ترکی:سڑکوں پر افطار کی انوکھی روایت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 14-04-2021
استنبول کی رونق
استنبول کی رونق

 

 

 منصور الدین فریدی

کورونا کا دور ہے لیکن رمضان میں روایات کا ذکر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بات توپ داغنے کی ہو یا پھر ڈھول بجانے کی۔ہر روایت کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔اسی طرح ترکی بھی روایات کا ملک ہے۔ دین اور دنیا کے توازن کی مثال ہے۔عالم اسلام کے ساتھ ترکی میں بھی رمضان کی آمد ماحول کو بدل دیتی ہے۔ لوگ ایک مہینہ ایک پرانے ماحول اور روایات میں زندگی گزارنے کا ترجیح دیتے ہیں۔عام زندگی بدل جاتی ہے۔ ترکی جسے مساجد کا ملک کہا جاتا ہے،جہاں رمضان المبارک کی روایات کا تعلق سلطنت عثمانیہ کے عہد سے ہے۔ترکی میں رمضان کو جس طرح مناتے ہیں، شاید ویسا جوش کسی اور عرب ملک میں نہ ہو۔ ایک ایسی ریاست جو سیکولرازم کی بنیاد پر کھڑی کی گئی جس کا سماج عملاً سیکولر ہوچکا ہے مگراس سرزمین پر رمضان کی رونق اور برکت قابل دید ہوتی ہیں،رمضان اور عید گو کہ مذہبی تہوار ہیں لیکن مختلف ممالک اور مختلف خطوں میں اسے مختلف رسوم و رواج اور روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

 روشن راتیں۔جگماتی عباد گاہیں

 ترکی میں افطار کے وقت مساجد کی بتیاں روشن کر دی جاتی ہیں جو صبح سحری تک روشن رہتی ہیں۔ مختلف شہروں کی بلند ترین پہاڑی سے مقررہ وقت پر رمضان توپ چلائی جاتی ہے جو روزہ کھلنے کا اعلان ہوتا ہے۔جدید اثرات اور یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کے باعث ترکی میں دوسرے ممالک کی طرح رمضان کے دوران ریستورانوں یا ہوٹلوں کی بندش کا کوئی قانون نہیں ہے۔ نہ ہی ایسی کوئی پابندی ہے کہ آپ رمضان کے دوران عوامی مقامات پر کچھ کھا پی نہیں سکتے۔

ترکی میں بھی درویش یا فقیر رمضان المبارک کے دوران رضاکارانہ طور پر روزہ داروں کو جگاتے ہیں لیکن اب یہ روایت ماند پڑتی ہوئی نظر آتی ہے کیوں کہ بہت سے لوگ اسے شور کی آلودگی سے منسوب کرتے ہیں۔ترکی میں رمضان کے چاند نظر آنے کے ساتھ ہی مسجدوں کو جلتے بجھتے قمقموں سے اس طرح سے سجادیا جاتا ہے کہ مینار زیادہ واضح نظرئیں جب کہ ان روشنیوں سے بڑے بڑے الفاظ میں ایثارو قربانی دینے والے پیغامات لکھ دیئے جاتے ہیں جو بہت دور سے بھی بہت واضح نظر آتے ہیں۔

awazurdu

 توپ داغنے کی روایت 

 سحر و افطار کے وقت توپ داغنے کی روایت کئی ممالک میں ہے۔توپ داغنے کی روایت ترکی میں بھی مصر سے ہی آئی ہے۔بات ترکی تک نہیں بلکہ دنیا کے مختلف مسلمان ممالک نے بھی اسے اختیار کرلیا۔افطار اور سحری میں توپ کا چلن پرانا ہے مگر اب کم ہورہا ہے،ترکی میں توپ کے ساتھ ڈرم بجانا اور بگل بجاناعام ہے۔سحری کے وقت ڈرم بجا کر لوگوں کو جگانے کی روایت ترکی کے ساتھ کئی ممالک میں موجود ہے۔ترکی میں دور عثمانی عہد کا لباس پہن کر ڈرم بجا کرلوگوں کو جگاتے ہیں، افطار کے وقت مساجد کی بتیاں روشن کر دی جاتی ہیں جو صبح سحری تک روشن رہتی ہیں۔

 ایک ہی دستر خوان پر افطار

 ترکی میں افطار گھروں میں کرنے کا رواج نہیں ہے، لوگ اپنی افطاری کا ساما ن گھر کے سامنے سڑک پر یا پھر پارک میں سجا کر بیٹھتے ہیں اور عام دعوت ہوتی ہے بیشتر سیاح اس کھلی دعوت کا حصہ بنتے ہیں۔رمضان کی آمد کے ساتھ ہی شہر کی مرکزی شاہراہوں پر افطاری کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے، جہاں ہزاروں کی تعداد میں روزے دار افطاری کرتے ہیں۔روزہ افطار کے وقت اگر آپ استنبول کے مرکز سلطان احمد اسکوائر اور نیلی مسجد کے گرد ہوں تو معلوم ہو گا کہ ترک ماہِ رمضان کیسے مناتے ہیں۔

خاندان کے خاندان پارکوں میں، گلیوں میں اپنے سامان کے ساتھ موجود روزہ کھولتے ہیں اور راہ گیروں کو دعوت دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ سیاحوں کو بھی اپنے لذیذ کھانوں کی پیشکش کرتے ہیں اور رات گئے یا سحر تک وہیں قیام کرتے ہیں۔ ہر شہر کی بلدیہ شہر کو دلہن کی طرح سجا دیتی ہے۔ مختلف علاقوں میں میلے لگائے جاتے ہیں جو افطاری کے بعد جوان ہوتے ہیں۔ گیت گانے والے، اناطولیہ کے گیت، صوفی موسیقی گاتے ہیں۔

اس کے کثیر اخراجات شہر کی مقامی بلدیہ برداشت کرتی ہے۔ سحر تک میلہ جاری رہتا ہے۔ عورتیں، بچے بوڑھے اور جوان میلہ لگائے علاقے میں گیت بھی سنتے ہیں، کافی اور چائے سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور آپس میں مشہور ترک کھیل طاولیہ کھیلتے ہیں۔ ایک کھیل جو میز پر بیٹھ کر کھیلا جاتا ہے۔ رات بھر سٹالوں پر مقامی دستکاروں کے شاہکار لوگوں کی خریداری کا مرکز ہوتے ہیں۔رمضان ترکی میں خوشی کا مہینہ ہے۔ عبادات، تقریبات اور مساوات کا مہینہ ہے۔ ترکی میں رمضان کا اہتمام عوام اور ریاست دونوں اپنی اپنی جگہ کرتے ہیں۔

awazurdu

 ایک گاؤں ایسا بھی

ایک دلچسپ حقیقت ا ب سامنے آئی ہے کہ ترکی میں ایک گاؤں کے لوگ گذشتہ 15 سال سے رمضان کے دوران ایک ہی دستر خوان پر افطاری کرتے ہیں۔ ریاست یوزغات کے نواحی علاقے کارلی کے تمام مرد وخواتین ماہ صیام آتے ہی باہمی رنجشیں بھلا کر محبت و بھائی چارے کے ناقابل بیان رویے کا اظہار کرتے ہیں اور پورا ماہ ایک دستر خوان پر افطاری کرتے ہیں۔ کارلی ایک چھوٹا قصبہ ہے جس میں 30 گھر ہیں۔ گاؤں کے تمام افراد ایک مقامی مسجد کے زیر انتظام سماجی بہبود مرکز میں افطاری سے قبل جمع ہوتے ہیں۔گاؤں کے میئر رجب ضویغو کا کہنا ہے کہ گاوں میں تیس کنبے ہیں اور پورے ماہ صیام کے دوران روزانہ ایک کنبے کو افطاری کے انتظامات اور کھانے بنانے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔اس کے باوجود دوسرے پڑوسی بھی ان کی مدد کرتے ہیں۔انہوں نے توقع ظاہر کی مستقبل میں بھی محلے کے تمام افراد اسی طرح شیر وشکر رہیں گے اجتماعی افطاری، اخوت اور بھائی چارے کی فضا برقرار رکھیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اہل محلہ کی اجتماعی افطاری کی برکت ہے کہ یہاں پر کسی کو دوسرے سے کوئی شکوہ نہیں۔ ہم ایک خاندان کے افراد کی طرح ایک دوسرے کے دکھ اور درد میں شریک ہوتے ہیں۔

awazurdu