توصیف رحمان: پڑوسی کے لیے کرتے ہیں درگا پوجا کا اہتمام

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
توصیف رحمان: پڑوسی کے لیے کرتے ہیں درگا پوجا کا اہتمام
توصیف رحمان: پڑوسی کے لیے کرتے ہیں درگا پوجا کا اہتمام

 

 

جاوید خان / کولکتہ

 اقلیت کی ’تعریف‘ مسلمان  نہیں اور نہ ہی مطلب، جو بھی تعداد میں کم ہو، وہی اقلیت ہے- اس صورتحال میں جو بھی اکثر یت میں ہوگا اس کی ذمہ داری اس طبقہ کے  لیے بڑھ جاتی ہیں-یہی وجہ ہے کہ  جب سین خاندان کو علاقہ میں اپنی روایتی درگا پوجا کی کمی محسوس ہوئی اور انہوں نے اس کا اظہار کیا تو یہ  میری ذمہ داری تھی  کہ میں اس کمی کو دور کروں۔اس خاندان کو خوشیاں منانے کا موقع فراہم کروں بلکہ اس کا حصہ بھی بنوں-

یہ الفاظ ہیں کولکتہ کے نوجوان محمد توصیف رحمان  کے، جو اپنے بنگالی پڑوسی ’سین خاندان‘ کے لیے درگا پوجا کا اہتمام کرتے ہیں-

 دراصل یہ ہے کہانی روشنیوں میں ڈوبے شہر کولکتہ کی،جہاں درگا پوجا کی روایتی رونق شہر کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ لیکن اس چمک دمک کے پیچھے اس شہر کی ایک اور خوبی ہے،جو شہریوں کےایک دوسرے کے لیے جینے کی ادا ہے۔ کیا خوشی اور کیا غم- آپ خود کو کبھی تنہا نہیں محسوس نہیں کریں گے، کیونکہ سب ساتھ ساتھ ہوتے ہیں- اس کی ایک مثال ہیں محمد توصیف رحمان-

علیم الدین اسٹریٹ کا ایک نوجوان۔ جس نے علاقہ میں آباد واحد بنگالی سین خاندان  کے جذبات اور خواہشات کا احترام کرتے ہوئے درگا پوجا کے اس سلسلے کو بحال کیا جو بیشتر بنگالی خاندانوں کے دوسرے مقامات پر منتقل ہونے کے سبب ٹوٹ گیا تھا- اب وہ ملک کے موجودہ حالات میں نہ صرف مذہبی رواداری کی علامت ہے بلکہ دنیا کے لیے ایک مثال بھی ہے

علیم الدین اسٹریٹ کا نام آتا ہے تو ہر کسی کے ذہن میں کمیونسٹ دور کی یاد تازہ ہوجاتی ہے کیونکہ کمیونسٹوں کا سرخ کہلانے والا سی پی ایم کا ہیڈ کوارٹر یہیں واقع ہے۔ لیکن اب یہ شاہراہ درگا پوجا کےایک پنڈال ایسے پنڈال کےلیے دنیا بھر میں توجہ کا مرکز ہے جو مسلمانوں کے زیر اہتمام ہے۔ پنڈال کی تیاری سے درگا کی مورتی کی خریداری اوروسرجن یعنی کہ بھسان تک کی تمام تر ذمہ داری مسلمان ہی نبھاتے ہیں ۔ بس پوجا کی رسوم کے لیے سین خاندان اوران کے رشتہ دار آتے ہیں ۔

 علیم الدین اسٹریٹ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال بنے اس درگا پوجا پنڈال کا مرکزی کردار محمد توصیف رحمان ہیں ،جن کے مطابق یہ نہ صرف  ہماری ذمہ داری  ہے بلکہ  وقت کی ضرورت بھی۔  میرا ایک اچھا عمل اگر کسی راہ چلتے مسلمان کو احترام دلائے گا تو اس کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ ہمیں ایسے کاموں کے لیے آگے آنا چاہیے جس سے آپس کی دوریاں اور غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں  اور قربت پیدا ہوتی ہے۔ 

 یہ درگا پوجا کا پنڈال کثر المذہب  مہمانوں کا مرکز بھی بنا

توصیف رحمان اس درگا پوجا کے اہتمام کے بارے میں کہتے ہیں اس علاقہ میں ایک وقت کئی بنگالی خاندان آباد تھے۔ وقت کے ساتھ سب آہستہ آہستہ  دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے ۔ جس کے سبب علاقہ میں جس درگا پوجا کا اہتمام ہوتا تھا وہ رک گیا تھا۔ جبکہ علاقہ میں واحد بنگالی خاندان جینتو سین کا رہ گیا تھا۔  جنہوں نے تو صیف رحمان سے اس درد کو بیان کیا کہ تنہا رہ جانے کے سبب یہ ممکن نہیں رہا کہ درگا پوجا کا اہتمام کرسکیں۔ جس پر توصیف  رحمان نے اپنے چند دوستوں سے مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ جو سلسلہ تھم گیا ہے اس کو بحال کیا جائے گا۔ 

 توصیف رحمان نے ’’آواز دی وائس ‘‘ کو بتایا کہ اس پہل کے لیے ہم آگے آئے اور اپنے طور پر درگا پوجا کا اہتمام شروع کیا ۔جس کے لیے علاقہ میں کسی سے چندہ نہیں لیا ۔ جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کو میں بہتر نہیں مانتا کیونکہ اس سے بہت سے لوگوں کو کمتر مانا جانے لگتا  ہے اور چندہ لینے والے پھر انہیں اس رقم سے پرکھنے لگتے ہیں۔ اس لیے ہم نے بہتر سمجھا کہ سب کچھ آپس  میں مل کر کیا جائے۔ وہی ہورہا ہے۔ ایک وقت تھاجب اسپانسر شپ کا  تصور نہیں تھا  اب بہت کچھ بدل چکا ہے لیکن اس کی اسپرٹ پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔

توصیف رحمان اپنے  پوجا پنڈال میں

کولکتہ کی درگا پوجا کی رونق مشہور ہے۔ سب سے اہم  بات یہ ہے کہ ہر علاقہ میں پوجا کے اہتمام میں ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ رہتے آئے ہیں ۔ لیکن یہ بالکل الگ  مثال ہے کہ کسی مسلمان نے بنگالی خاندان کے لیے درگا پوجا کا ہر سال اہتمام کرنے کا عہد کیا ہے۔ 

 توصیف رحمان کہتے ہیں کہ یہ ہماری ملک کی تہذیب ہے،یہی طاقت ہے ۔جو دنیا بھر میں ایک مثال رہی ہے۔ 

 ایک سوال کے جواب میں توصیف رحمان نے کہا کہ کون  کیا سوچتا ہے یہ اہم نہیں ،آپ کی سوچ کیا ہے ،وہ معنی رکھتی ہے۔ اگر میں ایک مسلمان ہوکر درگا پوجا کا اہتمام کر رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرا عقیدہ یا مذہب خطرے میں پڑ گیا۔ ہر کام ممکن ہے  اگر ایک دائرے میں رہ کر کیا جائے ۔ ہم نے اس بارے میں کبھی نہیں سوچا۔سین خاندان سے میں نے کہہ دیا تھا کہ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں ۔ پنڈال سے مورتی اور پنڈت تک کی ذمہ داری  ہماری ہے ۔ آپ لوگ صرف پوجا کی رسوم ادا کرتے وقت موجود رہیں ۔ 

توصیف رحمان کے مطابق کولکتہ یا بنگال  میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوئی نئی بات نہیں ،اس سرزمین  پر ہمیشہ سے امن رہا ہے اور سب ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں شہر میں ہر سال درگا پوجا کے دوران ہر پنڈال میں مسلم خواتین کی بھیڑ نظر آتی ہے۔یہی  ہماری خوبصورتی ہے  جو  ملک بھر کے لیے ایک مثال ہے -

کرکٹ سے کاروبار تک

بقول توصیف رحمان ان کی اسکولنگ سینٹ میریز، رپن اسٹریٹ میں ہوئی۔ آگے چل کر بی کام کیا۔ مجھے بچپن سے ہی کرکٹ کا بہت شوق تھا، اس لیے میں نے اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ میں نے بنگال کے لیے پروفیشنل کرکٹ کھیلی اور دلیپ ٹرافی میں بھی کھیلا۔ لیکن 2007 میں مجھے ایک حادثہ پیش آیا، اور میری دائیں ٹانگ میں ایک بڑا فریکچر ہوا، اس کے بعد میں اپنا میڈیکل ٹیسٹ پاس نہیں کر سکا۔ اس وقت میرے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا شروع میں میں خاندانی کاروبار میں تھا، لیکن مجھے کبھی دلچسپی نہیں تھی -

سماجی خدمات کی پہل 

میں کچھ ہٹ کر کرنا چاہتا تھا۔ تب میں نے  سماجی کام کا آغاز کیا۔ اپنے گھر کے سامنے ایک فریج رکھا تھا، تاکہ ضرورت مندوں کو ٹھنڈا پانی مل سکے -

میں سڑکوں پر بہت سے لوگوں سے ملا جنہیں میں نے محسوس کیا ک انہیں بھی مدد کی ضرورت ہے- میں نے راجا بازار کے کوڑا چننے والوں  کے لیے  کام شروع کیا-

 خاص طور پر خواتین سے، تو میں نے دیکھا کہ بیت الخلاء کا مسئلہ ہے۔ نہروں کے نیچے باتھ روم نہیں تھا، اور یہ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اس لیے میں کسی طرح خواتین کے لیے 70 بیت الخلاء بنانے میں کامیاب ہو گئی، اور 300 بیت الخلاء بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ میرے کام کو تسلیم کیا گیا اور میں نے 2016 اور 2017 میں ایچ ایف ڈی سی سے اصلی ہیرو ایوارڈ' جیتا-

پیغام ہیں جہاں تک پہنچے

میں صرف کولکاتہ کے لوگوں کو ایک سادہ سا پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے جیسے ہیں ویسے ہی رہیں۔ کولکتہ نے ہمیشہ ہر کسی کے ساتھ یکساں سلوک کیا ہے جب بھی بات آتی ہے ہم  ایک مثال ثابت ہونے ہیں،یہ خوبی برقرار رہنی چاہیے - میری یہی دعا ہے کہ ثقافت کو برقرار رکھیں اور معاشرے کے غریب اور غریب طبقے کی مدد کے لیے آگے آئیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ایک اثا ثہ کے طور پر محفوظ رکھیں-