گاندھی کی کہانی: ایک پاکستانی کی زبانی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
 گاندھی کی کہانی: ایک پاکستانی  کی زبانی
گاندھی کی کہانی: ایک پاکستانی کی زبانی

 

 

بابائے قوم  مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش پر خاص پیشکش

  

اختر بلوچ

سابقہ برصغیر پاک و ہند اور موجودہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں موہن داس کرم چند گاندھی ایک بہت بڑا نام ہے۔ گاندھی جی نے وکالت کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کی۔ وہ ایک سوٹید بوٹید ہندوستانی تھے۔ سید عابد حسین اپنی کتاب "گاندھی اور نہرو کا تصور زندگی" کے صفحہ نمبر 18 پر گاندھی جی کی زندگی میں تبدیلی کے ایک واقعے پر گاندھی جی کی زبانی لکھتے ہیں؛ "یہ واقعہ مجھ پر جنوبی افریقہ پہنچنے کے سات دن بعد گزرا۔ میں وہاں ایک خالص دنیاوی اور خود غرضانہ مقصد سے گیا تھا۔ اس وقت میں ایک لڑکا تھا۔ جو ابھی ابھی انگلستان سے واپس آیا تھا اور کچھ روپیہ کمانا چاہتا تھا۔ جس مؤکل نے مجھے وہاں بلایا تھا۔

اس نے دفعتاً مجھ سے ڈربن سے پریٹوریہ جانے کو کہا۔ یہ سفر کچھ آسان نہ تھا۔ چارلس ماؤنٹ تک ریل سے اور وہاں سے جوہانسبرگ تک گھوڑا گاڑی سے جانا تھا۔ ریل میں میرے پاس اول درجے کا ٹکٹ تھا۔ مگر بسترے کا ٹکٹ نہیں تھا۔ میرتسبرگ میں بستر کے ٹکٹ دیے جاتے تھے۔ گارڈ نے آکر مجھے نکال دیا اور کہا کہ اسباب (مال گاڑی) کے ڈبے میں چلے جاؤ۔ میں اس پر راضی نہیں ہوا۔ گاڑی مجھے سردی میں کانپتا چھوڑ کر چل دی۔ اب وہ تخلیقی تجربہ آتا ہے۔ مجھے اپنی جان کا ڈر تھا۔ میں اندھیرے ویٹنگ روم میں داخل ہوا۔ وہاں ایک گورا تھا۔ میں اسے دیکھ کر ڈر گیا۔ میں نے اپنے دل سے پوچھا اب میرا فرض کیا ہے؟ میں ہندوستان لوٹ جاؤ ں یا خدا کے بھروسے پر آگے بڑھتا چلا جاؤں۔" غالباً یہی وجہ تھی کہ ہندوستان پہنچ کر انھوں نے رام راج کا نعرہ لگایا۔

انھوں نے دھوتی پہننا شروع کی اور برطانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ جدوجہد آزادی کا اعلان کردیا۔ گاندھی جی کی تحریک کی بنیاد عدم تشدد پر مبنی تھی۔ ہندوستان کے ہندو اور یا مسلمان سب ہی ان کی آواز پر لبیک کہتے تھے۔ پروفیسر محمد مسعود احمد اپنی کتاب "تحریک آزادی ہند اور السواد الاعظم" کے صفحہ نمبر 108پر لکھتے ہیں؛ "بریلی میں مسٹر گاندھی کی آمد کے موقع پر کانگریس کمیٹی اور خلافت کمیٹی کے سیکریٹریوں کی طرف سے ایک اشتہار بعنوان "مہاتما گاندھی کی آمد" کشور پریس بریلی میں 1920ء میں طبع کرا کے شایع کیا گیا۔ اس میں کہا گیا ہے خدا کا شکر ہے کہ سولہ اکتوبر 1920ء کو ہمارے ملک کے لیڈر ہمارے شہر کی خاک کو پاک کرنے کے لیے آرہے ہیں۔ امید ہے کے ہمارے شہر میں ان کا استقبال ان کے مرتبے اور عزت کے موافق ہو گا۔

اراکین انجمن اسلامیہ (بریلی) کی طرف سے منظوم سپاس نامہ پیش کیا گیا، جو پنجابی گزٹ پریس، بریلی میں چھپ کر شایع ہوا یہ ایک طرح کا قصیدہ مدیحہ ہے کافی طویل ہے چند اشعار ملاحظہ ہوں؛ چل فخر قوم حضرت گاندھی کو دیکھ آئیں جوش و خروش کی آندھی کو دیکھ آئیں فیض کرم سے جن کے بریلی بنی دلھن اک اک گلی ہے رشک خیابان نسترن گاندھی جی ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے متفقہ لیڈر تھے۔ لیکن وہ اپنی عدم تشدد کی پالیسی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے یہی وجہ تھی کے جب کمیونسٹ انقلابی بھگت سنگھ کو برطانوی عدالت کی جانب سے موت کی سزا دی گئی تو وہ اس پر واضح حکمت عملی اختیار کرنے پر گومگو کا شکار تھے۔

گاندھی جی کی خدمات اور ان کے رتبے کے حوالے سے سندھ کے شہر کراچی میں ایک بہت بڑے باغ کا نام بھی گاندھی گارڈن رکھا گیا تھا، یہ برطانوی دور میں لگایا جانے والا سب سے پہلا باغ تھا۔ یہ باغ اس تاریخی جگہ پر لگایا گیا تھا جہاں 1799ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی فیکٹری قائم کی تھی۔ 1934ء سے قبل اس باغ کا نام وکٹوریہ گارڈن تھا۔ مگر جب جولائی 1934ء میں مہاتما گاندھی کراچی کے دورے پر آئے تو ان کے اعزاز میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے اسی باغ میں ایک استقبالیہ دیا گیا۔

اس تقریب میں باغ کا نام وکٹوریہ گارڈن سے بدل کر مہاتما گاندھی گارڈن رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ ثابت یہ ہوا کہ شاہراہوں اور تاریخی مقامات کے نام تبدیل کرنے کا رواج متحدہ ہندوستا ن میں بھی تھا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ گاندھی جی نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ تقسیم ہند کے بعد گویا پاکستان میں تو یہ روایت اتنی جڑ پکڑ گئی کہ ہم نے شاذ و نادر ہی کوئی گلی یا محلہ باقی چھوڑا ہو جس کا نام کسی آنجہانی ہندو یا انگریز کے نام سے منسوب ہو اور اُسے تبدیل نہ کیا گیا ہو۔ گذشتہ تقریباً تین سال میں صدر ٹاؤن، کراچی کی انتظامیہ نے اپنے علاقے میں واقع تقریباً 400 ایسی گلیوں اور شاہراؤں کے نام تبدیل کر دیئے جو کسی ہندو یا غیر مسلم کے نام سے منسوب تھے۔

نام ور محقق اور مورخ ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب "گمشدہ تاریخ" میں لکھتے ہیں؛ "ہمیشہ کسی بھی خطے پر حملہ آور ہونے والے اپنی کچھ نشانیاں بناتے تھے اور ماضی کی تمام تر تاریخی چیزیں مٹا دیتے تھے۔ تاکہ وہاں کے لوگوں نے اپنی فتوحات کی جو نشانیاں یا تاریخی چیزیں رکھی ہیں ان سے ان میں بغاوت کرنے کا اثر پیدا نہ ہو۔ وہ اپنے ماضی سے لاتعلق ہو کر برسر اقتدار طاقت کو قبول کر لیں۔ تاج محل کو بھی انگریزوں سے منسوب کرنے کے لیے کئی کوششیں کی گئیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ برصغیر کی قوم ایسی صلاحیتوں کی مالک نہیں کہ جن کو استعمال کر کے ایسی کوئی عمارت تعمیر کروا سکے۔" ڈاکٹر صاحب کا کہنا بجا لیکن کیا اس دور میں کراچی میں بسنے والے محدود ہندوؤں اور عیسائیوں کی تعداد اپنے آباؤ اجداد کے ناموں سے وابسطہ گلیوں محلوں شاہراؤں اور عمارتوں کودیکھ کر یہ جرات کر سکتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف بغاوت کاخیال اپنے دل میں لائے۔

حال ہی میں برطانوی وزیر اعظم نے ہندوستان کادورہ کیا۔ وہ جلیانوالہ باغ بھی گئے اور برطانوی راج کے دوران آزادی کی حمایت کرنے والے ہندوستانیوں پر جنرل ڈائر کی جانب سے گولیاں چلانے پر معافی بھی مانگی۔ لیکن انھوں نے برطانوی دور میں ہندوستان سے برطانیہ منتقل کئے جانے والے کوہ نور ہیرے کی واپسی سے صاف صاف انکار کردیا۔ بات ہو رہی تھی گاندھی جی کی، مہاتما گاندھی کا کراچی میں ایک مجسمہ بھی نصب تھا۔ سینئر صحافی عبدالحمید چھاپرا کے مطابق یہ مجسمہ موجودہ کورٹ روڈ اور سابقہ کنگس وے پر سندھ ہائی کورٹ کے سامنے نصب تھا۔ ممتاز صحافی عبدالرزاق ابڑو کا کہنا ہے کہ یہ مجسمہ انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے نصب کرایا گیا تھا۔

یہ پیتل (کانسی) کا قد آدم مجسمہ، مجسمہ سازی کا منہ بولتا شاہکار تھا۔ اس مجسمے میں مہاتما گاندھی جی کو ایک درویش کے روپ میں دکھایا گیا تھا۔ اس مجسمے کے نیچے، کتبے پر یہ عبارت کندہ تھی "مہاتما گاندھی۔ آزادی، سچائی اور اہنسا کا اشتہار"۔ تقسیم سے قبل گاندھی گارڈن میں سیاسی جلسے بھی ہوتے تھے محمد عثمان دموہی اپنی کتاب "کراچی تاریخ کے آئینے میں" صفحہ نمبر 529 ایک جلسے کی کاروایاں بیان کرتے ہیں کہ لیڈی ہدایت اللہ کی کوششوں سے سندھ میں مسلم لیگی خواتیں کا پہلا جلسہ گاندھی گارڈن میں منقعد ہوا تھا۔ یہ جلسہ اس قدر کامیاب رہا تھا کہ کراچی کے کانگریسی مہو حیرت رہ گئے۔ اس کے بعد دوسرا جلسہ بھی ان کی کوششون سے گاندھی گارڈن میں منقعد ہوا۔ ثابت یہ ہوا کہ کراچی میں گاندھی گارڈن موجود تھا۔ لیکن یہ اب کہاں ہے کسی کو معلوم نہیں. ویسے تو ہم نے ان کو مجسمے سمیت جلاوطن کر دیا ہے۔ لیکن گاندھی جی اب بھی کراچی میں موجود ہیں۔ ان کا مسکن کراچی چیمبر آف کامرس کے مرکزی دروازے پر لگا ایک سنگ بنیاد کا پتھر ہے۔ جوانہوں نے 6جولائی 1938ء میں اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا۔

گاندھی جی اردو بازار میں موجود ٹائر والی گلی کی دو ایک خستہ حال عمارتوں کے آہنی جنگلوں پرعینک پہنے بھی موجود ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جب وکٹوریہ گارڈن کو گاندھی گارڈن بنایا جا رہا تھا تو گاندھی جی انکار کر دیتے۔ شاید تقسیم کے بعد انہیں بھی پاکستان سے جلاوطنی کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔ ہم پاکستانیوں نے تو انہیں صرف جلاوطن کیا تھا۔ لیکن پاکستان کے اثاثے لوٹانے کے لیے مرن برت (تادم مرگ بھوک ہڑتال) کی پاداش میں ہندوستانیوں نے دنیا سے ہی جلاوطن کردیا۔

 

مرحوم اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق تھے.  سماجیات ان کا خاص موضوع تھا، جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں.ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان کے کونسل ممبر بھی رہے تھے، اپنے بے باک تجزیات اور تبصروں کے سبب  مقبول تھے جو اکثر سیاستدانوں اور مذہبی قیادت کے لیے پریشان کن ہوتے تھے-