سائبرجرائم کا سال بن گیا ۔ 2020

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-01-2021
کورونا دور میں سائبر قوانین
کورونا دور میں سائبر قوانین

 

                                                              ڈاکٹر پون دگل (ایڈووکٹ- سپریم کورٹ آف انڈیا)  Duggal 

کورونا دور میں سائبر قوانین   
                پچھلا سال کورونا وبا کی نذر ہوگیا۔ یہ سال کورونا کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں سائبرقانون کے متعارف ہونے کے لئے بھی یاد رکھا جائے گا۔   
آئیے! 2020 میں ہندوستان میں ہونے والے سائبر قوانین کے ارتقاء کا ایک اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔ سال2020 کی ابتدا کورونا کے ہلاکت خیز منظرنامے سے ہوئی۔ اس سے پہلے پارلیمنٹ نے ''انفرادی ڈیٹا تحفظ قانونن بل 2019'' کو مزید غور و خوض کے لئے پالیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کو بھیج دیا تھا۔ کمیٹی نے پورے سال اس مجوزہ قانون کے مختلف زاویوں اور پہلوں پر غور کیا۔ کمیٹی کے ممبران نے اپنے خدشات اور تحفظات کو دور کرنے کے لئے مختلف کمپنیوں کے ترجمانوں کوبھی بلایا۔ کمیٹی کی حتمی رپورٹ ابھی آنی ہے۔ ہندوستان میں سائبرجرائم کے تناظرمیں پارلیمانی کمیٹی کی یہ سفارشات خاصی اہمیت کی حامل ہیں - ''انفرادی ڈیٹا تحفظ قانونن بل 2019 '' ملک میں ڈیٹا کے تحفظ کے میدان میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کریگا۔
 یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سال 2020 سائبر جرائم کے مرتکبین کے لئے عہد ذریں ثابت ہوا- سال 2020 کے دوران ہندوستان میں فشنگ سب سے تیزی سے پھیلنے والا سائبر جرم تھا۔ اس کے علاوہ شناخت کی چوری اور فراڈ جیسے جرائم سے بھی ملک کی ایک خاطر خواہ آبادی متاثر ہوئی۔نیزاس طرح پورا سال سائبر جرائم کے متواترپھیلاؤ سے متصف رہا۔اس کے علاوہ سائبر جرائم کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے اعداد و شمار میں بھی اس سال متواتر اضافہ ہوتا رہا۔
 
سال 2020 کی پہلی سہ ماہی میں ہونے والے سائبر جرائم (جن کی مجموعی تعداد 52820874 تھی) اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ وطن عزیز کس تیزی سے اس لعنت کے حوالے سے غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔  نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(NCRB) کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ سال 2018 کے 28،248 کے مقابلے میں سال 2019 میں سائبر جرائم کے 4،4546 مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان میں سے قریب 60.4 فیصد معاملوں میں جرائم کی نوعیت فراڈ تھی- اس کے بعد جنسی استحصال اور ہتک عزت کے معاملات آتے ہیں جن کا حصّہ با الترتیب 5.1 فیصد اور  4.2  فیصد تھا-
  سب سے تیزی سے پھیلنے والا سائبر جرم تھا۔ ‘ 2020  کے دوران ہندوستان میں ’ فشنگ
کورونا کی وبا، لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ خوف اور ہراس کے ماحول میں ہندوستانیوں کی ایک کثیر تعداد کو سائبر مجرموں نے زبردست نقصان پہنچایا- لاک ڈاؤن کے اچانک  اعلان کے بعد بہت سی کمپنیاں تذبذب کا شکار ہو گییں، کیونکہ وہ ورک فرام ہوم کے لئے پوری طرح تیار نہیں تھیں لیکن اس اعلان کے بعد انھیں مجبور ہوکر اس فورمیٹ کو اپنانا پڑا۔ اس طرح ''ورک فرام ہوم''  کے بڑھتے ہوئے رجحان کے نتیجے میں سائبر حملوں کی تعداد میں بھی قابل ذکر اضافہ دیکھنے کو ملا۔
سال 2020میں ہندوستان میں سائبر سیکورٹی کی پامالی بھی بڑی تعداد میں کی گئی۔ ''رائنسم ویر'' نامی سائبر حملے کی پوزیشن کافی مضبوط ہو گی۔ بڑی بڑی کمپنیاں  ''رائنسم ویر'' نامی اس سائبرحملے کا شکار ہو گیئیں جن میں ہلدی رام، ہونڈا، ڈاکٹرریڈی لبوراٹری، لوپین اور بگ باسکٹ جیسے نام شامل ہیں۔
    سائبر سیکورٹی پر ہونے والے متعدد حملوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو مواصلات کے نظام میں ہونے والے اٹیک کا بھی سامنا رہا، جس کے باعث بجلی کے گرڈ جیسی اہم ترین چیزیں ما ثر ہوئیں - ممبئی میں ہونے والی لوڈ شیدڈنگ اسکی مثال ہے۔
 یہ تمام حادثات اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ہندوستان کو اس بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضے پورے کرنے پڑیں گے اور اس سلسلے میں سائبر قوانین وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ ”انفرادی ڈیٹا تحفظ قانونن بل 2019“ اس خلا کو پر کرنے کے لئے حکومت کی سنجیدگی اور عزیمت کا غماز ہے۔ وزیراعظم نے 15 اگست2020کو لال قلعہ کی فصیل سے کئے گئے اپنے خطاب میں بھی عندیہ دیا تھا کہ جلد ہی حکومت  ایک جامع سائبر پالیسی کو متعارف کریگی۔ترقی کی منزلیں طے کرتے ہندوستان کے لئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنی سائبر حکمت عملی کو موثر بنانے کے لئے مضبوط سائبر قوانین کو نافذ کرے۔اس حوالے سے ہندوستان کو چین، ویتنام، سنگا پور اور آسٹرلیا جیسے ممالک کے تجربات سے فائدہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔بحیثیت ایک قوم، سائبر سکیورٹی کے میدان میں طاقت ور بننے کے لئے مضبوط سائبر قوانین کا ہونا ناگزیر ہے جیسا مذکورہ بالا ممالک نے کر کے دکھایا ہے۔
سال 2020 کی ایک خاص  بات یہ بھی تھی کہ بڑی تعداد میں ہندوستانیوں نے ڈیجیٹل آلات کا استعمال شروع کر دیا۔ حالات اس وقت اور بھی پیچیدہ ہو گئے جب سائبر مجرموں نے فرضی خبروں کی نشر و اشاعت کے لئے کورونا بیماری کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔
  فرضی خبروں کے اس بڑے  حملے نے سائبر قوانین کی افادیت کومزید مسلم کر دیا۔ چوں کہ اس سے پہلے ہندوستان میں فرضی خبروں کو روکنے کے لئے کوئی جامع قانون موجود نہیں تھا، اس لئے مذکورہ بالا قانون کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئے۔ یہ قانون فرضی خبروں کی اشاعت روکنے میں خاصہ مددگار ثابت ہوگا۔
 اس قانون کے پاس ہونے کے عمل میں ”'آروگیا سیتو“ نامی اپپ نے محرک کا کام کیا-’آروگیا سیتو‘ ہندوستان میں کورونا کے مریضوں کی پہچان کرنے کی غرض سے بنائی گئے تھی، جس میں متعدد دقتیں سامنے آئیں۔ ”آروگیا سیتو“کورونا سے لڑنے کے عمل میں جلدبازی میں اٹھایا گیا ایک قدم سمجھا گیا- اس کے علاوہ اس اپپ کی وجہ سے بہت سے قانونی مسائل  بھی اجاگر ہو گئے۔
سائبر سے متعلق قانونی مسائل کے ساتھ ہی اس اپپ نے نجی زندگی کی پامالی کا بھی مسلہ کھڑا کر دیا- کیوں کہ یہ بات ابھی تک معمہ ہے کہ اس ایپ کی وجہ سے بڑی تعداد میں صحت سے متعلق اعداد و شمار کا غلط استمعال کیا گیا ہے یا 
ہیں۔
’آروگیا سیتو‘ ایپ پر اٹھنے والے تنازعہ کے بعد اب ضروری ہو گیا ہے کہ ہندوستان میں بھی ایک مضبوط اور جامع ''پرائیوسی قانون'' لایا جائے جس کی امید کافی قوی ہے- کسی جامع ’پرائیوسی قانون‘' کے فقدان کی وجہ سے ہی نجی معاملات کے تقدس سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اب غیر سود مند ثابت ہونے لگا ہے- اس فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے پرائیوسی کو آئین میں تفویض کردہ بنیادی حقوق کا حصہ قرار دیا تھا۔
 اس طرح سال 2020 نے سائبر سیکورٹی کے تصور کی افادیت کو مسلم کر دیا۔ مذکورہ بالہ چند حقائق اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں، سائبر قوانین کا آنا اس حوالے سے بھی اہم ہو گیا تھا کہ بہت سے دوسرے ممالک بھی ہندوستان جیسے اہم ملک میں ہونے والی قانون سازی کے منتظر ہیں۔ مذکورہ بالہ چند حقائق اور حادثات نے اس جانب ہونے والی پیش قدمی میں محرک کا کام کیا جس سے امید ہے کہ پورا برصغیر مستفید ہوگا۔
    (مضمون نگار ڈاکٹر پون دگگل سپریم کورٹ آف انڈیا میں وکیل ہیں -  وہ بین الاقوامی سطح پر سائبرلاو اور سائبرسیکیوریٹی قانون سے متعلق امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں)