محمد شریف :'سائیکل مکینک' سے 'پدم شری' تک کی کہانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-11-2021
 سماجی کارکن محمد شریف کو ملا  پدم شری ایوارڈ
سماجی کارکن محمد شریف کو ملا پدم شری ایوارڈ

 

 

نئی دہلی :آواز دی وائس 

لاوارث لاشوں کی آخری رسوم کی ادائیگی کے لیے برسوں سے سرخیوں میں رہے ایودھیا کے ممتاز سماجی کارکن محمد شریف نے پیر کو صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند سے پدم شری ایوارڈ وصول کیا۔محمد شریف، ایک سائیکل مکینک سے سماجی کارکن بنے، لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔ راشٹرپتی بھون نے ٹویٹ کیا، "صدر کووند نے سماجی کام کے لیے شری محمد شریف کو پدم شری پیش کیا۔ وہ ایک سائیکل مکینک سے سماجی کارکن ہیں۔ وہ تمام مذاہب کی لاوارث لاشوں کی آخری رسومات پورے وقار کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔پدم شری ایوارڈ ملک کا چوتھا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے۔ پدم ایوارڈ پیش کرنے کی تقریب پیر کو نئی دہلی کے راشٹرپتی بھون میں منعقد ہوئی۔

 پدم ایوارڈز ہندوستان کے اعلیٰ ترین شہری اعزازات میں سے ایک ہیں جن کا اعلان ہر سال یوم جمہوریہ کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ ایوارڈز تین زمروں میں دیئے جاتے ہیں: پدم وبھوشن (غیر معمولی اور ممتاز خدمات کے لئے)، پدم بھوشن (اعلیٰ ترتیب کی ممتاز خدمات) اور پدم شری (ممتاز خدمت)۔

 کیا ہے محمد شریف کی کہانی 

 محمد شریف کی کہانی بھی انسانییت کو جھنجھوڑنے والی ہے ،ان کی زندگی اور ان کی خدمات ایک مثال بن گئی ہے۔ یوں تو مایوس ہونے والے اکثر ہمت ہار جاتے ہیں۔ حالات اور وقت کو کوستے ہیں ۔جب  کسی عزیز کو کھو دیتے ہیں تو زندگی سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ ہم کبھی تلخی اور کبھی افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن پھر کچھ لوگ 'محمد شریف' بھی بن جاتے ہیں۔ 

جس بزرگ کو آپ راشٹر پتی بھون میں صدر جمہوریہ کے ساتھ  دیکھ رہے ہیں انہوں نے اپنی زندگی میں ہزاروں لا وارث لاشوں کی آخری رسوم ادا کی ہیں ۔لاوارث لاشوں کو  بے حر متی کا شکار نہیں ہونے دیا۔ اسی خدمت نے محمد شریف کو خاص بنا دیا ہے۔ محمد شریف ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے ہزاروں لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کی ہیں۔

ایسی لاشوں کی کوئی گنتی نہیں ہے ،خود محمد شریف (اور محلے والوں کے لئے شریف چاچا) بھی یاد نہیں رکھتے ہیں کہ اصل میں یہ تعداد کتنی ہے- ان کا بس یہی موقف رہا کہ اس دنیا کے ہر فرد کی دنیا سے رخصتی عزت کے ساتھ ہونی چاہیے- اگر مرنے والا شخص مسلمان ہے، تو آخری دعا پڑھ کر اسے سپرد خاک کیا جائے اور اگر وہ ہندو ہے تو شمشان گھاٹ میں مکھاگنی دے کر اس کی آخری رسومات پوری کی جائیں

شریف چاچا کے مطابق وہ ان لاوارث لاشوں کو دفنانے یا جلانے کے لئے کسی سے کوئی مالی مدد نہیں لیتے ہیں۔ دراصل یہ طریقہ ہے ان کے غم کو دور کرنے کا- یہی ان کے لئے راحت کا سامان ہے

درحقیقت اترپردیش کے فیض آباد کے شریف چچا نے اپنے ایک 27 سالہ بیٹے 'ریاض' کو ایک حادثے میں کھودیا تھا ۔ شریف چاچا کی ضعیف آنکھوں میں اب اپنے بیٹے ریاض کے لئے ایک دھندھلی سی تصویرباقی ہے - انکا بیٹا جو طبی نمائندے کی نوکری کے لئے شہر سے باہر گیا اورواپس نہیں آیا - ایک مہینے کے بعد ریاض کے لاپتہ ہونے کی خبر آئی اور پھر مہینوں کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش ملی

ایک باپ کے لئے بیٹے کو کھونے کا درد دنیا کے ہر درد سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ محمد شریف زندگی سے مایوس ہونے لگے تھے- پھر ایک دن انہوں نے دیکھا کہ پولیس کسی لاوارث لاش کو ندی میں پھینک رہی تھی۔ انہیں شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اگر ان کے بیٹے کی لاش نہ ملتی تو وہ بھی اسی طرح کسی ندی میں پھینک دی جاتی- محمد شریف نے عزم کیا کہ کسی کے بیٹے یا بیٹی کی لاش کی اس طرح بے حرمتی نہیں ہوگی اور ہر ایک کو اپنے حصہ کی مٹی نصیب ہوگی

پھرانہوں نے اس کے بارے میں پولیس سے بات کی اور درخوست کی کہ وہ خود ان لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنا چاہتے ہیں۔

اگر کسی ریلوے پٹری پر کوئی لاش ملی ہو یا کوئی سڑک حادثے میں ہلاک ہو گیا ہو اور کوئی تین دنوں تک اسے ڈھونڈنے یا دعویٰ کرنے نہ آے تو اس کی آخری رسومات ادا کرنے کی ذمہ داری ان کی ہوگی

اس حادثے کو گزرے ہوئے بیس سال ہو چکے ہیں-اب تک وہ ہزاروں لاشوں کی آخری رسومات ادا کے چکے ہیں- ابتدا میں تو ان کے اہل خانہ اور رشتے دار اس بات کے خلاف تھے - کچھ لوگوں نے انھیں پاگل کہنا شروع کر دیا تھا- لیکن محمد شریف چٹان کی طرح اپنے ارادے پر کار بند ہیں۔

ایک وقت وہ بے حد بیمار تھے تو اخبارات میں خبروں کے بعد سرکاری طور پر ان کی مدد کی گئی تھی۔انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

بعدازاں حکومت نے ان کی انسانی خدمات کو تسلیم کیا اور پدم شری کا ایورڈ دینے کا اعلان کیا ۔

یقینا محمد شریف کے لیے ان کی زندگی کا سب سے اہم اور بڑا لمحہ تھا جب ملک کے صدر جمہوریہ نے انہیں پدم شری سے نوازا ۔آج وہ وہیلز چئیر پر ہیں،مگرحوصلہ اب بھی بلند ہیں،وہ چاہتے ہیں کہ ان کا پیغام اب نوجوانوں کو انسانی خدمت کا راستہ دکھائے۔ اس مشن کو نئی نسل اپنی اپنی سطح پر جاری رکھے۔