سلطنتوں کا ہے قبرستان افغانستان

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 23-08-2021
افغانستان  بڑی طاقتوں کے لیے گلے کی ہڈی بنا
افغانستان بڑی طاقتوں کے لیے گلے کی ہڈی بنا

 

 

 awaz

 مفتی منظور ضیائی، ممبئی

افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے جسے مورخین اور عالمی امو رپر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے ساتھ ساتھ امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے بھی اس حقیقت کا اعتراف اپنی اس تقریر میں کرلیا جو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاف، امریکی کٹھ پتلی اشرف غنی کے فرار اور طالبان کے کابل میں داخلہ کے موقع پر کی تھی ۔

پہلے برطانیہ پھر سوویت یونین اور امریکہ کی ذلت آمیز شکست کے بعد اب اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بچی ہے کہ افغانیوں کو طاقت کے بل بوتے پر زیر نہیں کیاجاسکتا، محبت کے ذریعے ان پر فتح پائی جاسکتی ہے لیکن دھونس دھمکی اور جدید ترین اسلحہ آلات اور اسلحہ جات سے مسلح فوج کے ذریعے ان پر غلبہ حاصل نہیں کیاجاسکتا۔

سب سے پہلے برطانیہ کو یہ شوق چرایا تھا اس نے افغانستان پر چڑھائی کردی پہلی اینگلو افغان وار 1832 سے 1839 تک چلی اس جنگ کے لیے برطانیہ نے 20 ہزار فوجی بھیجے تھے، نشان عبرت کے طور پر ایک لنگڑا فوجی واپس آیا باقی سب کے سب مارے گئے۔

اس جنگ میں تاج برطانیہ کے فوجی کے طور پر بہت سے ہندوستانی بھی شامل تھے ان کی یاد میں ممبئی شہر کے قلابہ کے علاقے میں افغان چرچ بناہوا ہے اس کے بعد برطانیہ اور افغانستان کے درمیان دو اور جنگیں ہوئیں، آخری جنگ امیر امان اللہ خان کی قیادت میں لڑی گئی اور اگست 1909 کو افغانستان کو برھانیہ کے بچے کچھے تسلط سے بھی آزادی حاصل ہوگئی۔

افغانستان کی موجودہ قیادت نے حکومت سازی کی کوششوں کے درمیان اپنا 102واں جشن آزادی بھی منایا، کئی مقامات پر افغان پرچم او رطالبان کے پرچم کو لے کر جھڑپیں ب ھی ہوئیں، گولیاں بھی چلیں، کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

امیر امان اللہ خان نہایت مدبر حکمراں تھے، انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے ساتھ ساتھ تعمیر وترقی کے بھی بہت سے اقدمات کیے اس کے بعد 1933 سے 1973 تک ظاہر شاہ نے افغانستان پر حکمرانی کی ان کا دور اگر چہ کوئی بہت مثالی دور نہیں رہا لیکن اس دوران افغانستان میں امن قائم، تعمیر وترقی کے کام بھی ہوئے۔

عالمی برادری میں افغانستان کو عزت واحترام کا مقام حاصل ہوا ایک طرف افغانستان میں امن وسکون تھا تو دوسری طرح سوویت یونین کی گرم پانیوں تک پہنچنے کی چاہت نے اسے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے پر مجبور کیا اور ظاہر شاہ کا تختہ پلٹ کر ان کے بہنوئی سردار دائود خان اقتدار میں آگئے۔

افغانستان کو کمیونسٹ رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی دائود خان کے بعد حفیظ اللہ امین اور نور محمد ترائی اور ببرک کرمال افغانستان کے حکمراں بنے جب افغانیوں نے کمیونسٹ تسلط کے خلاف مزاحمت کی تو سوویت یونین نے لاکھوں کی تعداد میں اپنی فوجیں اتاردیں۔

اس کے بعد افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا، ابتدامجاہدین نے کی بعد میں پاکستان امریکہ اور مغربی ممالک بھی اس میں کود پڑے ویت نام میں ذلت آمیز شکست کے بعد امریکہ نے سوویت یونین سے بدلہ لینے کےلیے پاکستان کے ذریعے مجاہدین کی بھر پور مدد کی سعودی عرب نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔

سی آئی اے اور آئی ایس آئی ایس نے افغان مجاہدین کو تربیت دی، ڈاکٹر نجیب اللہ افغانستان کے صدر تھے ان کے خلاف خونریز تحریک بھی چلی، روسی افواج پر حملے بڑھنے لگے۔

افغان مجاہدین کو امیرکہ، مغربی یوروپ اور بیشتر اسلامی ملکوں کی بھر پور سرپرستی اور پشت پناہی حاصل تھی، جن مجاہدین کو امریکہ دہشت گرد قرار دیتا ہے انہیں مجاہدین کےلیے امریکہ کے اس وقت کے صدر رونالڈ ریگن نے وہائٹ ہائوس میں سرخ قالین بچھا کر استقبال کیاتھا۔

بہرحال روسیوں کے خلاف مزاحمت بڑھتی گئی بہت بڑی تعداد میں روسی فوجی مارے گئے، سوویت یونین کی معیشت افغانستان میں ہونے والے جنگی اخراجات کا بوجھ برداشت نہیں کرسکی افغانستان سے ذلیل ورسوا ہوکر نکلنا پڑا۔

اور کچھ ہی عرصہ میں سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ روس کے زیر تسلط ریاستیں آزٓد ہوگئیں، کمیونزم بطور نظریہ اپنی موت مرگیا جب تک سوویت یونین باقی رہا نجیب اللہ افغانستان کے صدر بنے رہے، لیکن جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تو کوئی ان کی پشت پناہی کرنے والا نہیں بچا۔

انہیں مارکر ان کی لاش کو چوراہے پرلٹکادیاگیا لیکن نجیب اللہ کو اتنا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ سوویت یونین کی کٹھ پتلی ہونے کے باوجود وہ اپنی سرزمین اور اپنے عوام کو چھوڑ کر اشرف غنی کی طرح بھاگے نہیں صدام حسین اور کرنل قذافی کی طرح انہوں نے بھی جان دے دی لیکن اشرف غنی اور ان کے ساتھی حد سے زیادہ بزدل ثابت ہوئے۔

دراصل دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دنیا دو خانوں میں بٹ چکی تھی ایک طرف اشتراکیت کا علمبردار سوویت یونین جس کااپنی بہت سی ہمسایہ ریاستوں پر براہ راست تسلط تھا اور مشرقی یوروپ کے بیشتر ممالک اس کے بلاک میں شامل تھے تو دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کا علمبردار امریکہ تھا۔

مغربی یوروپ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک امریکہ کے زیر اثر تھے سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار ملکوں کے دو بڑے دشمن تھے ایک اسلام دوسرے کمیونزم ان ملکوں نے طے کیا کہ اسلام اور کمیونزم کو آپس میں لڑا دیاجائے جو بچے گا اس کو بعد میں ختم کردیں گے ۔

میدان جنگ بنا افغانستان یہاں کی سنگلاخ زمین سے ٹکرا کر کمیونزم پارہ پارہ ہوگیا لیکن المیہ یہ ہوا کہ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد کوئی مستحکم اسلامی حکومت قائم نہیں ہوسکی ۔

کئی سال کی خانہ جنگی اور خونریزی کے بعد 1996 میں طالبان نے شمالی افغانستان کو چھوڑ کر باقی ملک کے بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا اور اس دور میں افغانستان میں نسبتاً امن قائم رہا لیکن ان کی نادانی، ناتجربہ کاری او رکچھ غلط اقدامات نے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو بہت نقصان پہنچایا۔

امریکہ اور دیگر سامراجی طاقتیں اسلامی ملکوں کی کمر توڑنے کی درپے تھیں نائن الیون کی آڑ میں افغانستان میں امریکہ کی قیادت نے 65 ملکوں کی فوج نے حملہ کیا ادھر تباہ کن ہتھیاروں کی آڑ میں عراق کو نشانہ بنایاگیا، اور دونوں ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی ادھر عرب بہار کی آڑ میں مصر، لیبیا، تیونس، شام اور یمن میں جو خانہ جنگی شروع ہوئی تھی اس کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے لیکن مغربی سامراج کو سب سے زیادہ ذلت ورسوائی اور ہزیمت کا سامنا افغانستان میں کرنا پڑا۔

افغانستان میں امریکہ کی شکست اتنی واضح ہے کہ چھپائے نہیں چھپ رہی ہے۔ دیوار برلن کے انہدام سوویت یونین کی شکست وریخت اور 1990 کی پہلی خلیجی جنگ میں عراق کی شکست کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا تھا لیکن افغانستان کے حریت پسندوں نے امریکہ کی معاشی اور فوجی برتری کا غرور خاک میں ملادیا۔

افغانستان میں داخلہ کے کچھ عرصے بعد ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو احساس ہوچلا تھا کہ یہاں جنگ جیتنا تو دور کی بات ہے باعزت واپسی کا راستہ بند ہوچکا ہے۔

جس طرح سوویت یونین نے جینوا مذاکرات کے ذریعے افغانستان سے راہ فرار اختیار کی تھی اسی طرح امریکہ نے دوحہ مذاکرات کے ذریعے اپنی واپسی کی راہ ہموار کی امریکہ کس طرح سے افغانستان چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں ۔

اور جن طالبان کو اقتدار سے برطرف کیا تھا وہ کس فاتحانہ انداز میں کابل میں داخل ہوئے کس طرح امریکہ کی تیار کی ہوئی تین لاکھ کی جدید ترین اسلحہ سے مسلح کی گئی۔

افغان فوج ایک لمحہ کےلیے بھی حرکت میں نہیں آئی اور پسپائی اختیار کرنے میں عافیت سمجھی وہ پوری انسانیت تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے ۔

اشرف غنی بزدلی کا استعارہ بن چکے ہیں۔ افغانستان کا مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ مختصر تحریر میں اس کا احاطہ کیاجاسکے اس موضوع پر دنیا بھر کے چوٹی کے ماہرین نے ایک دو نہیں بلا مبالغہ ہزاروں کتابیں پوری دنیا میں لکھی گئی ہیں۔

افغان عوام کے مزاج، ان کی تاریخ ان کی نفسیات ان کی شخصیت کے منفرد ہشت پہلوئوں پر بہت کچھ لکھاگیا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ جہاں عام افغانیوں میں جذبہ حریت وجہاد ، جوش شہادت ، شوق شہادت، شجاعت، فیاضی اور سخاوت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے تودوسری طرف جذبہ انتقام اور قبائلی عصبیت جیسی خصلتیں ان کی شہرت و نیک نامی کو داغدار بناتی ہیں۔

اسی وجہ سے افغانستان دور جدید کا سب سے زیادہ پچھڑا اور ترقی کے قافلہ سے بچھڑا ہوا معاشرہ بن کر رہ گیا ہے۔

ایک ہندوستانی کی حیثیت سے ہمیں سب سے زیادہ تشویش ہند افغان تعلقات کو لے کر ہے۔

افغانستان کے عوام اور وہاں کی حکومتیں ہمیشہ سے ہندوستان کی دوست رہی ہیں اور دونوں ممالک صدیوں سے تاریخ تہذیب ثقافت کی زریں سلسلوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اور افغان حکومتیں پاکستان کے مقابلہ میں ہندوستان کو زیادہ پسند کرتی رہی ہیں لیکن

طالبان کا پہلا دور ہندوستان سمیت پوری دنیا کےلیے آزمائشوں سے بھرا رہا ہے، ہندوستان کے مغویہ طیارے کو قندھار لے جائے جانے اور خطرناک دہشت گردوں کی رہائی کا سانحہ بھی اسی دور میں پیش آیا۔

اس وقت بھی آثار اچھے نہیں ہیں طالبان رہنمائوں کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود جو کچھ وہاں ہوہرا ہے وہ ہندوستان کےلیے تشویش ناک ہے۔

طالبان کے پہلے دور اقتدار میں دنیا کے صرف تین ملکوں یعنی پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے انہیں تسلیم کیا تھا اور عرب حکومتوں نے ایران پر دبائو بنانے کےلیے انہیں آلہ کار کے طو رپر استعمال کیا اس مرتبہ پورا خطرہ اس بات کا ہے کہ یہ طالبان پاکستان، روس اور چین کے دبائو میں آکر ہندوستان کے خلاف ہوں۔

چین امریکہ کی جگہ دنیا کی واحد معاشی اور فوجی سپر پاور بنناچاہتا ہے اور ہندوستان اس میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

چین نے واضح طو رپر طالبان سے اشتراک کا اعلان کردیا ہے روس نے انتہائی مخدوش حالات کے باوجود اپنا سفارت خانہ بند نہیں کیا پاکستان نے اپنا موقف واضح نہیں کیا لیکن جو بھی ہوگا ہندوستان کے خلاف ہی ہوگا۔

ایک پرامن افغانستان نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے جنوبی ایشیاء کی ترقی، امن واستحکام کی ضمانت ہے لیکن تین تین سپر پاورس کو شکست دے چکے افغانیوں سے معاملات طے کرنے میں بڑے تحمل ، بردباری اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہے، آثار تو نظر نہیں آتے لیکن امید رکھنا چاہئے کہ افغان طالبان معاملہ فہمی سے کام لیں گے۔

 ہندوستان کے خلاف کسی بھی طاقت کا آلہ کار نہیں بنیں گے۔

نوٹ: مضمون نگار آل انڈیا علم و ہنر فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں۔