شاہین باغ کے علما نے کی سماجی دوری کی حوصلہ افزائی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-04-2021
ایک مثبت آواز
ایک مثبت آواز

 

 

 نئی دہلی۔شاہین باغ جامع مسجد میں لاؤڈ اسپیکر سے آذان کی آواز آ رہی ہے اور نماز ظہر کے لئے مسجد میں نمازیوں کا آنا شروع ہو گیا ہے ۔ نمازی بہت ہی قلیل تعداد میں ایک دوسرے سے مسافت پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ رمضان کے مقدس مہینے میں کرفیو ہونے کی وجہ سے نماز بھی سماجی دوری کے ضابطے کو ملحوظ رکھتے ہوئے پڑھی جا رہی ہے ۔

شاہین باغ جامع مسجد کے باہر وضو خانے کے قریب دیوار کے ساتھ صرف ایک شخص بیٹھا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔ وضو سے فارغ ہونے کے فوراً بعد ریاست اپنا ماسک پہنتا ہے اور نماز ظہر کے لئے مسجد میں داخل ہوجا تا ہے۔ مسجد کے اندر لوگوں کی تعداد کو بھی محدود کیا گیا ہے۔ اس علاقے کی پہچان بن چکے ٹریفک کے شور کا کہیں اتا پتا نہیں ہے البتہ وہاں لوگوں کی محدود تعداد میں نقل و حرکت کو دیکھا جا سکتا ہے۔

نظم و ضبط کی رضا کارانہ پابندی

ویسے تو عام دنوں مسجد میں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے جو نماز سے پہلے وضو کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ علما نے سخت ہدایات جاری کیں ہیں جس کے پیش نظر لوگ مسجد میں آنے سے پہلے اپنے گھر پر ہی وضو کر رہے ہیں ۔ یہ معاشرتی دوری کی حوصلہ افزائی اور عوام میں اس کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے کے لئے کیا گیا ایک نیک اور خوش آئند قدم ہے۔

نمازیوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مسجد میں صرف فرض نماز ادا کریں اور بقیہ نفلی عبادتیں اپنے گھر پر انجام دے سکتے ہیں۔ اس پہل نے مسجد میں نماز کے دورانیہ کو بھی کم کیا ہے اور وبا کے پھیلنے کے امکانات کو بھی محدود کردیا ہے۔اس علاقے میں یوں تو پولیس کی تعداد بہت ہی کم ہے لیکن وبائی مرض کے خوف نے لوگوں میں ایک قسم کی سیلف ڈسپلن پیدا کردی ہے۔ پولیس سے زیادہ ، اس علاقے کے لوگوں نے کورونا وائرس سے خوفزدہ ہونا اور بچنا شروع کردیا ہے۔اس علاقے میں ہولی فیملی ، میکس اور الشفا نام کے تین اسپتال موجود ہیں جن کی گنتی کسی بڑے مقامی ہسپتالوں میں نہیں ہوتی ہے۔ لیکن تینوں مکمل طور پر کورونا مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کسی بھی طبی ہنگامی صورتحال میں وہاں مزید جگہ موجود نہیں ہے کیونکہ اس علاقے کے لوگ علاج کے لئے دور کے سفر کے متحمل نہیں ہیں۔

لوگ وطن کو لوٹ رہے ہیں

مسجد سے کچھ مسافت پر کچھ نجی بسیں کھڑی ہیں ، کچھ لوگ اپنا سامان لے کر بسوں کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ وہ بسیں روزانہ اجرت کمانے والے دیہاڑی مزدوروں کو منتقل کرنے کی خدمات انجام رہی ہیں جو ایک ہفتے کے لاک ڈاؤن کے دوران اپنے پیاروں سے ملنے جانا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لئے گھر لوٹنا ضرورت ہے جبکہ کچھ لوگوں کے لئے یہ ایک موقع ہے کہ وہ رشتہ داروں سے مل سکے۔

مثال کے طور پر فرقان ایک نوجوان ہیں جو ایک ڈھابے پر کام کرتے ہیں لیکن اب جبکہ لاک ڈاؤن کے بعد ڈھابے کے مالک نے فرقان کو بتایا ہے کہ وہ اب ان کو اجرت نہیں دے سکتے ۔ چنانچہ فرقان واپس بہار میں اپنے آبائی مقام پورنیا لوٹ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے اور بہت جلد میرے پاس کھانے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوں گے ۔

 

awazurdu

ایک دوسرا شخص ندیم بھی اپنے کنبے کے ساتھ جس میں اس کی دو چھوٹی بیٹیاں اور بیوی ہیں ، اس علاقے میں رہتا آ رہا ہے ۔ اب وہ یوپی میں اپنے آبائی شہر سمبھل کو لوٹ رہے ہیں ۔ ندیم کہتے ہیں کہ میں سیکٹر 50 نوئیڈا میں اوہائیو نامی ہیئر سیلون میں کام کرتا تھا۔ کل مالک نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے آدھی تنخواہ دے گا ، جس کی قیمت 7،500 روپے ہے۔ اتنے پیسوں میں میرا گزر مشکل ہوجائے گا ، مجھے تو 4000 روپے صرف مکان کے کرایہ کا ادا کرنا ہوتا ہے ۔

اس مسلم اکثریتی علاقے میں بسنے والے زیادہ تر لوگ یا تو ریڑی والے ہیں یا ہنر مند مزدور۔ خاص طور پر 200 کلومیٹر کے آس پاس کے رہائشی افراد میں یہ احساس عام ہے کہ کرفیو نے ان کی روزی روٹی پر بریک لگا دی ہے - یہ لوگ بھی شاید اپنے گھر نکل جاییں گے ۔ ۔ وہ صرف اسی صورت میں رہ سکتے تھے کہ لاک ڈاؤن نہ لگایا جاتا ۔ وہ کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بعد یہاں کرنے کو کچھ نہیں بچا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گھر جانے کے خواہشمند افراد کی بھیڑ منگل کو نہیں دکھی ۔ شاہین باغ سے بجنور کے لئے نجی بس چلانے والے سرفراز کہتے ہیں کہ ان کے پاس اتنے مسافر بھی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بس میں صرف چار مسافر ہیں۔مسافروں میں سے ایک چھوٹا لڑکا ہے جو کھڑکی کی سیٹ پر بیٹھا ہوا ہے اور کالے رنگ کی ٹوپی پہنی ہوئی اس امید پر کہ بس جلد ہی حرکت کرے گی۔ جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ وہ کیوں لوٹ رہا ہے تو اس نے کہا کہ میں نائی کی دکان پر کام کر تا تھا ، اب چوں کہ سیلون بند ہوچکا ہے لہذا مجھے واپس جانا چاہئے۔اب سرفراز اس تذبذب میں ہے کہ بس چلاؤں یا نہیں۔ کم مسافروں کے ساتھ بس چلانا نقصان دہ ہوگا ۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے دو دنوں میں کوئی تیس بسیں جاچکی ہیں اور جو واپس جانا چاہتے تھے وہ سب جا چکے ۔ اب بمشکل ہی کوئی مسافر بچا ہے۔

زندگی مشکل ہے لیکن اتنی بری نہیں

اس بار کا لاک ڈاؤن نقل و حرکت کے لحاظ سے اتنا سخت نہیں ہے جتنا کہ گذشتہ سال تھا ، چونکہ ضروری نقل و حرکت کی اجازت دی گئی ہے اور پولیس صحیح معنوں میں کرفیو کو عملی جامہ پہنانے کے دوران بھی انسانی رویہ اختیار کررہی ہے۔ دوسری طرف اس بار لوگ بھی زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اوکھلا وہار میٹرو اسٹیشن کے قریب مسافروں کا انتظار کرنے والا ایک آٹو رکشہ ڈرائیور نور کا کہنا ہے کہ وہ معمول کے مطابق کام کر رہا ہے اور زیادہ تر مسافر وہ ہیں جنہیں مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے یا جو ملازمت پر جارہے ہیں یا وہ لوگ جو آکسیجن سلنڈر دوبارہ بھرنا چاہتے ہیں۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی بھی کورونآ کے مریض کو لے کر جائیں گے تو انہوں نے جواب دیا: "یقینا میں بالکل ایسا کروں گا۔ لوگوں کی مدد کرنا ضروری ہے۔ کیا پتہ کل میں بھی کورونا کا شکار ہو جاؤں ۔

جب آپ اوکھلا گاؤں سے جامعہ ملیہ یونیورسٹی کی طرف جائیں گے تو دوائی ، گروسری ، پھلوں اور سبزیوں کی دکانیں کھلی ہوئی ملیں گی ۔ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے سے بمشکل 100 میٹر کے فاصلے پر سیف اللہ ، اس کی بیٹی سکینہ اور ان کے اہل خانہ موجود ہیں ۔ سب فٹ پاتھ پر بیٹھے بھیک کا انتظار کر رہے ہیں لیکن لوگوں کی محدود نقل و حرکت کی وجہ سے انہیں رمضان کے دوران بھی خیرات نہیں مل رہی ہے ۔ یہاں تک کہ وہ ماسک پہننے کی ضرورت سے بھی انجان ہیں ، ان کے لئے ترجیح یہ ہے کہ وہ آج رات کو کھانا کھائیں۔ انہوں نے اپنا ماسک نہیں پہنا ہوا ہے کیونکہ راہگیر ان کے چہرے پر تکلیف نہیں دیکھ پائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم خیراتی تنظیمیں جو پچھلے سال لاک ڈاؤن میں خاصی سرگرم تھیں ان کی عدم موجودگی اس بار واضح ہے ۔

awazurdu

 سیف اللہ ، اس کی بیٹی سکینہ اور ان کے اہل خانہ

اس علاقے میں بڑے پیمانے پر لوگ ذمہ داری سے پیش آرہے ہیں اور معاشرتی دوری کو یقینی بنارہے ہیں۔ تاہم اگر لاک ڈاؤن کو بڑھا دیا جائے گا تو یقینا ہر ایک کے لئے یہ دشوار ہوگا ۔