’جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا‘ ناسا دنیا کو کیا دکھانے جا رہا ہے؟

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
’جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا‘ ناسا دنیا کو کیا دکھانے جا رہا ہے؟
’جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا‘ ناسا دنیا کو کیا دکھانے جا رہا ہے؟

 

 

نیویارک: امریکہ کا خلائی ادارہ ناسا کائنات کی ایسی ’گہری تصویر‘ دنیا کو دکھانے جا رہا ہے جو اس سے قبل کھینچی گئی اور نہ ہی کسی نے دیکھی ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کا کہنا ہے کہ ناسا کے منتظم بل نیلسن نے بدھ کو امریکی شہر بالٹی مور میں پریس کانفرنس میں بتایا کہ تصویر ایک نئی ویب سپیس ٹیلی سکوپ کے ذریعے کھینچی گئی ہے جو 12 جولائی کو دنیا کے سامنے لائی جائے گی۔ بل نیسن کے مطابق ’یہ ایک ایسی چیز ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی

امریکی ادارے کی جانب سے پچھلے سال دسمبر میں ایک خلائی تجزیاتی پروگرام شروع کیا گیا تھا جس کے تحت بھیجے جانے والے آلات اب سورج کے مدار کے قریب ہیں جو کہ زمین سے پندرہ لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ویب نامی حیران کن دوربین کائنات کے مزید راز کھولنے کی وہ صلاحیت بھی رکھتی ہے جو آج تک کوئی اور دوربین نہیں کر سکی۔

اس میں ایسے عدسے استعمال کیے گئے ہیں جو بیچ میں گردوغبار اور گیس حائل ہونے کے باوجود صاف تصویر لے سکتے ہیں۔ نیلسن کا کہنا تھا کہ ’یہ (دوربین) شمی نظام میں موجود اشیا اور دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کے بارے میں مزید نئی چیزیں سامنے لانے جا رہی ہے، جس سے ہمیں یہ اشارہ ملے گا کہ وہاں کے حالات زمین کے حالات سے کس قدر ملتے جلتے ہیں۔

ان کے مطابق ’ہو سکتا ہے کہ اس سے ہمارے کچھ سوالات کے جواب مل جائیں جیسا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ ہم کون ہیں؟ وہاں مزید کیا کچھ ہے؟ یقیناً اس سے کچھ ایسے سوالات کے جواب بھی مل جائیں گے جن کے بارے میں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ہیں کیا؟ ویب میں نصب انفراریڈ میں ایسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ بگ بینگ کے ہونے والی صورت حال کو گہرائی سے جائزہ لے سکے جو کہ تیرہ ارب 80 کروڑ سال قبل ہوا تھا۔

اس حوالے سے اب تک تین کروڑ تیس لاکھ سال تک کی تحقیق ہو چکی ہے تاہم اب خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ویب دوربین کی صلاحیت اس ریکارڈ کو توڑ سکتی ہے۔ ناسا کی ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر پام میلرائے دوربین کے حوالے سے ناسا کے شراکت دار ایئرسپیس کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ دوربین بیس سال تک کام کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان بیس برسوں کے دوران نہ صرف تاریخ اور وقت کی تہوں میں اتریں گے بلکہ ان سے آگے بھی جائیں گے کیونکہ ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم مزید مشاہدات کریں اور سیکھیں۔‘