت کے لئے حاضری کی اجازت ۔ خواجہ صاحب نے فرمایا ۔ خسرو تم سے زیادہ میرے دل کا رازدار کوئی نہیں ۔ سن لو ۔ فقیر کے اس تکیے کے دو دروازے ہیں ۔ اگر ایک سے بادشاہ داخل ہوا تو دوسرے سے ہم باہر نکل جائیں گے ۔ ہمیں شاہ وقت سے شاہی حکومت سے ، شاہی تخت سے کیا لینا دینا ۔ خسرو نے کہ کیا یہ جواب بادشاہ تک پہنچا دے ؟ تب خواجہ نے فرمایا ۔ اگر علاء الدین خلجی نے ناراضگی سے تم سے پوچھا کہ خسرو ایسے راز تمہاری زبان سے ؟ خسرو اس میں تمہاری جان کو خطرہ ہے ؟ تم نے مجھے یہ راز بتایا ہی کیوں ؟ خسرو بھاری آواز میں بولے ۔ میرے خواجہ جی بتا دینے میں صرف جان کا خطرہ تھا اور نہ بتاتا تو ایمان کا خطرہ تھا ۔ خواجہ نے پوچھا اچھا خسرو تم تو امیر کے امیر ہو ۔ شاہی دربار اور بادشاہوں سے اپنا سلسلہ رکھتے ہو ۔ کیا ہمارے کھانے میں تم آج شریک ہوں گے ؟ یہ سنتے ہی خسرو کی آنکھوں سے آنسو ٹپک آئے ۔ وہ بھاری آواز میں بولے ۔ ’کیا کہہ رہے ہیں پیر صاحب ۔ شاہی دربار کی کیا حیثیت ؟ آج تخت ہے کل نہیں ؟ آج کوئی بادشاہ ہے تو کل کوئی ۔ آپ کے تھال کے ایک خشک ٹکڑے پر شاہی دسترخان قربان ۔ شاہی دربار جھوٹ اور فریب کا گھر ہے ۔ مگر خواجہ یہ کیا ستم ہے کہ تمام دن روزہ ، تمام رات عبادت اور آپ سارے جہاں کو کھلا کر بھی یہ خود ایک روٹی ، جو کی خشک ۔ باسی روزی ، پانی میں بھگوبھگو کر کھاتے ہیں‘۔ خواجہ صاحب نے فرمایا ، ’ خسرو یہ ٹکڑے بھی گلے سے نہیں اترتے ۔ آج بھی دہلی شہر کی لاکھوں مخلوق میں نہ جانے کتنے ہوں گے جنہیں بھوک سے نیند نہ آئی ہوگی ۔ میری زندگی میں خدا کا کوئی بندہ بھوکا رہے ۔ میں کل خدا کو کیا منہ دکھاوں گا ؟ تم ان دنوں دہلی میں رہو گے نہ ۔ کل ہم اپنے پیر فریدالدین گنج شکر کی درگاہ کو جاتے ہیں ۔ ہو سکے تو ساتھ چلنا ۔ خسرو ہم نے تمہیں ترک اللہ کا خطاب دیا ہے ۔ بس چلتا تو وصیت کر جاتے کہ تمہیں ہماری قبر میں ہی سلایا جائے ۔ تمہیں جدا کرنے کو جی نہیں چاہتا مگر دن بھر کمر سے پٹیاں باندھے درباری کرتے ہو جاؤ کمر کھولو آرام کرو ۔ تمہارے نفس پر بھی تمہارا پر حق ہے ۔ شب بخیر‘۔

مولانا عبد ماجد دریاآبادی نے بہت ہی خوبصورت الفاظ میں امیر خسرو کا خاکہ کچھ یوں بیان کیا ہے :امیر خسرو ، امیروں میں امیر ، فقیروں میں فقیر ، عارفوں کا سردار ، شعراء کے تاجدار ، شعروادب کے دیوان اس کی عظمت کے گواہ ، خانقاہیں اور سجادے اس مرتھہ روحانی سے آگاہ سر ۔ مشاعرہ آ جائے تو میر محفل اسے پائیے ۔ خاندان چشت اہل بہشت کے کوچے میں آ نکلے تو حلقہ ذکر با فکر میں سر مسند جلوہ اس دیکھئے۔ اچھے اچھے شیخ ڈیم اس کا بھر رہے ہیں ۔ معرفت اور طریقت کے خاکی پوش کلمہ اس کے نام کا پڑھ رہے ہیں‘ ۔ ( انشائے ماجدی ۳۱۸۔۳۱۹)