تعلیم، صحت اور معاشی فلاح کے میدان میں ایک کامیاب کوشش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-08-2021
پروفیسر اخترالواسع
پروفیسر اخترالواسع

 

 

 پروفیسر اخترالواسع

یاد رہے کہ  19/ستمبر2016کو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہونے کے بعد مارواڑ مسلم ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر سوسائٹی جودھپور کے ذمہ داروں کی دعوت پر میں نے مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کا صدر (وائس چانسلر) ہونا منظور کر لیا۔

ایک مرکزی یونیورسٹی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) سے بحیثیت طالب علم تقریباً 16سال وابستہ رہ کر، تقریباً 37سال جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گزار کر، جس میں 25سال بحیثیت پروفیسر، 10سال صدر شعبہ، 3سال ڈین اور 14سال ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے آنریری ڈائریکٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دیں اور ساتھ میں تقریباً 2سال تک صدر جمہوریہ ہند شری پرنب مکھرجی کے ذریعے نیشنل کمیشنر برائے لسانی اقلیات کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد یہ منصب اور ذمہ داری جو ایک پرائیویٹ اقلیتی یونیورسٹی کے ساتھ وابستہ تھی وہ ایک دلچسپ اور خوشگوار تجربہ تھا۔

اب جبکہ ہم عمر رفتہ کی سات دہائیاں یکم اگست2021کو پوری کر لیں گے تو مولانا آزاد یونیورسٹی سے بھی رسمی تعلق ختم ہو جائے گا، لیکن اس تعلق کے پورا ہونے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنی خوشگوار یادوں میں اپنے مہربانوں کو بھی شامل کرلیا جائے۔

مارواڑ مسلم ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر سوسائٹی 1929میں اس وقت کے مارواڑ کے مہاراجہ امید سنگھ کی تحریک پر قائم ہوئی تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان بچوں کی تعلیم کے لئے ایک ادارے کی داغ بیل ڈالی جائے اور 18فروری 1936کو مہاراجہ امید سنگھ نے دربار مسلم اسکول کی عمارت کی تعمیر کے بعد اس کا افتتاح بھی کر دیا لیکن بدقسمتی سے 1984راجستھان کی اس وقت کی کانگریسی سرکار نے دربار مسلم اسکول کو بحق سرکار ضبط کر لیا اور مسلمان اس کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرتے رہے لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی۔ بعد ازاں1987میں شری بھیروں سنگھ شیخاوت کی حکومت کے ذریعے مسلمانوں کو نیا اسکول بنانے کے لئے پانچ ایکڑ زمین پر قبضہ دیا گیا اور وقف کی آمدنی سے اسکول کی نئی عمارت کی تعمیر کی گئی۔

اس وقت سوسائٹی کے ذریعے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے دو الگ الگ سینئر سیکنڈری اسکول، ایک سینئر سیکنڈری سطح کا مدرسہ اسکول، چار پرائمری اور اپرپرائمری مدرسے، اسکول و دو دیگر مدرسے، آٹھویں اور دسویں میں پاس ہونے والے بچوں کے لئے آئی ٹی آئی، لڑکے اور لڑکیوں کے دو بی ایڈ کالج، ایک بی ایس ٹی سی ٹریننگ اسکول، ایک نرسنگ کالج اور ایک فارمیسی انسٹی ٹیوٹ شامل ہے۔

ا نہیں کہ ہر طرح کے ادارے جگہ جگہ نہ کھلے ہوں لیکن اس سوسائٹی کا کمال یہ ہے کہ اس کے یہاں تعلیم تجارت نہیں، خدمت ہے۔ سوسائٹی سے جڑے لوگ بڑے بڑے اداروں کے نہ تو تعلیم یافتہ ہیں اور نہ ہی بڑے تاجر و صنعت کار، وہ سب سماج کے مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے یہاں ایک جذبہ ہے، اور وہ یہ کہ سماج میں ناخواندگی نہ رہے، جہالت کا خاتمہ ہو، نئی نسل کے لڑکے ہوں یا لڑکیاں، زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوں۔

اس لئے اس سوسائٹی کے لوگوں کا عزم و ارادہ یہ ہے کہ یہ ان بچوں کی تعلیم کا انتظام کریں اور اسے یقینی بنائیں جن کے پاس نہ پیسے ہیں نہ نمبر۔ جب ان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ آج ترقی کی دوڑ کے زمانے میں آپ جب یہ کہتے ہیں کہ آپ ان بچوں کی تعلیم پر زیادہ زور دیں گے جن کے پاس نمبر بھی نہیں ہیں تو یہ بات کچھ سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔

اس پر سوسائٹی ایک سرگرم رکن جو کہ راجستھان کے سرسید بھی کہلاتے ہیں، الحاج محمد عتیق صاحب کا کہنا ہے کہ”وہ بچے جن کے ماں باپ چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں، جب وہ آٹھویں، دسویں، بارہویں کسی طرح پاس کر لیتے ہیں تو ان کا مزاج سفید پوشوں جیسا ہو جاتا ہے۔ وہ کسی اچھے کالج یا اسکول میں داخلہ بھی نہیں پاتے اور ماں باپ کی طرح چھوٹا موٹا کام کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔

اگر ان کی تعلیم کی فکر نہ کی جائے تو وہ سماج کے لئے بوجھ ہی نہیں خطرہ بن جائیں گے۔ اس لئے ان کی مناسب تعلیم اور بہتر تربیت کے لئے کسی کو تو آگے آنا ہے۔ جن کی فکر کوئی نہیں کرتا ان کی فکر ہم کرتے ہیں۔

اس لئے ان کی فیس کے لئے ہم سرکاری وضائف کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں اور جن بچوں کو سرکاری اسکالرشپ نہیں مل سکتی ان یتیم، غریب اور بے سہارا بچوں اور بچیوں کی مفت تعلیم کے لئے ایک زکوٰۃ فنڈ بنایا گیا۔

سوسائٹی کے پاس وسائل محدود ہیں لیکن اس کے چلانے والوں کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ وسائل کی کمی کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیتے بلکہ پرانے سامان کو کباڑے سے خرید کر اس کی رِی سائیکلنگ کے ذریعے دروازے، کھڑکیاں، کلاس روم کے فرنیچر، انتہائی سستے داموں میں تیار کرا لیتے ہیں۔

اتنا ہی نہیں، سب سے حیرت انگیز معاملہ تو وہ تھا جب جودھپو رایئرپورٹ کے رَن وے کی تعمیرنو ہو رہی تھی اور اس کے پرانے سَلیب نکالے جا رہے تھے، اس سوسائٹی کے لوگوں کو جب اس کا پتا چلا تو انہوں نے اسے اَونے پونے داموں میں سستے مُول خرید لیا اور اس سے یونیورسٹی کو آنے والی سڑک تعمیر کرلی، اور یہ بھی طے کر لیا کہ جب سرکار یونیورسٹی کو آنے والی سڑک تعمیر کرائے گی تو یہ سلیب دوسری جگہ استعمال ہو جائیں گے۔

اس سوسائٹی کو 2004میں مولانا ابوالکلام آزاد خواندگی انعام سے حکومت ہند کی جانب سے نوازا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ ریفریجریشن اینڈ ایئرکنڈیشننگ ٹریڈ کے طالب علم جاوید اختر کو ریاست اور مرکز دونوں کی طرف سے میرٹ میں اول آنے پر انعام سے سرفراز کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح اس کے اسکول کے طلبہ و طالبات کو اسکاؤٹ او رگائیڈ میں مثالی کارکردگی کے لئے گورنر اور صدر جمہوریہ دونوں کی طرف سے انعامات مل چکے ہیں۔

اس سوسائٹی کے موجودہ صدر جناب محمد علی چندریگر، نائب صدر محمد عتیق، جنرل سکریٹری نثار احمد خلجی اور خزانچی عطاء الرحمن قریشی ہیں۔ ان لوگوں کی کوششوں سے موجودہ نئے تعلیمی سال سے فارمیسی میں ماسٹرس کی ڈگری کے لئے 72سیٹیں حکومت ہند نے دی ہیں۔

اسی طرح راجستھان کے ریگزاروں میں جہاں ریت کے علاوہ اگر کچھ ہے تو وہ کنکریلی زمین اور جلی ہوئی پہاڑیاں ہیں، وہاں علم کی جوت جلا کر جو انقلاب لایا جا رہا ہے اور اس میں اقلیتی ادارہ ہونے کے باوجود صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ غیرمسلموں کو بھی برابر سے تعلیم دی جا رہی ہے اور اس کے پیچھے بھی یہ دلیل ہے کہ جب ہمارے بچے اور بچیوں کو ایک مخلوط معاشرے میں رہنا ہے تو پھر ان کو کہیں تو ایک ساتھ رکھ کر ایک دوسرے سے آشنا بنایا جائے۔

اب جب تقریباً 5سال سے کچھ ہی کم عرصے میں میں جودھپور چھوڑ رہا ہوں تو اس کا مجھے دکھ بھی ہے لیکن اس بات کی خوشی بھی کہ میں نے ایسے باحوصلہ، اولوالعزم اور بہادر لوگوں کو قریب سے دیکھا جو گفتار کے نہیں کردار کے غازی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی غیب نصرت وتائید فرمائے۔ آمین

(مضمون نگار مولاناآزاد یونیورسٹی جودھپو رکے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)