علی گڑھ میں تعلیمی انقلاب لانے والی ایک افسانوی خاتون

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-03-2022
علی گڑھ میں تعلیمی انقلاب لانے والی ایک افسانوی خاتون
علی گڑھ میں تعلیمی انقلاب لانے والی ایک افسانوی خاتون

 

 

awazthevoice

ثاقب سلیم، نئی دہلی

 یہ سنہ 1936 کا زمانہ ہے۔ ایک صبح تین انگریزی روزناموں، یعنی نیشنل کال(National Call)، ہندوستان ٹائمز(Hindustan Times) اور پائنیر(Pioneer) نے ایک مسلمان خاتون کا لکھا ہوا خط شائع کیا، جس نے تعلیمی و عوامی حلقوں میں سنسنی پیدا کردی۔ اس خط میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) انتظامیہ پر خواتین کی تعلیم کے تئیں امتیازی رویہ پر سوال کیا گیا تھا۔

اس خط میں لکھا گیا تھا: اگر کوئی قومی یونیورسٹی مسلسل کمیونٹی کے نصف حصے کی تعلیم کو نظرانداز کر رہی ہے تو کیا وہ قوم کی نمائندگی کرنے کے قابل ہے؟ کیا ہم خواتین مسلم کمیونٹی کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا ہمیں صرف انسانوں کو خوش کرنے اور خدمت کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ کیا ہمیں محض کھیل کی چیزیں ہی بنا رہنا ہیں۔ ہم خواتین علم کے مندر میں داخل ہونے کے لئے ناپاک کیوں ہیں؟

یہ وہ سوال ہے جو میں، اپنی ہزاروں بہنوں کی جانب سے کررہی ہوں۔ جن کا ذہن ایک ہی پریشانی سے دوچار ہے۔ وہ مسلم یونیورسٹی کے حکام سے پوچھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہ اب بھی مسلم لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کے تعلق سے تذبذب کے شکار ہیں۔

سنہ 1936 میں علی گڑھ میں شیخ عبداللہ اور بیگم وحید کا قائم کردہ ویمن کالج پہلے ہی اے ایم یو کا حصہ بن چکا تھا لیکن اس میں انڈرگریجویٹ کلاسز نہیں تھیں۔ اے ایم یو میں خواتین کے لیے تعلیم کی حد انٹرمیڈیٹ یعنی بارہویں جماعت تک تھی۔

مذکورہ اخبار میں چھپے خط نے پڑھے لکھے مسلمانوں میں ہلچل پیدا کر دی۔ اس خط میں خواتین کی تعلیم کو  ثابت کرنے کے لیے اسلامی نصوص کا حوالہ دیا گیا کہ علم حاصل کرنا تمام مسلمان مرد و خواتین پر فرض ہے۔

اس خط میں مزید یہ دلیل دی گئی  تھی کہ مسلم کمیونٹی کے لیے اکٹھا کیے گئے فنڈز صرف مسلمان مردوں پر خرچ کرنا غیر قانونی ہے۔ اس خط نے بحث شروع کر دی اور’ترقی پسند‘ نقطہ نظر کے حامل کئی مسلمان مردوں نے خاتون کی حمایت میں لکھا ہے۔ تاہم  ایک انگریز ڈیسمنڈ ینگ(Desmond Young) ان کےخط پر سوال کھڑا کردیا۔ وہ پاینیر کے ایڈیٹر تھے۔انہوں نے مضمون کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ جہاں آرا کی شناخت مشکوک ہے۔

انہوں نے سوال کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ کون سی ہندوستانی مسلمان خاتون ہیں، جو اتنی اچھی انگریزی میں مدلل مضمون لکھ سکتی ہیں۔ اس کی طرف سے اٹھائے گئے شک کا جواب جہاں آرا نے جواب دیا۔

انھوں نے لکھا کہ ’مسلم خواتین کی پسماندگی کو ظاہر کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا کہ اگر کسی خاتون نے کسی اخبار کے ایڈیٹر کو خط لکھنے کا حوصلہ کیا تو اس کا کریڈٹ بھی ایک مرد کو دیا جا رہا ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ اگر اس کے سرپرست نے اجازت دی تو وہ اپنی تصویر اشاعت کے لیے بھیجے گی۔

جہاں آرا نے تصویر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ ایسا کیسے کر سکتی تھیں؟ تاہم ایڈیٹر بھی غلط نہیں تھے۔  اگرچہ خط لکھنے والا مصنف اے ایم یو میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم تھا۔ یہ طالب علم کوئی اور نہیں بلکہ خواجہ احمد عباس تھے، جنہوں نے بعد میں صحافت اور فلمی دنیا میں اپنی منفرد شناخت بنائی۔ تاہم انہوں نے اپنی شناخت مخفی رکھی، اپنے دلائل کو مزید معتبر کرنے کے لیے انہوں نے ایک خاتون کے نام کا استعمال کیا۔

اب مسئلہ جہاں آرا کی تصویر کا تھا، تاکہ اسے پاینیر میں اشاعت کے لیےبھیجا جا سکے۔ دریں اثنا خواجہ احمد عباس نےاپنےقریبی دوستوں سے کسی لڑکی کی تصویر مانگی جو ایڈیٹر کو بھیجی جا سکتی تھی۔ خواجہ احمد عباس کے ایک دوست کولکاتہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اسکول کی ایک طالبہ سے دوستی کی تھی۔ تاہم دوستی ختم ہوچکی تھی۔ اگرچہ ان کے دوست کے پاس اس طالبہ کی تصویر اب بھی موجود تھی۔

اس طالبہ نے اسکرٹ اور بلاؤز پہن رکھا تھا۔ خواجہ احمد عباس نے اس طالبہ کی تصویرپر ساڑھی کا ڈیزائن بنایا اور پھراسے اپنے کیمرے سے اس کی تصویر بنائی۔  تصویر ایڈیٹر کو بھجوا دی گئی۔

اس بار جہاں آرا نے پردے کے خلاف لکھا۔ حجاب/پردے/برقعے کے بغیر ایک نوجوان خاتون کی تصویر والے مضمون میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ 15 فیصد سے زیادہ ہندوستانی مسلمان خواتین پردہ نہیں کرتی ہیں۔ 80 فیصد مسلمان خواتین دیہات میں رہتی ہیں اور شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والے اعلیٰ متوسط ​​اور اشرافیہ طبقے کی ایجاد کردہ' پردہ ' کو دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔

جہاں آرا نے اپنا مضمون ختم کرتے ہوئے کہا: "ہمیں فضول ہونے کے لیے نہیں بلکہ کام کرنے کے لیے آزاد ہونا چاہیے جیسا کہ ہماری بہنیں گاؤں میں کام کرتی ہیں۔ ہمیں مردوں کی اجازت کے بغیر رہا کیا جائے تاکہ ہم کام کر سکیں۔ کیونکہ اگر ہم نے ان کی اجازت کا انتظار کیا تو شاید ہماری نجات کی گھڑی کبھی نہ آئے گی۔

لوگ اب خاتون کے حقیقی وجود اور ویمن کالج میں ڈگری کلاسز کے مطالبے پر یقین کرنے لگے۔اے ایم یو کو پریس میں جگہ مل رہی ہے۔ ترقی پسند مردوں نے علی گڑھ میں خواتین کی تعلیم کے لیے ریلی نکالی۔ جہاں آرا کے لکھے ہوئے خطوط کو شہر شہر شہرت ملی۔ خواجہ احمد عباس نے اپنی سوانح عمری میں مزید لکھا: اس تصویر کی اشاعت کے بعد صرف دہلی اور لکھنؤ کے اخبارات میں، جہاں آرا کے خطوط اور مضامین کی مانگ بڑھ گئی۔

وہ لکھتے ہیں کہ جہاں آرا کے مضامین کی مانگ اس قدر بڑھ گئی کہ مجھے علی گڑھ آراء(Aligarh Opinion) کے لیے وقف کرنے کا وقت نہیں ملا ۔ پھر اس جانب مزید توجہ نہیں دی جاسکی۔ خواجہ احمد عباس کا طرز عمل غیر اخلاقی ہو سکتا ہے لیکن حقیقت میں ان کے طرز عمل کا نتیجہ مثبت نکلا۔ اس بحث نے یقینی طور پر خواتین کی تعلیم میں ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور جہاں آرا کے واقعے کے محض ایک سال بعد ڈگری کلاسز کی شروعات کردی گئی۔ یا خواجہ احمد عباس نے ان کا پہلا مضمون شائع کیا جس میں خواتین کے کالج، اے ایم یو میں اعلیٰ تعلیم کا مطالبہ کیا گیا۔ شیخ عبداللہ اور بیگم وحید نے کالج قائم کیا اور انہوں نے اپنی بیٹی کے ذریعے اس بحث میں حصہ لیا۔

اسے تقدیر کا حسن کہا جا سکتا ہے کہ جس خاتون کی تصویر جہاں آرا کے نام سے شائع ہوئی،اس وقت تک  وہ خاتون عباس کے لیے نامعلوم تھی۔  وہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ عبداللہ اور وحید کی سب سے چھوٹی بیٹی خورشید مرزا تھیں۔

عباس کو خورشید مرزا کے بارے میں پانچ سال بعد اس وقت پتہ چلا جب خورشید مرزا ان کی لکھی ہوئی کئی فلموں میں سے پہلی فلم نیا سنسار میں مرکزی اداکارہ کا کردار نبھایا تھا۔