علی گڑھ مسلم یونیورسٹی: نئی بلندیوں کی طرف سفر جاری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-06-2021
جو ابر یہاں سے اٹھتا ہے وہ سارے جہاں پر برستا ہے۔
جو ابر یہاں سے اٹھتا ہے وہ سارے جہاں پر برستا ہے۔

 

awazurdu

 پروفیسر اخترالواسع    

 

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے دسمبر 2020 میں ایک یونیورسٹی کی حیثیت سے اپنے قیام کے 100 سال پورے کئے اور اس موقع پر وزیر اعظم شری نریندر مودی نے یونیورسٹی صدی تقریبات کو خطاب کرتے ہوئے اسے ”مِنی انڈیا“ قرار دیا اور اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بیش بہا علمی خدمات کو اور اس کے قومی کردار کو سراہتے ہوئے اس کی خدمات کا اعتراف بھی کیا اور اسے خراج تحسین بھی پیش کیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے گزشتہ ایک صدی میں مختلف مضامین میں علمی تحقیق ہو یا کھیل اور فلم کی دنیا میں غیر معمولی پہچان بنائی۔ اردو زبان و ادب کی کوئی بھی تحریک ہو، کوئی بھی صنف ہو علی گڑھ کے بغیر ان کی تاریخ اور ترقی کی داستان مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔ رومانیت کی تحریک ہو یا ترقی پسندی یا پھر جدیدیت اور مابعد جدیدیت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا کردار دان سب میں محوری اور نمایاں رہا ہے۔

سال 2020 میں بھی حکومت ہند کی وزارت فروغ انسانی وسائل نے مرکزی یونیورسٹیوں کی جو درجہ بندی کی اس میں علی گڑھ پانچویں پائیدان پر تھا اور اب سینٹر فار ورلڈ یونیورسٹی رینکینگ نے اپنی تازہ رینکنگ میں ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو آٹھواں مقام اور دنیا کے دو ہزار اداروں میں 129 پائیدان پر کھڑا کیا ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو یہ مرتبہ اور مقام اس کی معیاری و تحقیقی سرگرمیوں کے اعتراف میں دیا گیا ہے اس پر علی گڑھ والے جتنا ناز کریں کم ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اساتذہ، طلبہ اور طالبات کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ ممتاز ترین اداروں میں جگہ حاصل کرنا اے ایم یو برادری کے لئے باعث مسرت ہے اور دنیا میں اے ایم یو کا وقار اساتذہ اور طلبہ کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ جس سے ملک و بیرون ملک میں اے ایم یو کا نام اور کام عزت و احترام سے تسلیم کیا جا تا رہا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جس کا آغاز 24مئی 1875کو مدرسۃ العلوم مسلمانان کے طو رپر ہوا اور جسے ساری دنیا میں اس بات پر جتنا فخر ہو کم ہے کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں جدید اور سیکولر تعلیم کا پہلا ادارہ تھی جو ہندوستان میں قائم ہوئی۔ یہی مدرسۃ العلوم فروری 1877 میں ایم اے او کالج بنا اور دسمبر 1920 میں اس کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ عطا ہوا۔

ایک زمانہ تھا جب افریقہ کے مختلف ممالک سے یہاں طالب علم آتے تھے اور حصول تعلیم کے بعد اپنے ملکوں میں تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار اداکرتے تھے۔ اسی طرح ایشیاء میں آزادی کے بعد بھی افغانستان، ایران، شری لنکا اور تھائی لینڈ جیسے ملکوں کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی ترقی میں اے ایم یو کے فارغین نے آگے بڑھ کر حصہ لیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہندوستان اور پاکستان دونوں کے صدر مملکت ڈاکٹر ذاکر حسین اور جنرل ایوب خاں علی گڑھ کے پروردہ تھے۔ بس اتنے فرق کے ساتھ کہ ذاکر صاحب جمہوری عمل سے ہندوستان کے منصب صدارت تک پہنچے جب کہ ایوب خاں فوجی بغاوت کے ذریعہ اپنے ملک کے سربراہ بنے۔

ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسی حکومت رہی ہو جس میں علی گڑھ والوں کو حصہ داری نہ ملی ہو۔ رفیع احمد قدوائی، ڈاکٹر سید محمود، شفیع قریشی، انورہ تیمور، حامد انصاری، محسنہ قدوائی، معین الحق چودھری، عارف محمد خاں، صاحب سنگھ ورمایہ سب علی گڑھ میں ہی زیر تعلیم رہے تھے اور بعد ازاں انہوں نے اپنے ملک کی تعمیر میں غیرمعمولی رول انجام دیا اور آج تک دے رہے ہیں۔ یہ علی گڑھ کے طلبہ و طالبات ہی ہیں جو آج بھی نہ صرف ترقی پذیر ملکوں میں بلکہ امریکہ، کناڈا اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں اپنی صلاحیتوں سے ان تمام معاشروں اور ملکوں کو نئی بلندیوں تک لے جا رہے ہیں۔

آج بھی اے ایم یو کو سی بی یو آرکی رینکنگ میں جو نمایاں حیثیت حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں تدریس و تحقیق کا ایک خاص ماحول بنا ہے۔ مرکزی حکومت نے بھی علی گڑھ والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ مثال کے طور پر سینٹر فار ویمن اسٹڈیز اور شعبہ تاریخ نے ملک بھر میں اپنی خاص پہچان بنا رکھی ہے۔ اسی طرح سنسکرت، عربی، فارسی، انگریزی اور ہندی زبانوں کی تدریس و تحقیق میں اسے ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قائم یو جی سی کے اسٹیٹ ریسورس سینٹر کو پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کی سربراہی میں ایک خاص حیثیت اور مرتبہ حاصل ہے۔ اس سینٹر نے اپنے متنوع، موثر اور مفید موضوعات پر اورینٹیشن پروگراموں اور رِی فریشر کورسوں کے انعقاد کے ذریعے اپنی ساکھ بنائی اور دھاک جمائی ہے۔

یہاں کا طبیہ کالج ہندوستان کے پرانے اور مقتدر یونانی تعلیم کے اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کا میڈیکل، ڈینٹل کالج اور آنکھوں کے علاج کا مرکز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو قبولیت عام ملنے میں بڑا رول انجام دے رہے ہیں۔

بایو ٹیکنالوجی میں ڈاکٹر اسداللہ کی تحقیقی خدمات کا اعتراف صدر جمہوریہ نے بھی کیا ہے۔ اسی طرح انجینئرنگ کالج کے مختلف شعبوں میں جو علمی مسابقت جاری ہے وہ انتہائی قابل تحسین ہے۔ مثال کے طور پر ڈپارٹمنٹ آف سول انجینئرنگ کو سیمنٹ بنانے کے نئے فارمولے کو پیٹنٹ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ایگریکلچرل فیکلٹی میں نمایاں کارکردگی اور تحقیق کے لئے باضابطہ طور پر سراہا گیا ہے اور وہاں کے اساتذہ کو مختلف ایگریکلچر یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر بھی بنایا گیا ہے۔

اس وقت ملک میں تقریبا آدھے درجن سے زیادہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر علی گڑھ کے وابستگان اور فارغین میں سے ہیں۔ اے ایم یو کی لاء فیکلٹی کے سابق طلبہ و طالبات ہماری جوڈیشری میں مختلف مناصب پر فائز ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مولانا آزاد لائبریری علمی دنیا میں اپنی درسی اور غیردرسی کتابوں، رسائل اور جرائد کے لئے ساری دنیا میں جانی جاتی ہے اور وہ تشنگان علم کی پیاس بجھانے کے لئے 24 گھنٹے کھلی رہتی ہے۔غرض علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بغیر کسی مذہبی اور علاقائی تفریق کے ملک و ملت کی تعمیر اور ترقی میں اپنا رول انجام دے رہی ہے اور پھر ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اپنی ایک الگ پہچان ہے۔ بقول مجاز:ؔ جو ابر یہاں سے اٹھتا ہے وہ سارے جہاں پر برستا ہے۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)