عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-03-2023
 عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

 

پروفیسر اخترالواسع
اس بیچ کچھ ایسے دردناک واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئے ہیں کہ جن سے ہندوستانیت اور انسانیت دونوں ندامت کا شکار ہونے چاہئیں۔پہلے راجستھان کے جنید اور ناصر کا اغوا کیا گیا، اس کے بعد ان کو بری طرح زدوکوب کیا گیا، پھر اسی حالت میں شرپسند ظالم عناصر ان کو فیروزپور جھرکا کے تھانے لے گئے اور وہاں موجود پولیس والوں سے یہ فرمائش کی کہ وہ دونوں کو گرفتار کر لیں۔ لیکن پولیس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ انہیں یہاں سے لے جاؤ۔ وہ لے جائے گئے اور پھر کافی دور جاکر ان کی گاڑی سمیت ان کو زندہ جلا دیا گیا اور یہ اس لئے کیا گیا کہ مرحومین کی شناخت نہ ہو سکے اور جائے وقوع سے بہت دور لے جاکر ان کو نذرآتش اس لیے بھی کیا گیا کہ ظلم و تعدی کا کوئی ثبوت نہ مل پائے۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ زبانِ خنجر تو چپ رہ سکتی ہے لیکن آستین کا لہو پکارتا ہی ہے اور ظلم و تشدد کی چغلی کھا ہی دیتا ہے۔
یہی اس سانحہ میں بھی دیکھنے کو ملا۔ پہلی بات تو یہ کہ فیروزپور جھرکا کے تھانے والوں نے زخموں سے بری طرح چُور دونوں افراد کو اسپتال لے جانے کی زحمت کیوں نہیں اٹھائی؟
اور انہوں نے کس طرح سے ظالموں کو بڑے پیار سے سمجھا بجھا کر وہاں سے زخمیوں کے ساتھ چلے جانے کو کہا۔ ظالموں کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟
پھر جب ظالموں کی گرفتاریوں کے لیے کوششیں ہوئیں، مرحومین کے اہلِ خانہ نے ایف آئی آر درج کرائی تو اِس کے بجائے کہ گرفتاریاں ہوتیں، گرفتاریاں نہ ہو پائیں اس کے لیے مہاپنچایت بلائی گئی اور جس میں مرحومین کے ہم مذہبوں کے خلاف زہر اگلا گیا اور بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ اگر راجستھان پولیس مونو مانیسر کو گرفتار کرنے کے لیے آتی ہے تو وہ اپنے پیروں پر واپس نہیں جائے گی۔
اسی طرح دوسرے خطاکاروں کو جن کو کہ ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا، ایک کو چھوڑ کر کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ جو کچھ مونو مانیسر کی حمایت میں ہونے والی پنچایت میں کہا گیا اگر اس کا آدھا بھی مسلمانوں نے کہہ دیا ہوتا تو ان کے خلاف قیامت برپا ہو گئی ہوتی۔ ہریانہ سرکار کی اس معاملے میں خاموشی، مہاپنچایت ہونے دینے اور اس میں جو زہریلی زبان ایک مخصوص فرقے کے خلاف بولی گئی اس پر ابھی تک کوئی مناسب ایکشن نہ لینا ایک سیکولر جمہوریت اور انصاف پسند معاشرے کے لیے انتہائی تکلیف اور شرم کی بات ہے۔
اس میں بھی سرکار کی بے رخی اور اس کا یک طرفہ رویہ اس وقت اور بھی تشویشناک ہو جاتا ہے جب نوح (ہریانہ) میں پُرامن دھرنے میں شریک لوگوں کو بڑی تعداد میں مقدموں میں ماخذ کر دیا گیا۔
ہریانہ سرکار کو یہ بتانا چاہیے کہ اس نے مہاپنچایت میں شریک لوگوں کے خلاف اب تک کون سے ضروری قانونی اقدام اٹھائے؟
اس میں راجستھان کی پولیس کا بار بار یہ اعتراف کرنا کہ ہریانہ پولیس ان کے ساتھ پورا تعاون کر رہی ہے اطمینان کی بات تو ہے لیکن انصاف ہوتے ہوئے نظر بھی آنا چاہیے۔
اس موقعے پر کانگریس کی مرکزی قیادت کا رویہ بھی ناقابل فہم رہا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ لکھیم پور کھیری میں جب کسانوں کے احتجاج کے موقعے پر مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کے بیٹے نے مبینہ طور پر جیپ چڑھا دی تھی تو ان کے خاندانوں سے تعزیت کرنے کے لیے نہ صرف راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی پہنچے بلکہ ساتھ میں چھتیس گڑھ اور راجستھان کے اپنے وزراء اعلی کو بھی ساتھ لے کر گئے جنہوں نے مہلوکین کے خاندانوں کو سرکاری امداد ملنے کے باوجود خطیر رقمیں دیں۔ لیکن اس کے بعد اگرتلہ اور راجستھان میں ہونے والے ظلم و تشدد کے شکار کے لوگ اتنے خوش قسمت نہیں تھے کہ یہ لوگ جو محبت کی دوکان کھولنے کی باتیں کرتے ہیں، جنید اور ناصر کے خاندان والوں کو پُرسہ دینے کے لیے وہاں جا سکتے۔
ایسا لگتا ہے کہ کانگریس اب مسلمانوں سے ہر قسم کی دوری بنانے پر لگی ہوئی ہے جس کا ایک جیتا جاگتا ثبوت وہ اشتہار بھی ہے جس میں مختلف مقتدر رہنماؤں کی تصویریں تو شامل کی گئیں لیکن کسی مسلمان کانگریس لیڈر کو بدرالدین طیب جی سے مولانا ابواکلام آزاد تک اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ ان کو بھی اس میں جگہ ملتی۔ یہ صحیح ہے کہ اس پر معافی بھی مانگی گئی اور جس سے یہ غلطی ہوئی اس کے لیے قرارِ واقعی تادیبی کارروائی کے لیے بھی کہا گیا لیکن وقت گزر جانے کے باوجود ابھی تک کوئی چیز سامنے نہیں آئی ہے۔ 
راجستھان اور ہریانہ میں جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ کوئی اکیلا دکھ دینے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ اکثر جگہوں پر خاص طور سے ریاستِ کرناٹکا میں صورتحال بڑی نازک ہے جہاں کھلے عام ایک مخصوص مذہبی فرقے کے خلاف اشتعال انگیزی ہی نہیں کی جاتی بلکہ سڑکوں اور بھری سبھاؤں میں سب و شتم کی ساری حدیں پار کر دی جاتی ہیں۔ گجرات میں پولیس کھمبے سے باندھ کر مسلمان نوجوان کو پیٹے جانے کو جائز قرار دیتی ہے۔ انتہا یہ کہ اب سپریم کورٹ بھی اس غفلت کا سخت نوٹس لے رہی ہے۔ پولیس کا یہی رویہ ہے جس کی بِنا پر دہلی ہائی کورٹ نے دہلی کے فسادات پر صحیح اور فوری اقدامات نہ کرنے پر پولیس کی سرزنش کی ہے۔ 
افسوس یہ ہے کہ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب وزیر اعظم اپنی پارٹی کے لیڈروں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں کسی فرقے کے خلاف بدزبانی نہیں کرنی چاہیے اور مسلمانوں خاص طور سے پسماندہ مسلمانوں سے ربط ضبط بڑھانا چاہیے۔
یہاں یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جنید اور ناصر اسی پسماندہ میو طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک طرف ہماری موجودہ حکومت کو نظریاتی اساس فراہم کرنے والی آر ایس ایس کے سربراہ مسلمانوں اور سنگھ کے بیچ میں ایک مکالمے کے لیے کوشاں ہیں اور دوسری طرف جمعیۃ علماء ہند جیسی مسلمانوں کی قدیم تنظیم مذہبی ہم آہنگی کو بڑھانے کے لیے سرگرداں ہیں تاکہ معاشرتی تناؤ کم ہو اور دوریاں ختم ہوں۔
ایسے وقت میں حکومتوں کی غیرجانبداری اورقانون کی پاسداری ہی سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کو یقینی بنا سکتی ہے اور یہی ہندوستان کو دنیا میں وشو گرو بنا سکتی ہے۔
 
انتخابی سیاست میں پارٹی مفادات کی قربان گاہ پر ہم ہندوستان کی صلح کل اور وصل خواہی کی پرانی روایات کو بَلی کا بکرا بناکر نہیں چڑھا سکتے۔ ہندوستان کی اصل طاقت مذہبی عناد و فساد میں نہیں بلکہ اس سچائی اور رویے میں پنہاں ہے کہ:
حافظہ گر وصل خوا→ہی صلح کن بہ خاص و عام
با مسلماں اللہ اللہ با برہمن رام رام
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)