اے ایم یو:سرسید کے صبر واستقلال کی کھیتی کا حاصل

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-01-2021
اے ایم یو پر ہندوستان جتنا ناز کرے کم ہے
اے ایم یو پر ہندوستان جتنا ناز کرے کم ہے

 

پروفیسر اخترالواسع   wase

 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنا ایک صدی کا سفر پورا کر لیا۔ ہندوستانی مسلمان کیا پورا ہندوستان اس پر جتنا ناز کرے کم ہے کیوں کہ عالمِ اسلام میں جدید اور سیکولر تعلیم کا پہلا ادارہ 24مئی 1875مدرسۃ العلوم مسلمانان کے نام سے قائم ہوا۔ فروری 1877میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (M.A.O.College) بنا اور 1920 اسے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ عطا ہوا۔ کچھ لوگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ہی علی گڑھ تحریک سمجھ لیتے ہیں جب کہ درحقیقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تحریک کا ثمرہ ہے۔ یہ سرسید کے صبراستقلال کی کھیتی کا حاصل ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اوراس سے پہلے ایم اے او کالج نے ہماری مذہبی، تہذیبی، ثقافتی، لسانی، ادبی اور معاشرتی زندگی پر جو گہرے اثرات مرتب کیے وہ غیرمعمولی نوعیت کے تھے۔ سرسید نے جدید اورسیکولر تعلیم کےآغاز سے پہلے ذہن سازی کاایک بڑا منظم اورمنصوبہ بند پروگرام کا بیڑا اٹھایا۔ اس کے لیےانہوں نے انگلستان کا سفر بھی کیا، رسالہ تہذیب الاخلاق نکالا،سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد بھی رکھی اور شہروں شہروں گھوم کر اپنے تعلیمی اوراصلاحی ایجنڈے کو لوگوں کےسامنے پیش کیا۔ ہندو، مسلمان،سکھ اورعیسائی سب کو متحد کرنے کی کوشش کی اور یہ کام انہوں نےاکیلے ہی نہیں کیا بلکہ اپنے رفقاء محسن الملک، وقارالملک، مولانا الطاف حسین حالی، ڈپٹی نذیر احمد، علامہ شبلی نعمانی، عمادالملک، چراغ علی اور راجہ جے کشن داس جیسے نامور لوگوں سے بھرپورمدد لی۔ انہوں نے کالج کے علمی وقاراوراعتبار کو یقینی بنانے کے لیے مغرب کے بہترین ذہنوں کو علی گڑھ کی تدریسی ذمہ داریوں کے لیے منتخب کیا۔

                 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیے تو کچھ انتہائی خوش گوار حقائق سامنے آتے ہیں۔ یہ وہ پہلا ادارہ تھا جس نے ایک مسلمان خاتون (سلطان جہاں بیگم) کو اپنا چانسلر منتخب کیا جس کا پہلا گریجویٹ بابو ایشوری پرساد تھے جہاں کی جامع مسجد میں سنی اور شیعہ اپنی نمازیں ایک ہی مصلہ پر ادا کرتے ہیں۔ اردو زبان و ادب میں رومانوی تحریک ہو یا ترقی پسند تحریک یا جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے رجحانات سب پر علی گڑھ کی گہری چھاپ ملے گی- جدید اردو غزل کے چار ستونوں میں سے دو ستون حسرتؔ اور فانیؔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ہی پیداوار تھے۔سرسید خود جدید اردو نثر کے باوا آدم ہیں تو بابائے اردو مولوی عبدالحق ان ہی کے تربیت یافتہ ہیں۔

1915میں کابل(افغانستان) میں آزاد ہندوستان کی پہلی جلاوطن حکومت کے صدرراجا مہندر پرتاپ بھی علی گڑھ کی دین تھے۔ یہی نہیں 1921کے انڈین نیشنل کانگریس کے احمدآباد اجلاس میں مکمل آزادی کا ریزولیوشن پیش کرنے والے علامہ حسرت موہانی یہیں کے گریجویٹ تھے۔ تحریک عدم تعاون میں 29اکتوبر1920 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا جنم علی گڑھ کے  بطن سے ہی ہوا۔1967میں دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے صدور مملکت علی گڑھ ہی کے پروردہ تھے اور ایسے لوگ ایک دو نہیں سیکڑوں تھے جنہوں نے برصغیر میں ہی نہیں بلکہ ایشیا اور افریقہ کے مختلف ملکوں میں اپنے نام اور کام سے علی گڑھ کی پہچان بنائی۔ ایسا صرف زبان، ادب اور سیاست کے میدان ہی میں نہیں ہوا بلکہ علم ہو یا فلم، کھیل ہو یا ہنرمندی علی گڑھ سے نہ جانے کتنے ابرگہربار اٹھے اور وہ سارے جہاں پر برسے اور آج بھی برس رہے ہیں۔

                آج جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات کا ہم جشن منا رہے ہیں، سرسید کے انتقال کو 120سال ہو چکے ہیں۔ زمانی اعتبار سے ہم سرسید سے بہت آگے ہیں لیکن کیا ہم سرسید کی علم کے فروغ، اصلاح معاشرہ اور فکری جولانیوں کے اعتبار سے ان سے آگے ہیں؟ اس کا جواب افسوس صد افسوس نفی میں ہے۔ ہم سرسید کے آگے تو کیا ان کے پیچھے بھی نہیں بلکہ بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ سرسید تھے تو ہم آج یہاں ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو ہم کہاں ہوتے؟

سرسید اور ان کے رفقاء نے 19ویں صدی میں اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کی، ادارہ سازی کی، ذہن سازی اور افراد سازی کی۔ سوال یہ ہے کہ 21ویں صدی کی دو دہائیاں بیتنے کے بعد ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا کیا ہے؟ کتنا کیا ہے؟ آج ہم دنیا میں کل سے بہتر ماحول میں ہیں۔ ہمارے پاس خودمختار ملک بھی ہیں اور مواقع بھی۔ آج کے تعلیم اور صحت کو سرکاروں نے نجی زمرے میں ڈال دیا ہے۔

کیا ہم اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ ذرا سوچیے اگر سرسید اور ان کے رفقاء آج ہوتے تو وہ اس صورتحال کا کس طرح مثبت انداز میں بہتر طریقے سے فائدہ اٹھاتے؟ کچھ لوگ جو حالات کا رونا روتے رہتے ہیں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سرسید اور ان کے ساتھیوں نے جن دشوار ترین اور صبر آزما ماحول میں ہمارے کل کو بہتر بنانے کے لیے اپنے آج کی قربانی دی تھی، ہم اس سے زیادہ گیے گزرے ماحول میں نہیں ہیں۔ آج علی گڑھ میں ایک چھوٹے سے ریڈیس سرکل میں مختلف علوم و فنون کے ماہرین جتنے مرد اور عورتیں رہتے ہیں وہ کسی بھی مخلوط معاشرے میں کہیں اور نہیں ملیں گے۔ ضرورت صرف ڈگریاں تقسیم کرنے والے اداروں کی نہیں بلکہ ان کی ہے جوعلم کے ساتھ حلم پیدا کریں تو خدا کے قول یعنی قرآن اور خدا کے فعل یعنی تخلیق کائنات میں ہم آہنگی پیدا کریں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ فرقہ بندی کے نتیجے میں عناد اور فساد پیدانہ ہو، مسلکوں کی آویزش سے کفر سازی کی دکانیں نہ کھولی جا سکیں۔ آج ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی تعلیم کے لیے پیدا ہونے والے نئے ذوق و شوق کا یہ تقاضہ ہے کہ اہل نظر تازہ بستیاں آباد کریں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صد سالہ سفر کی تکمیل پر یہی ہمارا علی گڑھ کے پیردانا اور ان کے نامور رفقاء کو سچا خراجِ عقیدت ہوگا۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں