عبدالحمید : آر سی ایل بندوق سے پاکستانی ٹینکوں کو شکست دینے والا عظیم سپاہی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
عبدالحمید : آر سی ایل بندوق سے پاکستانی ٹینکوں کو شکست دینے والا عظیم سپاہی
عبدالحمید : آر سی ایل بندوق سے پاکستانی ٹینکوں کو شکست دینے والا عظیم سپاہی

 

 

 ثاقب سلیم، نئی دہلی

یہ حقیقت ہے کہ جنگیں اور لڑائیاں تکنیکی ترقی سے زیادہ انسانی جذبات اور بہادری کا امتحان ہوتی ہیں۔وسائل اور فوجی قوت سے مالا مال قومیں؛ جو تکنیکی لحاظ سے بھی ترقی یافتہ ہوں، وہ بہت جلد خود پر فخر کرنے لگتی ہیں۔جھوٹے غرور کے تحت ایسی قومیں دوسری قوموں پر حملہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر وہ بھول جاتی ہیں کہ اسلحے تو پیسوں سے خریدے جا سکتے ہیں، مگر بہادر سپاہیوں کی پرورش عظیم مائیں کرتی ہیں۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بہادر سپاہیوں نے اسلحے سے لیس اپنے حریف کو شکست دی ہے۔ان سپاہیوں میں یقینی طور پر شہید حولدارعبدالحمید کا نام بھی شامل ہے، جنھوں نے اپنے حریف کو ناقابل تلافی شکست دی تھی۔ یہ ستمبر 1965 کی بات ہے، جب کہ پاکستان نے امریکہ سے پیٹن ٹینکس( Patton Tanks ) حاصل کرنے کے لیے ہندوستان پر حملہ کردیا تھا۔

ان دنوں پیٹن ٹینک کو تکنیکی لحاظ سے دنیا کا بہترین ہتھیار سمجھا جاتا تھا۔ تاہم پاکستان کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ لڑائیاں ہتھیاروں سے نہیں حوصلوں سے جیتی جاتی ہیں۔اب بھی پاکستانیوں فوج کے سربراہوں کو جنگ کے اس اہم پہلو کو سمجھنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔

پاکستان نے 8 ستمبر 1965 کو ریاست پنجاب کے کھیم کرن(Khem Karan) میں حملہ کردیا۔ پاکستانی فوج پیٹن ٹینکوں کے ساتھ  ہندوستانی سرحد میں داخل ہوئی۔اس وقت ہندوستانی فوج کے پاس پیٹن ٹینکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی اینٹی ٹینک ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ان دنوں ہندوستانی افواج کے پاس آر سی ایل( recoilless ) ٹائپ کی بندوقیں تھیں۔

یہ ایسی جنگ تھی، جس میں برابری کا مقابلہ نہیں تھا اور وہیں ہندوستان کے پاس ان دنوں امریکہ کے بنائے ہوئے پیٹن ٹینکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی بڑا ہتھیار موجود بھی نہیں تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر اس جنگ کے بارے میں جدید تجزیہ نگار یہی کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جنگ شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو گئی تھی۔

تاہم ایسے حالات بہادر دلوں کے لیے تاریخ سازی کا ایک بہترین موقع ہوتے ہیں۔ انہی حوصلہ شکن حالات میں ہندوستانی فوج کے 4 گرینیڈیرز(4 Grenadiers)کے حوالدار عبدالحمید کو اپنی قوت کے مظاہرہ کا ایک بہترین موقع ملا۔ جنھوں نے دنیا کو ثابت کردیا کہ کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ حوصلوں سے جیتی جا سکتی ہیں۔

عبدالحمید نے8 ستمبر1965 کی صبح 9 بجے ایک پاکستانی ٹینک بٹالین کو اپنی بٹالین کی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ اس وقت آر سی ایل بندوق کے ساتھ وہ جیپ میں سوار تھے اور اپنے اختیارات کے بارے میں وہ سوچ رہے تھے۔ یقیناً ہندوستانی فوج کی آر سی ایل بندوقیں پیٹن ٹینکوں کی ایک بٹالین سے مماثل نہ تھیں۔

تاہم 1962 کے جنگی تجربہ کار عبدالحمید کو معلوم تھا کہ یہ مقابلہ غیرمعمولی ہے، اس لیے یہاں غیر معمولی جرات سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ اپنی آر سی ایل بندوق سے پیٹن ٹینکوں کا مقابلہ کریں گے۔انھوں نے اپنی جیپ کو پاکستانی ٹینکوں کی نظروں سے بچاکر ایک گنے کے کھیت میں چھپا لیا؛ جیسے ہی حولدار عبدالحمید کو یہ محسوس ہوا کہ پاکستانی ٹینک ان کی جانب آ رہا ہے اور وہ ان کی شوٹنگ رینج کے اندر ہے۔

انھوں نے فوراً اس پر فائرنگ شروع کردی، اور لگاتار ان پر گولیاں برساتے رہے۔اس فائرنگ کے نتیجے میں پیٹن ٹینک میں آگ لگ گئی اور ٹینک کے پیچھے آنے والے پاکستانی سپاہی اپنے ٹینک کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

خیال رہے کہ عبدالحمید محض 30 گز کے فاصلے سے آر سی ایل بندوق سے ٹینک پر فائرنگ کر رہے تھے، جو یقیناً ایک انتہائی جرات مندانہ بات تھی۔ انھوں نے تین پیٹن ٹینکوں کو شکست دی۔ان میں ایک تباہ ہوگئی جب کہ دو عبدالحمید کے قبضے میں آ گئی۔ یہ ایک بے مثال کارنامہ تھا جو انھوں نے انجام دیا تھا۔

دو گھنٹے بعد تین پیٹن ٹینکوں نے ایک بار پھر ہندوستانی علاقے میں گھسنے کی کوشش کی۔اس بار بھی پہلے کی طرح کہانی دہرائی گئی۔ عبدالحمید نے ان ٹینکوں کو اپنی جیپ کے قریب آنے دیا اور پھر ایک ٹینک کو تباہ کر دیا جب کہ پاکستانی فوج بقیہ دیگر دو ٹینکوں کو چھوڑ کر بھاگ گئی۔

اس دن سورج کے غروب ہونے تک عبدالحمید نے اپنی آر سی ایل بندوق کے ذریعہ دو ٹینکوں کو تباہ کر دیا اور چار پیٹن ٹینکوں پر قبضہ کر لیا۔اس کے اگلے دن یعنی9 ستمبر1965 کے صبح عبدالحمید کے لیے ایک معمول کی صبح تھی۔ دن کے وقت انھوں نے اپنی آر سی ایل بندوق سے مزید دو ٹینک تباہ کیے۔

اس بار بھی پاکستانی کئی ٹینکوں کو چھوڑ کر فرار ہوگئے۔خیال رہے کہ فوجوں کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔

عبدالحمید کی اس بہادری کے لیے فوجی انتظامیہ نے شام تک ان کے لیے فوج کو دیے جانے والے سب سے اعلیٰ اعزاز پرم ویر چکر(PVR) کے لیے ان کے نام کی تجویز کردی۔

تاہم ابھی مشن ختم نہیں ہوا تھا۔ دس ستمبر1965 کو عبدالحمید دوبارہ آر سی ایل بندوق کے ہمراہ اپنی جیپ میں بیٹھ گئے۔وہ کسی ماہر شکاری کی طرح کھیم کرن کے گنے کے کھیت میں پیٹن ٹینکوں کو تلاش کرتے رہے۔عبدالحمید نے مزید دو ٹینک اپنی آر سی ایل بندوق سے اس دن تباہ کئے۔

انھوں نے تین دنوں کے اندر 8 ٹینک تباہ کردیے۔ جب وہ آخری ٹینک پر اپنی آر سی ایل بندوق سے فائرنگ کر رہے تھے، ٹینک کی جانب سے بھی ان کی جیپ پرحملہ کیا گیا۔

ٹینک آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ یہ چوتھا ٹینک تھا، جس کو وہ تباہ کر رہے تھے مگر ٹینک سے پھینکا ہوا ایک گولہ ان کی طرف آ لگا۔ جس میں حولدارعبدالحمید شہید ہوگئے۔

عبدالحمید نے مادر وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جان دے دی۔

ان کی کہانی ہندوستانی مائیں اپنے بچوں کو سناتی ہیں۔

اس جنگ کو اَصل اُتر(Battle of befitting reply) کی جنگ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جہاں پاکستانی فوج کم از کم 70 ٹینک چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔ جن کو بعد میں ہندوستانی فوج نے گنے کے کھیتوں سے برآمد کیا تھا۔ یہ ٹینک اب ملک بھر میں مختلف چھاؤنیوں پر جنگی ٹرافی کے طور پر دکھائی جاتی ہیں۔

 اب جب کبھی؛ آپ کسی آرمی چھاؤنی میں پاکستانی ٹینک کو ڈسپلے پر دیکھیں تو عبدالحمید کو خراج تحسین ضرور پیش کریں جن کی بہادری نے یہ ٹرافیاں ہمارے  درمیان لائی ہیں۔