‘افغانستان: طالبان کی ’واپسی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
افغانستان انخلا کے بعد کیا ہوگا؟
افغانستان انخلا کے بعد کیا ہوگا؟

 

 

awazurdu

 ایم ودود ساجد

۔ 20سال تک افغانستان میں رہنے کے بعد امریکی افواج کے مکمل انخلاء کا وقت جیسے جیسے قریب آرہا ہے صورتحال میں بتدریج تبدیلی رونما ہورہی ہے۔چند دنوں میں یہ عمل پورا ہوجائے گا۔ہرچند کہ کچھ امریکی فوجی کابل کے نواحی علاقے وزیر اکبر خان میں واقع امریکی سفارتخانے کی حفاظت اور کابل ہوائی اڈے کی سیکیورٹی کے لئے افغانستان میں ہی رہ جائیں گے تاہم افغانستان کا بڑا علاقہ امریکی فوجیوں سے خالی ہوجائے گا۔مبصرین اس سلسلہ میں کچھ اندیشے ظاہر کررہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ مکمل انخلاء کے بعد افغانستان میں حالات دگر گوں ہوجائیں گے کیونکہ ابھی سے طالبان نے افغانستان کے بہت سے علاقے اپنے تصرف میں لے لئے ہیں۔یہ صورتحال ہندوستان کیلئے بھی کم تشویشناک نہیں ہے۔

گزشتہ 23-24 جون کوجب ہندوستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال نے تاجکستان کی راجدھانی دوشانبے میں منعقد شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او)کے سیکیورٹی ایڈوائزرس کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی توروس کی خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق انہوں نے روس کے اپنے ہم منصب نکولائی پیٹروشیف سے خصوصی طورپر افغانستان کی تازہ صورتحال پر بھی تفصیل سے گفتگو کی۔جغرافیائی اعتبار سے ہند‘روس اور افغانستان ایک دوسرے کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ افغانستان باقی دونوں ملکوں کے درمیان مختلف میدانوں تک رسائی کی ایک اہم کڑی ہے۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن جتنا ضروری روس کے لئے ہے اتنا ہی ضروری ہندوستان کے لئے بھی ہے۔ افغانستان کی اہمیت یہ ہے کہ وہاں امن کا قیام‘ خطہ کی خوش حالی‘اقتصادی تعاون‘ باہمی رابطہ اور استحکام کیلئے بہت ضروری ہے۔ہندوستان نے افغانستان کے راستے خطہ کے علاقائی رابطہ کو فروغ دینے میں ایک بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس سلسلہ میں سب سے نمایاں چا بہار پروجیکٹ ہے جو افغانستان کو ہندوستان اور سینٹرل ایشیا سے جوڑتا ہے۔سینٹرل ایشیا اس وقت خطہ کی ابھرتی ہوئی اقتصادی قوت کے طورپر سامنے آیا ہے۔ہندوستان کے لئے افغانستان کی اہمیت اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہے۔ وہاں جو بھی اقتدار میں ہوتا ہے ہندوستان کوسینٹرل ایشیا سے جوڑنے والے تمام زمینی راستوں پر اسی کا تصرف ہوتا ہے۔

ایس سی او یعنی شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن کی بنیاد 2001 میں روس‘ چین اور سینٹرل ایشیا کے چار ممالک کرغیزستان‘قزاخستان‘تاجکستان اور ازبیکستان کے صدور نے مل کر ڈالی تھی۔2017 میں ہندوستا ن اور پاکستان کواس تنظیم کا مستقل ممبر بنایا گیا تھا۔بیجنگ میں قائم یہ تنظیم علاقائی مفادات کی محافظ چند بڑی بین الاقوامی تنظیموں میں سے ایک ہے۔اس سال تنظیم کا صدر تاجکستان ہے۔23-24 جون کوسیکیورٹی ایڈوائزرس کی ہونے والی سالانہ میٹنگ میں کورونا سے پیدا ہونے والی سیکیورٹی صورتحال پر گفتگو ہوئی۔

میٹنگ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کورونا کے سماجی اوراقتصادی نتائج خطہ میں دہشت گردی‘انتہا پسندی‘منشیات کے ناجائز کاروباراورمنظم جرائم کو فروغ دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔ہر چند کہ ہندوستان اس تنظیم کے بانیوں میں سے نہیں ہے اور اس کے مقابلے میں روس اس تنظیم کا موثر ومضبوط ممبر ہے تاہم ہندوستان نے خطہ کی سیکیورٹی کے سلسلہ میں اس فورم پر خصوصی دلچسپی لے کر تنظیم کو بڑا تعاون اور ایک نئی جہت دی ہے۔نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال نے اسی لئے روس کے اپنے ہم منصب سے الگ سے افغانستان اور خطہ کی سیکیورٹی کی صورتحال پر خصوصی گفتگو کی ہے۔

افغانستان صرف ہندوستان کے لئے ہی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ روس اور سینٹرل ایشیا کے ممالک کرغیزستان‘قزاخستان‘تاجکستان اور ازبیکستان کیلئے بھی بہت اہم ہے۔افغانستان میں قیام امن کے خوشگوار اور مثبت اثرات پورے خطہ پر پڑیں گے۔یہی وجہ ہے کہ ایس سی او کے موجودہ صدر تاجکستان اور خود روس نے بھی افغانستان کے حوالہ سے ہندوستان کے این ایس اے اجیت ڈوبھال کو بڑی اہمیت دی ہے۔ ادھر اجیت ڈوبھال نے ایس سی او کی میٹنگ میں پاکستان کے انتہاپسند گروپ لشکر طیبہ اور جیش محمد سے نپٹنے کے لئے ایک ایکشن پلان بھی تجویز کردیا۔پاکستان کو اس صورتحال سے سبکی بھی ہوئی۔لیکن روس کے ان کے ہم منصب نے ہندوستان کے تحفظات کو اہمیت دے کرپاکستان کی بے چینی کو اور بڑھادیا۔

سچی بات یہ ہے کہ سخت گیر عناصر تو خود پاکستان کیلئے بھی خطرہ بنے ہوئے ہیں اور ان سے نپٹنا خود اس کیلئے بھی ضروری ہے۔ایسے میں اگر وہ ہندوستان سے بھی اس سلسلہ میں تعاون کرے تو ہندوستان بھی اس کا تعاون کرکے اسے سخت گیر عناصر سے محفوظ کرسکتا ہے۔اگر اجیت ڈوبھال نے اس موضوع کو ایس سی او کی میٹنگ میں اٹھایا ہے تو لازمی طورپر اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اگر اپنے سخت گیر عناصر سے نپٹنے کیلئے ایس سی او کا پلیٹ فارم استعمال کرے تو ہندوستان بھی اس میں تعاون کرے گا۔میرا خیال ہے کہ ہندوپاک کے درمیان دوسرے متنازعہ امور پر بھی ایس سی او کے پلیٹ فارم پر بالواسطہ ہی سہی گفتگو ہوسکتی ہے۔اس عمل کو آسان بنانے کے لئے دونوں ملکوں کے غیر سیاسی حکام زیادہ موثر ثابت ہوسکتے ہیں۔

بہر حال اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں موجود طالبان 20سال کے وقفہ کے بعد پھر سے سیاسی منظرنامہ پر پوری قوت کے ساتھ نمودار ہورہے ہیں۔اس صورتحال کا سہرا امریکہ اور قطر کے سر بندھتا ہے۔امریکہ نے پہلے افغانستان کی حکومت سے ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے قیام امن کیلئے دیگرمتعدد اقدامات کے علاوہ طالبان سے بھی گفتگو پر اتفاق کیا گیا۔پھر قطر کے توسط سے طالبان سے گفتگو شروع ہوئی۔اس عمل میں امریکہ بھی شامل ہوااور افغانستان کی حکومت بھی شریک ہوئی۔

امریکہ نے دوسرا امن معاہدہ فروری 2020میں طالبان سے کیا۔جس کی رو سے افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے بدلے طالبان سے امن کی ضمانت لی گئی۔ طالبان سے امریکہ اور افغان حکومت کاامن معاہدہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔طالبان کیلئے اس کی اہمیت یہ ہے کہ امریکہ جیسا طاقتور ملک ان کے سامنے جھک گیا اور مکمل انخلاء پر راضی یا مجبور ہوگیا۔طالبان کی حکومت کے خاتمہ کا سب سے بڑا سبب خود امریکہ ہی بنا تھا۔لیکن اب ان سے امریکہ کے معاہدہ کا مطلب یہ ہے کہ طالبان اگر پر امن سیاسی اقدامات اور جمہوری راستوں سے افغانستان میں حکومت میں آنے کی کوشش کرتے ہیں تو امریکہ ان کی راہ کا روڑا نہیں بنے گا۔اس صورت میں افغانستان کی موجودہ حکومت بھی طالبان سے کوئی چشمک مول لینے کی متحمل نہیں ہوسکے گی۔

لیکن یہ صورتحال ہندوستان کیلئے خطرناک نہ سہی تشویشناک ضرور ہوگی۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔اولاً تو چا بہار پروجیکٹ افغانستان کی مضبوط سیاسی اور عسکری اکائیوں کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکے گا۔اگر طالبان کسی بھی صورت میں اقتدار میں آتے ہیں تو ان سے رابطہ رکھنا ضروری ہوگا۔دوسرے یہ کہ خود افغانستان میں آباد ہندوستانی برادری کی سیکیورٹی کی ضمانت بھی طالبان سے بات کئے بغیر نہیں لی جاسکے گی۔آج بھی وہاں ہندوستانی برادری خطرات کی زد پر ہے۔بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ہندوستان نے کچھ باوثوق چینل کا استعمال کرکے طالبان سے رسم وراہ قائم کرلی ہے۔

خود دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ ہمیں تعمیرنو اور ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہے جو خطہ کے ممالک کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ طالبان کے ساتھ ہندوستان کی گفتگو اس لئے بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں مقیم ہند نزاد افغانیوں پر حملوں میں طالبان کا حقانی گروپ ملوث رہا ہے۔طالبان کا دوحہ گروپ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان کے اقتدار میں اچھی خاصی جگہ بنالے گا۔

افغانستان میں ہندوستان حکومت نے بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام کرائے ہیں۔افغانستان کوامداد دینے والے چند بڑے ممالک میں ہندوستان بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔اس وقت ہندوستان2.3 بلین ڈالر کا ترقیاتی پروگرام چلا رہا ہے جس کے تحت افغانستان کے ٹرانسپورٹ‘ اسکول‘کالج اور لائبریریوں کی تعمیر کے علاوہ انسانی امدادبڑے پیمانے پر کی جارہی ہے۔

نئی دہلی میں افغانستان کے سفیر فرید مامون زئی نے ہندوستان کے ایک میڈیا گروپ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کو ان طالبان سے ضرو ر بات کرنی چاہئے جو افغانستان کے جمہوری فریم ورک اور انسانی اقدار میں یقین رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے 20سال میں جو کچھ حاصل کیا ہے اسے ہم کھونا نہیں چاہتے اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان‘ شدت پسند طالبان کے ہاتھوں میں نہیں جائے گا۔

اس وقت افغانستان کے بعض علاقوں میں گوکہ زبردست لڑائی چل رہی ہے لیکن ہم نے طالبان کے ہاتھوں سے بہت سے علاقے واپس لے لئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کے لئے ہندوستان کے اس پیغام کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ انہیں خطہ کے دہشت گردوں سے اپنے مراسم توڑنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ ہندوستان ہماری سیکیورٹی فورسز کو اپنا مادی اور عسکری تعاون دیتا رہے گا۔مامون زئی نے ہندوستان سے مزید عسکری تعاون بڑھانے کی بھی اپیل کی۔

ظاہر ہے کہ ہندوستان کے لئے یہ ایک سنہرا موقع ہے کہ وہ بدلتے ہوئے منظر نامہ میں اپنے لئے کوئی موثر کردار تلاش کرکے اس پر ابھی سے عمل شروع کردے۔نہ صرف خطہ کو بلکہ خود ہندوستان کو بھی سرحد پارکے شدت پسند عناصر سے محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں افغانستان سے اپنے رشتے مزید مضبوط بنانے ہوں گے۔