نظیراکبرآبادی کی قبر۔ بے توجہی کا شکار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-02-2021
نظیرکی بے نشان ہوتی قبر
نظیرکی بے نشان ہوتی قبر

 

 

نظیراکبرآبادی کی 16 فروری کو یوم پیدائش پر خصوصی

 فیضان خان ۔ آگرہ

آگرہ۔ نظیرکو آج ان کا شہربھلا چکاہے،خواہ وہ اردونصاب کا اہم حصہ ہیں۔ انھیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایاجارہا ہے مگر آج ان کے اپنے شہراکبرآباد یعنی آگرہ میں بھی کوئی نہیں جانتا۔ ان کی قبربے نام ونشان ہوتی جارہی ہے۔ آگرہ جسے پیٹھوں اور تاج محل کے لئے جانا جاتا ہے، اسی شہر کے نظیر کی شاعری کا حسن تاج محل سے کم نہیں اوراس کی مٹھاس یہاں کے پیٹھوں سے کم نہیں۔ نذیر اکبرآبادی، آگرہ کے رہنے والے تھے مگردہلی میں پیدا ہوئے تھے مگرآگرہ آنے کے بعد ، اس زمین کو بھی ان کے نام کے سبب شہرت ملی۔لطف کی بات یہ ہے کہ آگرہ میں پیدا ہونے والے غالب تو دہلوی ہوگئے مگر دلی میں جنم لینے والے نظیرکو دنیا نے اکبرآبادی کہا۔موسم بہارمیں ان کا یوم پیدائش ہے جب انھیں بھلایاجارہاہے مگران یہ نظم کوئی نہیں بھول سکتا۔

گلشن عالم میں جب تشریف لاتی ہے بہار 
رنگ و بو کے حسن کیا کیا کچھ دکھاتی ہے بہار 
صبح کو لا کر نسیم دل کشا ہر شاخ پر 
تازہ تر کس کس طرح کے گل کھلاتی ہے بہار 
نونہالوں کی دکھا کر دم بدم نشو و نما 
جسم میں روح رواں کیا کیا بڑھاتی ہے بہار 
بلبلیں چہکارتی ہیں شاخ گل پر جا بجا 
بلبلیں کیا فی الحقیقت چہچہاتی ہے بہار 
حوض و فواروں کو دے کر آبرو پھر لطف سے 
کیا معطر فرش سبزے کا بچھاتی ہے بہار
گلشن عالم میں جب تشریف لاتی ہے بہار
رنگ و بو کے حسن کیا کیا کچھ دکھاتی ہے بہار

نظیرکو آگرہ سے پیار تھا،اس شہرکے درودیوار انھیں محبوب تھے،یہاں کے رسم ورواج اور تیج تہواروں سے بھی وہ محبت کیا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بھی اس شہر کو جگہ دیا ہے۔ انھوں نے آگرہ کی گلیوں میں جب بھیک مانگنے والوں کو دیکھاتو لکھ دیا۔ انھوں نے جب یہاں بنجاروں کو دیکھا تو ’بنجارہ نامہ‘ لکھا۔انھوں نے یہاں کے تہواروں اور موسموں کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ مگرآج وہی آگرہ کا شاعر بے نشان ہوتا جارہا ہے۔

تاج گنج کے علاقے میں واقع ملکو لگی میں بنایا گیاان کا واحد نشان بھی ٹوٹ گیا ہے۔ مقبرے کی مرمت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ لوگوں نے مقبرہ کے علاقے میں تجاوزات کرلی ہیں۔ بکرے اور کتے قبر پر گھوم رہے ہیں۔ گزشتہ حکومت میں ، 16 فروری سے پہلے ، ان کے مقبرے کی صفائی اور مرمت کی جاتی تھی لیکن اب اسے دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ نظیر 2247 ہجری یعنی 1735 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔

ان کا اصلی نام ولی محمد تھامگر اپنے تخلص سے مشہور ہوئے۔وہ اپنے والدین کے 13 ویں اولاد تھے۔ فاروق کے 12 بچے کسی نہ کسی شکل میں بیماری کی وجہ سے چل بسے تھے مگر نظیر زندہ بچ گئے۔ ایک درویش نے نذیر کے والد سے دعا کی تھی کہ جاؤ ، تمہارا لڑکا زندہ رہے گا اور تمہارا نام روشن ہوگا۔ نظیر کی عمر چار سال تھی جب سن 1739 عیسوی میں نادرشاہ نے دہلی پر حملہ کیا۔ مراٹھوں نے بھی کئی بار دہلی پر حملہ کیا۔ 22-23 سال کی عمر میں پریشان ہوکر وہ اپنی والدہ کے ساتھ آگرہ میں اپنی نانی کے گھر آگئے تھے۔ انکی شادی آگرہ میں ہی ہوئی تھی۔ان کے دو بچے پیدا ہوئے۔

بیٹے کا نام گلزار علی اسیر اور بیٹی کا نام امامی بیگم تھا۔ نظیر اکبرآبادی نے عربی ، فارسی زبان کی تربیت حاصل کی تھی۔ وہ سنسکرت ، عربی ، فارسی ، اردو ، پنجابی ، مارواڑی ، پوربی زبانوں سے واقف تھے۔ نظیر،نظموں کے شاعر تھے اور انھوں نے مشپور عالم نظمیں کہی ہیں جن میں شامل ہیں ‎آدمی نامہ ،‎روٹی نامہ، بنجارہ نامہ، ہولی ،دیوالی، عید،شب برات وغیرہ مگر انھوں نے غزلیں بھی بہت خوب کہی ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جیسے

جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو

یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو

جدا جو ہم کو کرے اس صنم کے کوچے سے

الٰہی راہ میں ایسا کوئی رقیب نہ ہو

علاج کیا کریں حکما تپ جدائی کا

سوائے وصل کے اس کا کوئی طبیب نہ ہو