گود لینا جائز ہے ، لیکن ...

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-04-2022
گود لینا جائز ہے ، لیکن ...
گود لینا جائز ہے ، لیکن ...

 

 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

دہلی کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ کسی شخص کو گود لینے کے حق سے محض اس لیے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مسلمان ہے اور مذہب سے متعلق شخصی قوانین کے تابع ہے ۔

ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا کا یہ کمنٹ اس کیس میں سامنے آیا ہے جس میں ایک ملزم کو گود لینے کے کاغذ پر دستخط کرنے کے لیے نوح (ہریانہ) میں متعلقہ افسر کے پاس جانا تھا ، جس کے لیے اس نے پیرول کی درخواست کی تھی ۔

سرکاری وکیل نے پیرول کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ گود لینا اسلام میں حرام ہے اور ملزم پر اس کے مذہب سے متعلق پرسنل لا لاگو ہے ، اس لیے اسے پیرول پر نہیں رہا کیا جا سکتا ۔ ۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مسلم پرسنل لا کے تحت کسی مسلمان کو گود لینے کی اجازت نہیں ہے ، تاہم جووینائل جسٹس ایکٹ 2000 کے تحت گود لینے کا حق مسلمان کو بھی دیا گیا ہے 

فاضل جج نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ میں اس دلیل سے اتفاق کرتا ہوں کہ درخواست گزار یا ملزم مسلمان ہے اور مذہب سے متعلق شخصی قوانین اس پر لاگو ہوتے ہیں ، اس کے باوجود آئینی دائرہ کار میں فراہم کردہ حقوق سے اسے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔ چنانچہ انھوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو حکم دیا کہ وہ ملزم کو پیرول پر رہا کرنے کے انتظامات کرے ۔

تبنّیت ( گود لینا) مسلم پرسنل لا میں شامل ہے ۔ اس سلسلے میں جب جووینائل ایکٹ بنا تھا تو اس کا اطلاق مسلمانوں پر بھی کیا گیا تھا ، لیکن ان کی جانب سے شدید احتجاج کے بعد انہیں اس سے مستثنیٰ کردیا گیا تھا۔

 اس وقت سے یہ مسئلہ بار بار اٹھتا رہا ہے ۔ اسے اس حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے جیسے اسلام نے گود لینے کے حق سے محروم کرکے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے ، حالاں کہ ایسا نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں اسلامی احکام کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

کسی بچے کو گود لینا گود لینے والے جوڑے کی اپنی ضرورت سے ہوسکتا ہے اور بچے یا اس کے والدین کی ہم دردی میں بھی ۔ بسا اوقات کوئی جوڑا اولاد سے محروم ہوتا ہے ۔ وہ اپنی روحانی تسکین اور سماجی ضرورت سے کسی بچے کو گود لینا چاہتا ہے ۔ کبھی کسی رشتے دار کے زیادہ بچے ہوتے ہیں ، اس کا معاشی بار کم کرنے کے مقصد سے اس کے کسی بچے یا بچی کو گود لے لیا جاتا ہے ۔ کبھی کوئی لاوارث بچی یا بچہ ملتا ہے تو اس سے ہمدردی کی بنا پر اور اس کی پرورش کے مقصد سے اسے گود لیا جاتا ہے ۔ اسلام اس عمل کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی تحسین کرتا ہے ۔

لیکن اسلام اس بچے یا بچی کی ولدیت تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اسلام نسب کی حفاظت پر بہت زور دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ نہ کسی بچے کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی کو اپنا باپ قرار دے اور نہ کسی شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی بچے کو ، جو اس کی صلبی اولاد نہ ہو ، اپنا بیٹا کہے ، یا دستاویزات میں اپنے بیٹے کی حیثیت سے اس کا اندراج کروائے ۔

قرآن مجید میں ہے۔

وَمَا جَعَلَ أَدۡعِیَاۤءَكُمۡ أَبۡنَاۤءَكُمۡۚ ذَ ٰ⁠لِكُمۡ قَوۡلُكُم بِأَفۡوَ ٰ⁠هِكُمۡۖ وَٱللَّهُ یَقُولُ ٱلۡحَقَّ وَهُوَ یَهۡدِی ٱلسَّبِیلَ ، ٱدۡعُوهُمۡ لِـَٔابَاۤىِٕهِمۡ هُوَ أَقۡسَطُ عِندَ ٱللَّهِۚ فَإِن لَّمۡ تَعۡلَمُوۤا۟ ءَابَاۤءَهُمۡ فَإِخۡوَ ٰ⁠نُكُمۡ فِی ٱلدِّینِ وَمَوَ ٰ⁠لِیكُمۡۚ ( الأحزاب : 4 - 5) ۔۔

ترجمہ :  اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہار حقیقی بیٹا بنایا ہے ۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو ، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہ نمائی کرتا ہے ۔ منہ بولے بیٹو ں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو ، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے ۔ اور اگے تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں ۔ " اور اللہ کے رسول کا ارشاد ہے

مَنِ انْتَسَبَ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ.... فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ( ابن ماجۃ :2609) ۔

جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کو باپ بنایا اس پر اللہ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے " اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں کسی کو گود لینا اور اس کی پرورش کرنا حرام نہیں ہے ۔ یہ تو کارِ خیر ہے ۔ ممانعت کسی بچے کی ولدیت تبدیل کرنے اور اس کے حقیقی باپ کی جگہ گود لینے والے کا نام لکھوانے کی ہے