تصوف ہے شدت پسندی کا تریاق:نصیرالدین چشتی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-02-2021
نصیرالدین چشتی
نصیرالدین چشتی

 

درگاہوں کا ملک کی تعمیر میں ہو سکتا ہے اہم رول

تصوف کے پیغام کو عام کرنے کی اشد ضرورت

مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے صرف مسلمان جاتے ہیں - مندر میں پوجا کرنے صرف ہندو آتے ہیں جبکہ درگاہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ہندو اور مسلمان سبھی آتے ہیں -

آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل کے ماتحت 300 درگاہیں آتی ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں - ہمارا مقصد ہے کہ ملک کی تمام درگاہوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔

درگاہ سے جڑے ہوئے معاملات اورسجادہ نشین حضرات کے مسائل کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے اٹھایا جانا چاہیے- اس کے علاوہ یہ پلیٹ فارم تصوف کی تشہیر میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

آج کل یہ رواج عام ہو گیا ہے کہ کچھ فرضی قسم کے لوگ خود کو مذھبی رہنما یا سجادہ نشین کے طور پر پیش کرتے ہیں - حکومت سے اپیل ہے کہ وہ ایسی کالی بھیڑوں کی پہچان کرے۔

کسی ملک کی ترقی کے لئے امن ایک ناگزیر عامل ہے- گھر میں یکجہتی ہونے سے ہی گھر کی قوت برقرار رہتی ہے- اسی اصول کا اطلاق ملک پر بھی ہوتا ہے- تصوف کاپیغام اور ویڈیو کانفرنسنگ تصوف کے پیغام کولوگوں تک عام کرنے کے لئے صرف ویڈیو کانفرنسنگ کا سہارا نہیں لیا جا سکتا ہے- کیونکہ گاؤں اور دیہات میں بسنے والے لوگوں تک ہمیں یہ پیغام پہنچانے کے لئے خود جانا ہوگا-۔

مذہب کے نام پر کسی کو پریشان کرنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت ہونی چاہیے- اگر پاکستان حکومت اس روش پر چل رہی ہے تو ہمیں اسکی پرزور مذمت کرنی چاہیے- میں کل ہند صوفی سجادہ نشین کونسل کی جانب سے اس کی مذمت کرتا ہوں ۔

آجکل مذہبی اعتبار سے مقدس مقامات کو مسمار کرنے کا ایک نیا رجحان فروغ پا رہا ہے- یہ ہماری آئندہ نسل کے لئے برا شگون ہے- اس روش سے معاشرہ میں باہمی منافرت اور عداوت کا ماحول پیدا ہوگا- انٹرو- نوجوان نسل کو شدت پسندی سے بچانے کے لیے تصوف ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے- ملک میں رہنے والی تمام اقوام کے درمیان باہمی اتحاد سے ہی ملک مضبوط بن سکتا ہے- اس مقصد کے حصول میں درگاہیں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہیں ۔

اسکے لئے ضروری ہے کہ حکومت خود پہل کرے اور درگاہوں کے سجاد نشینوں سمیت مختلف مذہبی زعماء پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مسایل کو حل کرے- ان خیالات کا اظہار اجمیر میں واقع خواجہ غریب نواز درگاہ کے سجادہ نشین اور کل ہند صوفی سجادہ نشین کونسل کےچیئرمین سید نصیرالدین چشتی نے آواز دی وائس ہندی کے مدیر ملک اصغر ہاشمی سے ایک گفتگو کے دوران کیا- پیش ہے ان سے گفتگو کے کچھ اہم نکات۔

سوال- ملک کی نوجوان نسل کو شدت پسندی کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے- انہیں کیسے بچایا جا سکتا ہے- کیا تصوّف اس حوالے سے کوئی رول ادا کر سکتا ہے۔

۹ جواب- آ پکا سوال کافی اہمیت کا حامل ہے- نوجوانوں کو شدت پسندی سے دور رکھنے کے لئے کے نیشنل لیول کی تحریک ناگزیر ہے- اس مقصد کے پیش نظر ہماری کونسل ملک گیر کیمپین کی شروعات کرنے جا رہی ہے- اس کے زریعہ ہم نوجوانوں تک تصوف کے پیغام کو پہونچاینگے- انہیں شدت پسندی سے دور رہنے کی تلقین کی جائے گی- مسلمانوں تک یہ بات پہنچانے کی اشد ضرورت ہے کہ رسالت مآب حضرت محمد ﷺ کے بعد حضرت علی کی شہادت کیسےہوئی

حضرت علی کی شہادت کسی غیرمسلم کے زریعہ نہیں ہوئی- امام حسن اور امام حسین کی بھی شہادت کسی غیرمسلم کے زریعہ نہیں ہوئی- قتل کرنے والے کلمہ گو مسلمان تھے- قابل ذکر بات یہ ہے کہ کلمہ پڑھنے والا کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا- وہ کسی کو تکلیف دینے کی بات نہیں سوچ سکتا- وہ ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل سمجھتا ہے-۔


یہ تمام چیزیں اسلام کے بنیادی اصول کا لازمی حصہ ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ اسلام کے ان اصولوں کو تصوف کے زریعہ لوگوں تک پہنچایا جائے- نوجوانوں تک اس کو یپہنچانے کے لئے ہم نے اپنے پروگرام کا پورا خاکہ تیار کیا ہوا ہے جسے بعد میں پورے ملک میں ایک تحریک کی طرح چلایا جایگا -ملک کی ہر ریاست کا میں خود اپنی ٹیم کے ساتھ دورہ کرونگا اورنوجوانوں کو تصوف کی جانب راغب کرنے اورشدت پسندی سے باز رہنے کی تلقین کرونگا

سوال-ملک میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو سماجی تقسیم کے لئے کوشاں ہیں - ایسے لوگوں پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے اور سماجی ہم آہنگی کے لئے آپکی طرف سے کون کون سی کاوشیں کی جا رہی ہیں ۹

جواب- ملک کے مفاد کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں سے ہی توہم لڑرہے ہیں - جب ہم متحرک ہونگے تو ملک دشمن عناصربے ا ثرہوتے جایئں گے- میں اپنی نوجوان نسل اور باالخصوص ان کے والدین اور گھر کے دوسرے سرپرستوں سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ سوشل میڈیا کے غلط اورغیرضروری استعمال سے بچیں - جذبات بھڑکانے والی پوسٹس کو شیرکرنے سے پہلے اسکی تصدیق کرلیں - اسکے علاوہ ہماری تنظیم سوشل میڈیا کے زریعہ بھی شدت پسند عناصرکو بے نقاب کریگی۔

ملک کے اندر مذہبی بنیادوں پر بننے والی شدت پسند تنظیمیں صرف نوجوانوں کے جذبات کوبھڑکاتیں ہیں - نوجوانوں کی رہنمائی کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ اس قسم کے رہنما اصل میں آپکے دشمن ہیں - اگر کسی شدت پسند گروہ پرحکومت پابندی لگاتی ہے تو اس سے جڑ ے ہوئے تمام نوجوانوں کا مستقبل برباد ہوجاتاہے- اس لئے میں اس چنیل کے زریعہ یہ اپیل کرتا ہوں کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں محتاط رہیں اور کسی بھی تنظیم سے جڑنے سے پہلے تصدیق کرلیں ۔

سوال- خواجہ غریب نواز سے تمام مذاھب کے ماننے والے عقیدت رکھتے ہیں - اس تناظر میں آپ اپنے رول کو کس طرح دیکھتے ہیں ۹

جواب- آپ کے چنیل کے شکریے کے ساتھ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میرا تعلق خواجہ معین الدین چشی کے خانوادے سے ہے- اجمیر کی درگاہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں گنگا جمنی تہذیب کی علامت سمجھی جاتی ہے- اس درگاہ میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی طبقے کے لوگ نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔

آج کے حالات میں جب دونوں اقوام کے درمیان منافرت زیادہ بڑھ گئی ہے، ان درگاہوں کو سماجی ہم آہنگی کے مقصد کے لئے بروے کار لایا جا سکتا ہے- درگاہوں کے توسط سے بھیجا جانے والا امن و آشتی کا پیغام بہت ہی مثبت اثرات مرتب کریگا, کیونکہ درگاہوں سے عقیدت رکھنے والے افراد یہاں سے جاری کئے گئے پیغام کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں ۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان میں ملک دشمن عناصر موجود ہیں جواپنے ذاتی مفادات کے لئے سماجی ہم آہنگی کو پارہ-پارہ کرنے کے درپے ہیں - جب خواجہ غریب نواز ہندوستان میں تشریف لاے تو انہوں نے یہاں کی ثقافت کو اڈوپٹ کیا اور خود کو اس ماحول میں ڈھالا- اپنے اعلی اخلاق سے لوگوں کو متاثرکیا اورعوام محبّت کے پیغام کو قبول کرتے ہوئے اسلام کی جانب مائل ہوئی۔

بعد کے خلفاء نے بھی، چاہے وہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی ہوں یا پھر نظام الدین اولیاء اور بابا فرید ہوں، محبت کے اس پیغام کو جاری رکھا اور درگاہوں کے اندر غریبوں اور مسکینوں کے لئے لنگر کا رواج مزید مستحکم کیا- ہر قسم کے لوگوں کو یہاں بلا لحاظ مذھب، مسلک، زبان، رنگ اور نسل کے کھانا دیا جاتا ہے- درگاہوں کی ان خدمات کی وجہ سے لوگ اس سے بہت محبت کرتے ہیں - اس حقیقت کے پیش نظر لوگوں کے سامنے درگاہ کو ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے جب کبھی بھی فرقہ وارانہ ماحول بگڑے تو اسکا تصفیہ یہاں ہو سکے۔

سوال- ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام نے آپ جیسے مختلف مذہبی رہنماؤں کی مدد سے ایک تنظیم کو بنانے کی کوشش کی تھی تاکہ ملک میں سماجی ہم آہنگی کو قایم رکھا جائے- تنظیم کے اجلاس بھی ہوئے- ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کے انتقال کے بعد تنظیم اب کس حالت میں ہے۔

جواب- یہ پیشکش میرے علم میں لائی گئی تھی لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا- وجہ یہ تھی کہ آزادی کے بعد درگاہوں کی حیثیت میں تبدیلی واقع ہوئی ہے- ہمیں درگاہوں کی حیثیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے- اس ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے ہی میں نے کل ہند صوفی سجادہ نشین کونسل کو قایم کیا- اس کے ماتحت 300 درگاہیں ہیں - کونسل میں ملک کے کونے کونے میں واقع درگاہوں کے ترجمان شامل ہیں ۔

ہمارا مقصد ہے کہ تمام درگاہوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے- درگاہوں اور اسکے سجادہ نشینوں کے بھی اپنے بہت سے مسائل ہوتے ہیں - ان تمام امورکے ساتھ ساتھ تصوف کی اہمیت کو بھی ملک کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے جس کے لئے یہ پلیٹ فارم کافی موزوں ہے- سوال- موجودہ دور کے اندر قومی تعمیر نو میں درگاہوں کا کیا کردار ہو سکتا ہے- جواب- بیشک کوئی بھی بھی قوم یا ملک، امن اسکی ترقی کے لئے لازمی شرط ہے-۔

جب کسی گھرمیں سکون ہوگا توگھرکیافراد مل جل کر کام کرینگے- اسی اصول کا اطلاق ملک پر بھی ہوتا ہے- ہمارا ملک کبھی مذہبی اور کبھی ذات برادری کے مسائل سے دوچار ہے- دوسری جانب دنیا چند پر پہنچ گئی- اس لئے ترقی کے حصول کیلئے مذھبی منافرت ختم کرنی ہوگی- اس مقصد کے حصول کے لئے درگاہیں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہیں - مندر اور مسجد ایسے ادارے ہیں جو امن اور بھائی چارے کا پاٹھ پڑھاتے ہیں لیکن انکی ایک حد ہے- مندر میںصرف ہندو جاتے ہیں اور مسجد میں صرف مسلمان- جبکہ دوسری جانب درگاہوں میں ہر مذہب کے لوگ حاضری دیتے ہیں۔

مذھبی ہم آہنگی کی ایک علامت یہاں کا لنگر ہے جہاں نان ویج کھانے نہیں بنتے- یہاں لنگر میں میٹھے چاول بنتے ہیں جسے ہر دھرم کے لوگ کھا سکتے ہ  -اگر ملک میں مذھبی ہم آہنگی کا دور ختم ہو جائیگا تو تمام باشندگان وطن ایک دوسرے کی طاقت بن جایئں گے- دوسری جانب ہماری حکومتیں یکسوئی کے ساتھ ترقی پر دھیان دیں گی۔