منصورالدین فریدی ۔ نئی دہلی/ریاض
دنیا میں استقبال کے نام پر ہمیشہ ’سرخ قالین ‘ کا ذکر ہوتا ہے۔ کوئی رہنما ہو یا پھر کوئی اور بڑی شخصیت کب جہاز سے اترتا ہے تو اس کی راہ میں سرخ قالین یا ’ریڈ کارپٹ بچھا ہوتا ہے۔اس کو ایک اعزاز مانا جاتا ہے۔ایک شاہی استقبال کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن بدلتی دنیا میں بدلتے سعودی عرب نے ’سرخ قالین ‘ ہی بدل دیا ہے۔اب سعودی عرب میں مہمانوں کا استقبال سرخ نہیں بلکہ ’جامنی‘ یا ’ بنفشئی‘رنگ کا قالین بچھانے کا آغاز کردیا ہے۔ دیگر ممالک کے سربراہ، وزرا، سفرا اور نمائندوں کے سرکاری استقبال کے لئے اس کا استعمال شروع ہوگیا ہے۔
اس بڑی تبدیلی کا آغاز رمضان المبارک کے دوران ہوچکا ہے اور سعودی عرب کا دورہ کرنے والوں کو اس کا تجربہ بھی ہوگیا ہے۔اب سرکاری مہمانوں نے اس تبدیلی کو آنکھوں کی ٹھنڈ ک مانتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرنا شروع کردیا ہے۔
اب تک یہی کہا جارہا تھا کہ سعودی عرب اب بڑی تبدیلیوں کے ساتھ دنیا کے ہمراہ کھڑا ہورہا ہے مگر اب توسعودی عرب نے دنیا کے روایتی اندازوں کو بھی بدلنا شروع کردیا ہے۔پچھلے دنوں جب ابوظبی کے ولی عہد اور یو اے ای کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر شیخ محمد بن زاید سعودی عرب کے سرکاری دورے پر جدہ پہنچے تو ان کا استقبال روایتی ریڈ کارپٹ کی بجائے جامنی رنگ کے قالین بچھا کر کیا گیا۔تب دنیا کو سعودی عرب کے ’سرپرائز‘کا احساس ہوا۔
صحرا میں کھلتے بنفشئی پھولوں کی چادر
بنفشئی یا جامنی کارپٹ سعودی صحراؤں اور موسم بہار کے زمانے میں سعودی پہاڑوں اور پہاڑیوں کے رنگ سے میل کھاتا ہے۔موسم بہار کے زمانے میں سعودی عرب کے پہاڑی علاقے بنفشئی رنگ کے پھولوں سے سج جاتے ہیں۔
صحرا میں کھلے پھول جو جامنی چادر کی مانند نظر آرہے ہیں
یہ ثقافت کا حصہ ہے
بنفشئی کارپٹ کو سعودی ثقافت میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں عوامی ہنرمند عام طور پر ہاتھ سے بنفشئی کارپٹ تیار کرتے ہیں۔بنفشئی کارپٹ کا انتخاب سعودی وزارت ثقافت اور شاہی پروٹوکول نے مل کر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنفشئی کارپٹ کا انتخاب اپنے قدرتی ماحول سے متاثر ہوکر کیا گیا ہے- موسم بہار کے دوران سعودی عرب کے ریگستان اور اس کے پہاڑی علاقے الخزامی پھول کے رنگ سے سج جاتے ہیں- یہ بنفشئی رنگ کا ہوتا ہے- علاوہ ازیں موسم بہار کے دوران مملکت میں کئی ایسے پھول بڑے پیمانے پر کھلتے ہیں جن کا رنگ بنفشئی ہوتاہے۔سعودی عوام میں بنفشئی رنگ بے حد پسند کیا جاتا ہے- اس سے مقامی خواتین و حضرات مختلف قسم کی آرائشی اشیا تیار کرتے ہیں۔
یہ آسکر کی دین تھا
اب سوال یہ ہے کہ سرخ قالین کا چلن کہاں سے آیا تھا۔ اگر جدید دور میں سرخ قالین کی بات کی جائے تو تقریبا 200 سال قبل سنہ 1821 میں امریکا کے پانچویں صدرجیمز مونر کے اندرون ملک دورے پر استقبال کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔
ہالی ووڈ نے آسکر میں معروف اداکاروں کے استقبال کے لئے 1922 میں سرخ قالین کا استعمال کیا تو اس کے بعد یہ ایسا بچھا کہ پوری دنیا میں بچھتا چلا گیا۔یوں سرخ قالین صدور اور معزز شخصیات کے استقبال کے لئے ایک فیشن بن گیا۔اس کے علاوہ ریڈ کارپٹ ہوٹلوں اور لگژری مقامات میں بھی ایک خوش آئند علامت کا درجہ اختیارکرگیا ہے۔
دنیا کو ہے قبول
اس تبدیلی کو اب آہستہ آہستہ محسوں کیا جانے لگا ہے۔ خبروں کے ساتھ تصاویر کا سلسلہ جاری ہے اور جو مہمان آرہے ہیں انہیں آنکھوں میں اس ٹھنڈک کا احساس ہورہا ہے جو جامنی رنگ سے محسوس ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں متعین فرانسیسی سفیر لوڈوک بوی نے سرکاری مہمانوں کے استقبالیہ پروٹوکول کارپٹ کے لئے بنفشئی رنگ کے انتخاب پر سعودی عرب کو سراہا ہے۔اخبار 24 کے مطابق فرانسیسی سفیر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ’بنفشئی کارپٹ کا انتخاب عمدہ ہے بہت خوب یہ تو میرا پسندیدہ رنگ ہے۔فرانسیسی سفیر نے ٹویٹ کے ساتھ دو تصاویر شیئر کی ہیں جن میں سے ایک فرانس کے بنفشئی رنگ والے پھولوں سے سجے زرعی فارم کی ہے اور دوسری تصویر موسم بہار کے دوران بنفشئی رنگ کے پھولوں سے سجے سعودی صحرا کی ہے-
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان حالیہ دورے میں سعودی عرب میں جامنی قالین کا تجربہ کیا
من وحي تراثنا الطبيعي، تطبع زهرة الخزامى لونها الأخّاذ على سجاد مراسم الاستقبال.#وزارة_الثقافة pic.twitter.com/BKjziQfcyT
— وزارة الثقافة (@MOCSaudi) May 5, 2021