امیرخسرو اور شعرونغمہ کی ہندوستانی روایت

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
امیرخسرو اور شعرونغمہ کی ہندوستانی روایت
امیرخسرو اور شعرونغمہ کی ہندوستانی روایت

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

زحال مسکیں مکن تغافل دوراے نیناں بنائے بتیاں

کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

یہ امیرخسرو کا مشہور شعرہے۔ یہ اس غزل کا پہلا شعر ہے جسے اردو۔ہندی کی پہلی غزل کہتے ہیں۔ برصغیرمیں آرٹ وکلچرکی تاریخ تب تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ امیرخسرورحمۃ اللہ علیہ کا ذکر نہ کیا جائے کیونکہ وہ اس خطے کے سب سے بڑے فنکارگزرے ہیں۔ گزشتہ سات سو سال میں امیرخسرو سا کوئی دوسرا فنکار پیدا نہیں ہوا۔ وہ جہاں اپنےعہد کے بادشاہوں اور شہزادوں سے قریب رہے، وہیں دوسری طرف معروف صوفی بزرگ نظام الدین اولیاکے مرید تھے اور ان سے بے حدقربت رکھتے تھے۔

کہاجاتا ہے کہ ایک مرتبہ امیر خسرو ،اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ ان کی شاعری میں وہ شرینی آجائے جو بے مثال ہو ۔ مرشد نے اپنے فرمانبردار مرید کی عرض داشت سنی اور ارشاد ہوا کہ کھا ٹ کے نیچے شکر رکھی ہوئی ہے نکالو ۔ اسے خود کھاوَ اور حاضرین میں تقسیم کردو ۔ امیر خسرو نے ایسا ہی کیا او رپھر ان کی زبان میں وہ شیرینی آگئی کہ آج صدیاں بیتنےکے بعد بھی اس کی مٹھاس میں کمی نہیں آئی ۔

خسرو کو ان کے عہد کے ایک بادشاہ نے ’’ ملک الشعرائی ‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا مگر وہ کشورِ سخنوری کے ایسے شہنشاہ ہوئے جس کی سلطنت کو آج تک کسی نے چیلنج نہیں کیا ۔ غالباً یہ اسی کی برکت تھی جو خسرو کو بارگاہ نظامی سے عطا ہوئی تھی ۔ وہ با الاجماع بر صغیر کی تمام زبانوں کے سب سے بڑے شاعر تھے اور آج تک ہیں ۔

ان کی برابری کا کوئی سخنور اس ملک نے پیدا نہیں کیا ۔ ان کی عظمت کودنیا نے تسلیم کیا ۔ وہ شاعری ہی نہیں موسیقی کے فن میں بھی یکتا تھے اور کچھ نئی ایجادات واختراعات کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے ۔ خسرو نے اپنی شاعری اور موسیقی کو خالص ہندوستانی رنگ دیا جسے کثرت میں وحدت کی مثال کہا جاسکتا ہے اور اسی کی تقلید بعد کے فنکاروں نے کی ۔

قوالی کا فن اور امیرخسرو 

قوالی کی تاریخ بے حد دلچسپ ہےاوریہ خالص ہندوستانی صنف ہے۔ لفظ ’’قوالی‘‘ عربی کے لفظ ’’قول‘‘ سے مشتق ہے۔ قول کا مطلب ہوتا ہے ’’بات‘‘ یا ’’بیان کرنا۔‘‘ اس طرح قوالی کا مطلب ہوا وہ بات جو بار بار دہرائی جائے۔ حالانکہ لفظ قوالی کو بھارت اورپاکستان میں گانے کی ایک خاص صنف کے طور پرلیا جاتاہے۔

قوالی ایک خاص اسٹائل کے گانوں کو کہتے ہیں جن میں اللہ کی حمد وثنا ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہوتی ہے یا صوفیہ اور اللہ والوں کی منقبت بیان کی جاتی ہے۔ اس کے لئے موسیقی لازم ہے، بغیرآلات موسیقی کے قوالی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قدیم روایتوں، صوفیہ کے تذکروں اور تاریخی کتابوں کے مطابق اس خطے میں پرانے زمانے سے صوفیہ کی خانقاہوں میں قوالی کا رواج رہا ہے۔

اس کی ابتدا اگرچہ امیر خسرو سے مانی جاتی ہے جو اپنے عہد کے ایک معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے فن میں بھی مہارت رکھتے تھے مگر سماع کی محفلیں اس سے پہلے بھی رائج تھیں اور باوجود اس کے رائج تھیں کہ علماء کا ایک بڑاطبقہ موسیقی کو غیراسلامی مانتا تھا اور اس کی مخالفت کرتا تھا۔

یہ فن کی سچائی کی دلیل ہے کہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی یہ فن زندہ ہے اور اسے پسند کرنے والوں کا ایک طبقہ موجود ہے۔ امیرخسرو شاعری کے ساتھ ساتھ موسیقی کے فن میں بھی یکتا تھے اور کچھ نئی ایجادات و اختراعات کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری اور موسیقی کو خالص ہندوستانی رنگ دیا جسے کثرت میں وحدت کی مثال کہا جاسکتا ہے اور اس کی تقلید بعد کے فنکاروں نے کی۔ خسرو کا فن اس تہذیبی وراثت کا عطر مجموعہ ہے جس کی روایت ہزاروں برسوں پر محیط ہے۔

خاندانی پس منظر

امیر خسرو کی ولادت اترپردیش کے پٹیالی قصبے میں ہوئی، جو کہ متھرا سے ایٹہ جانے والی شاہراہ پہ گنگا کنارے واقع ہے۔ ۶۵۱ھ بمطابق ۱۲۵۲ء کو یہاں کے ایک امیر کبیرگھرانے میں انھوں نے جنم لیا۔ یہ سلطان ناصرالدین محمود کا دور سلطنت تھا۔ والد کا نام امیر سیف الدین محمود اور والدہ کانام دولت ناز تھا۔ والد ایک مہاجر ترک تھے تو والدہ ایک (ہندو) نومسلم، سیاہ فام ہندوستانی سیاستداں کی بیٹی تھیں۔ وہ اپنے تین بھائیوں اور ایک بہن میں منجھلے تھے۔

خسرو کا اصل نام یمین الدین محمود تھا مگر شہرت انھیں ان کے تخلص سے ملی۔ امیر، ان کا موروثی خطاب تھا۔ انھوں نے اپنی شاعری اور موسیقی میں خالص ہندوستانی انداز کو اپنایا اسی لئے وہ خوب مقبول ہوئے۔ ان کے فن میں اہل وطن نے اسی مٹی کی سوندھی خوشبو محسوس کی۔

قوالی کی مقبولیت

قوالی کا فن اس قدر مقبول ہوا کہ وہ خانقاہوں سے نکل کر عوام الناس تک پہنچ گیا اور عوامی محفلوں میں اسے گایا جانے لگا۔ اب یہ خانقاہوں اور درگاہوں تک محدود نہیں رہا بلکہ عام لوگوں کی پسند بن چکا تھا۔ ایک ایک محفل میں ہزاروں اور لاکھوں کی بھیڑ جمع ہوجاتی اور قوالی گانے والے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے۔

برصغیر میں سنیما کی آمد سے قبل عام لوگوں کی تفریح طبع کا سامان ہوا کرتی تھیں قوالی کی محفلیں اور جب یہاں سنیما متعارف ہوا تو قوالیوں کو بھی یہاں جگہ دی گئی۔ البتہ ایک بڑا بدلائو یہ ہوا کہ قوالی کے مضامین بدل گئے۔ جہاں خالص حمدونعت، منقبت اور پند ونصیحت کے مضامین اس کا حصہ ہوا کرتے تھے وہیں اب عاشقانہ اور عامیانہ مضامین اس میں شامل ہوگئے۔