جشن ریختہ کی ہوگی آج رنگا رنگ واپسی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
  جشن ریختہ کی رنگا رنگ واپسی
جشن ریختہ کی رنگا رنگ واپسی

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

راجدھانی دہلی میں موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا دور بھی شروع ہوجاتا ہے۔ کورونا کے سبب اس میں دو یا تین سال کا خلل پیدا ہوا تھا مگر اب جبکہ زندگی ایک بار پھر پٹری پر لوٹ چکی ہے اور کرونا کا تقریبا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ادبی  اور ثقافتی سرگرمیوں  کی واپسی کا آغاز ہوگیا ہے ۔اردو کے مداحوں کے لیے ’جشن ریختہ ‘ کی واپسی  ’عید کے چاند‘ جیسی خوشی بن گئی ہے۔ جس کو ہم نہ صرف دہلی بلکہ دلچسپی اور توجہ  کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا اردو ادب کا تہوار مان رہے ہیں ۔ 2 سے 4 دسمبرتک دہلی کےمیجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم کے آنگن میں  ریختہ کی محفل  پھر سجے گی ۔

 جشن ریختہ کا افتتاح 2 دسمبرکو ممتاز دانشور اور قلم کار جاوید اختر کریں گے جبکہ اس کے ساتھ دوسری محفل صدا و ساز میں سری ہری ہررن اپنے جوہر دکھائیں گے ۔ جس کے ساتھ ریختہ کی واپسی ہوگی-

دوسرے دن یعنی 3 دسمبر سے الگ الگ موضوعات پر اجلاس کا دور شروع ہوگا ۔جس میں شاعری اور ادب سے اردو صحافت تک تبادلہ خیال اور مذاکرہ ہوگا۔ جشن ریختہ کے دوسرے دن محفل خانہ ،بزم خیال ،دیار اظہار اور سخن زار کے اجلاس ہونگے جن میں ممتاز نام اور چہرے نظر آئیں گے ۔

اس بار جشن ریختہ میں اردو صحافت ہر مذاکرہ ہے کیونکہ اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہوئے ہیں ۔اس میں ممتاز صحافی ظفر آغا ،شاہد صدیقی ،ندیم صدیقی اور شکیل حسن شمسی حصہ لیں گے ۔ اسی دن اردو ناول کا عصری منظر نامہ پر بات چیت ہوگی ۔ ساتھ ہی قوالی کی محفل کو اسلم صابری سجائیں گے ۔عزل اور ٹھمری کا دور بھی ہوگا ۔ شام کو سات بجے محفل مشاعرہ کا انعقاد ہوگا ۔

 جشن ریختہ کے آخری دن 4دسمبر کو بھی محفلوں کا دور چلے گا ،جس میں  سب سے پر کشش محفل صوفی میوزک کی شام ہوگی جس میں ریچا شرما اپنے فن کا مظاہرہ کریں گی ۔

جشن ریختہ کے تفصیلی پروگرام کے لیے کلک کریں 

حالانکہ ریختہ سے قبل بھی دہلی میں اردو کے بہت سے پروگرامز ادبی کیلنڈر کا حصہ بن چکے تھے جن میں  شنکر شاد مشاعرہ، دہلی اردو اکیڈمی کا جشن جمہوریہ کا مشاعرہ، مشاعرہ جشن بہار، جشن ریختہ اور جشن ادب شامل ہیں ۔ان سب کے مختلف شبعہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سامعین اور ناظرین ہیں۔ مگر ریختہ نے جو چھاپ چھوڑی ہے اس نے جہاں اردو داں طبقہ کو نئی زندگی عطا کی بلکہ غیر اردو داں  حضرات کو اردو سے جوڑنے کا کامیاب تجربہ کیا۔

حالانکہ ریختہ کی کامیابی نے جہاں اس کو لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کا نور نظر بنایا تو اس کے ساتھ اس کو اردو کی رسم الخط کے معاملہ پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ’ریختہ‘ نے ثابت کردیا کہ حرکت میں برکت ہے۔ کیونکہ اس سے قبل آئے دن یہ شور سننے میں آتا رہا کہ اردو زبان مر رہی ہے، اس کے پڑھنے والے کم ہو رہے ہیں، یہ حکومت کی بے توجہی کا شکار ہے۔

آپ کو بتا ئیں کہ ریختہ فاؤنڈیشن ایک غیر منفعتی ادارہ ہے جس کا قیام اردو کے تحفظ اور فروغ کے لیےمیں عمل میں آیا ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے میں ریختہ ڈاٹ آرگ کے نام سے ایک ویب سائٹ کا2013 میں آغاز کیا گیاتھا جو بہت جلد اردو شاعری ،نثر اور اردو میں لکھی جانے والی کتابوں کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ بن گئی۔

دراصل  اردو زبان  اور تہذیب  کے مختلف رنگوں  اور ذائقوں کو عوام تک پہنچانے کے لیے جشن ریختہ کی مختلف تقریبات بہت جلد اردو زبان و تہذیب کے سب سے بڑے جشن کے طور پر دیکھی جانے لگی ہیں ۔

یاد رہے کہ ایسی محفلوں کے ساتھ اردو کے فروغ کے لیے ریختہ فاؤنڈیشن نے اور بھی کئی اہم منصوبوں پر کام کیا۔جن میں آموزش ڈاٹ کام کے نام سے اردو رسم الخط سکھانے کے لیے بنائی گئی ویب سائٹ بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ اردو رسم الخط سکھانے کے لیے کلاسز بھی چلائے جارہے ہیں۔