تصوف میں موجود ہے عالمی تنازعات کا حل: ڈاکٹر رفیق انور

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
  ڈاکٹر رفیق انور
ڈاکٹر رفیق انور

 


محمد صفی شمسی، کولکاتہ

ڈاکٹر رفیق انور یہ مانتے ہیں کہ دنیا کے مسائل و تنازعات کا حل تصوف میں موجود ہے۔ اس کے بغیر پرامن بقائے باہمی کو حاصل کرنا مشکل ہے۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر رفیق انور صوفی ازم کے ایک معروف اسکالر ہیں۔ انہوں نے اپنی آنے والی کتاب ' تصوف: انسانیت کا کامل راستہ (Sufism: The Way to Perfect Humanity) میں مذکورہ خیالات کو پیش کیا ہے۔

وہ کائنات کی تخلیق کے تعلق سے الہامی نقطہ نظر کا دفاع سائنسی طرز پر کرتے ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ تصوف میں’نمائش‘کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہرانسان کے اندر صوفی کی خوبیاں موجود ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ روایتی طریقوں پرعمل درآمد ہونا یا رسوم و آداب کی محض پیروی ہی تصوف میں شامل ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اور آج جو کچھ تصوف ہے، اس کا زیادہ ترحصہ اب ویسا نہیں، جیسا ہونا چاہئے۔ یہ ایک یقینی کمزوری ہے۔

ڈاکٹرانورنےبرسہا برس تصوف کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تبلیغ کا مقصد اجتماعی طور پرانسانیت کو بیدار کرنا ہے۔ جب کہ ان کے برعکس اکثر لوگ یہ مانتے ہیں کہ تصوف محض روحانیت کا علم ہے۔

انور کہتے ہیں کہ بڑے صوفیاکرام نے روحانی اور مادی ضروریات کے درمیان توازن قائم رکھنے کی بات کی ہے۔

انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں تصوف اور اس کے مبلغین کو مختلف قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جب کہ مادیت کی تلاش میں روحانی جستجوچھپی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر انور کے خیال کے مطابق آج کی دنیا بہت زیادہ مختلف نہیں ہے کیونکہ یہ ایک انسان کو دوسرے سے ممتاز نہیں کرتی۔ جس فلسفہ کا ہر فرد احترام کرتا ہے وہ دنیا کو ایک بہتر دنیا میں تبدیل کر سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اچھا انسان بنیں دنیا آپ کے قدموں میں ہوگی۔

ان کا کہنا ہے کہ تصوف کے بارے میں بہت زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ رسوم اور مخصوص عقائد کے بارے میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں نے خالق کو مختلف شکلوں میں دریافت کیا۔ جیسے جیسے انسانی ذہنوں نے ترقی کی، ویسے ویسے سب ایک نتیجے پر پہنچے کہ دنیا کا ایک خالق موجود ہے۔ ہرایک اللہ کا بندہ ہے، ہرچیز کی تخلیق کرنے والی قوت  صرف ایک ہے۔ اللہ کی قدرت پر یقین رکھیں اور اچھے کام کریں۔ یہی تصوف ہے۔

 انہوں نے کہا کہ صوفی ازم کا حقیقی پیروکار بغیر کسی نمائش کے دعا کرتا ہے، اچھے کام کرتا ہے، ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتا ہے-

تصوف دراصل کامل انسانیت کا راستہ  ہے، تصوف کی تعلیمات کو آگے بڑھاتے ہوئے،اسے جدید دنیا کے مسائل سے نمٹنے میں مدد لی جاسکی ہے۔ 

تصوف افراد کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔ دس میں سے اگرچھ افراد کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تواس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ باقی چارافراد کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو ان کو بھی برابر کا حق دار سمجھنا چاہیے۔

اس کے بجائے انفرادی کارکردگی کسی شخص کو نسبتاً زیادہ اہم بنا سکتی ہے۔ تاہم تصوف تمام افراد کے احترام کی بات کرتا ہے۔

خالق کائنات نے جو رہنمائی انسان کو ودیت کی ہیں، اس پرچل کرانسان کو خوشگوار اور بہتر زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

ڈاکٹر رفیق انور کی کتاب میں تیسری اہم چیز جس پر بحث کی گئی ہے، وہ عقل اور اس کا استعمال ہے۔

تصوف کی تعلیم 'جیسے کو تیسا'(tit for tat) نہیں  ہے۔ تصوف میں انسان 24 گھنٹے عمل کرتا رہتا ہے، جب کہ انسان عبادت کچھ گھنٹوں کے لیے کرتا ہے، جو اصلاً یاد دہانی ہے۔

ڈاکٹررفیق انور کے مطابق تصوف میں غلطیوں کا بدلہ نہیں لیا جاتا۔ کتاب میں اس کے لیے بھی دلائل پیش کئے گئے ہیں کہ ایک وقت میں ایک معاملہ حل کیا جائے۔

انہوں نےاستدلال کیا ہے کہ تصوف ایک الہامی طاقت کی تلاش کے لیے دراصل ایک سائنسی نقطہ نظر ہے، جس نے کائنات کی تخلیق کی۔ سائنس تخلیق کے پیچھے طاقت یعنی وجہ کو دریافت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سائنس خود تخلیق نہیں کر رہی ہے۔ یہ ایسی چیز دریافت کر رہی ہے جو پہلے سے یہاں موجود ہے۔ تلاش سخت حقائق پر مبنی ہوتے ہیں۔

صوفی ازم اسی کو دل و دماغ سے تلاش کر رہا ہے۔ حقیقی صوفی ازم اور سائنسی تحقیق دونوں کا مقصد تخلیق کے ماخذ کو سمجھنا ہے۔