ساحر لدھیانوی : ادب اور فلم کے آئینہ میں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-03-2023
ساحر لدھیانوی : ادب اور فلم کے آئینہ میں
ساحر لدھیانوی : ادب اور فلم کے آئینہ میں

 

رضوانہ پروین


ساحر لدھیانوی کی ولادت8مارچ1921 کو لدھیانے کے ایک زمیندار خاندان میں ہوئی۔ ساحر کے والد کا نام فضل محمد اور والدہ کا نام سردار بیگم تھا۔ کہاجاتا ہے کہ قرآن مجید سے دیکھ کر والد نے ساحر کا نام عبد الحی رکھا تھا۔ اس لحاظ سے ساحر کا اصلی نام عبدالحی اور قلمی نام ساحر لدھیانوی ہوا۔ ساحر لدھیانو ی ایک زمیندار خاندان کے واحد چشم و چراغ ہونے کے باوجود عام انسانوں سی سادہ زندگی گزاری۔ اس کا سبب ان کے والد کا تعیش پسندانہ اور حاکمانہ مزاج تھا۔ ساحر لدھیانوی کی ابتدائی تعلیم لدھیانے میں بڑے ہی غیر محفوظ ماحول میں ہوئی۔ اپنے والد کے غیر قانونی اقدام کے تحت ساحر کی والدہ کے عدم تحفظ کا احساس جب مستحکم ہوتا گیا تو اس کا براہ راست اثر ساحر لدھیانوی کی زندگی پر پڑا۔ ساحر کی پرورش اور تعلیم اُن کی والدہ کے زیر سایہ ہوتی رہی۔ والد کی محبت و شفقت انھیں نہ ملی۔اسکول میں مولانا فیاض ہریانوی کی تربیت میں انھوں نے اردو فارسی کا علم حاصل کیا۔ پنجابی ان کی علاقائی اور مادری زبان تھی اور انگریزی زبان اسکول میں لازمی تھی۔ 
ساحر بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے۔ چوتھی جماعت میں ہی وہ اپنے ماموں کے وسیلے سے علامہ اقبال کی بالِ جبریل مکمل پڑھ چکے تھے۔ 1937 میں میٹرک کا امتحان دینے کے بعد فرصت کے اوقات میں شعر گوئی کی جانب راغب ہوئے۔ ابتداً انھوں نے نظمیں کہیں۔ میٹرک پاس کرلینے کے بعد1938 میں ساحر گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں منتقل ہوگئے۔اس کالج میں گزرے پانچ سال ساحر کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 
کالج کے زمانے میں ہی ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کی طلبہ تنظیم آل انڈیا اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے ساحر کے روابط استوار ہوچکے تھے۔ اس طرح ساحر کو اپنے احساسات و خیالات و جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ مل گیا تھا۔ ساحر اپنی نو عمری میں ہی اشتراکی نقطۂ نظر سے نا صرف متاثر ہوئے بلکہ بڑھ چڑھ کر اس نقطۂ نظر کی ترسیل کی۔ اپنی نظموں اور تقریروں میں بھی۔
ساحر پہلے شاعر نہیں جن کا تعلق زمیندار خاندان سے ہو، لیکن وہ پہلے شاعر ان معنوں میں ضرور ہیں جس نے زمیندار خاندان کے چشم و چراغ ہونے کے باوجود کھرے کھوٹے انداز میں اس ماحول و معاشرت کی دھجیاں اڑائی ہوں۔
ساحر لدھیانوی یوں تو کالج کے دنوں میں نعرے لگانے اور پوسٹر لکھنے جیسے جذباتی کاموں میں پیش پیش رہتے ہی تھے لیکن 1939 سے اُن کی تحریریں باضابطہ رسائل میں شائع بھی ہونے لگی تھیں۔ اُن کی ایک نظم’شعلہ نوائی‘ 1939 میں ہفتہ وار ’افغاں‘ بمبئی میں شائع ہوئی تھی، جو کافی مقبول ہوئی۔ ساحر ابتداً اے ایچ ساحر کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ ساحر نے اپنے لیے تخلص کا انتخاب علامہ اقبال کے لکھے ہوئے مرثیہ’مرثیہ داغ ‘کے اس شعر سے کیا:
اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی
سیکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحب اعجاز بھی
اس طرح وہ چودھری عبد الحی سے ساحر لدھیانوی ہوگئے۔ ساحر نسباً اور مزاجاً پورے پنجابی تھے۔ وہ لدھیانے میں پیدا ہوئے اور زندگی کے تئیس چوبیس سال اس شہر میں گزارے۔ یہ دور ساحر کی شخصیت اور تعمیر کے لحاظ سے تشکیلی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی دیار میں انھوں نے ہوش سنبھالا، تعلیم حاصل کی، عاشقی کی، شاعر ہوئے اور عملی زندگی میں بھی قدم جمانے کے لیے جد و جہد کی۔ انسان اور شاعر کی حیثیت سے جو چھاپ پنجاب نے ساحر پر لگائی وہ انمٹ اور مستقل ثابت ہوئی۔ جس کا اظہار ساحر نے اپنی ایک نظم’’اے نئی نسل!‘‘ میں بخوبی کیا ہے:
یہیں منکر بنے روایت کے
یہیں توڑے روایت کے اصنام
یہیں نکھرا تھا ذوق نغمہ گری
یہیں اترا تھا شعر کا الہام
میں جہاں بھی رہا یہیں کا رہا
مجھ کو بھولے نہیں ہیں یہ در و بام
نام میرا جہاں جہاں پہنچا
ساتھ پہنچا ہے اس دیار کا نام
یہ نظم در اصل ساحر نے اپنی مادر علمی گورنمنٹ کالج لدھیانہ کی گولڈن جبلی تقریب کے لیے لکھی تھی۔ اس تقریب میں ساحر کو گولڈ مڈل سے بھی نوازا گیا تھا۔ درج بالا اشعار سے شاعر کی اپنی مادر علمی کے ساتھ ساتھ اُس کی والہانہ وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کی کامیاب اور مقبول نظم ’تاج محل‘ ہے جس کے سبب ساحر راتوں رات شاعر بن گئے۔ اس نظم کا آخری بند قابل توجہ ہے جس نے ہر کس و ناکس کی توجہ اپنی جانب کھینچی اور یہ نظم ساحر کی مقبولیت کا اولیّن زینہ بنی ملاحظہ ہو:
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارا یہ محل
یہ منقش درو دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
(تاج محل)
1944 میں ساحر لدھیانوی کا پہلا شعری مجموعہ’تلخیاں‘ شائع ہوا۔ اس مجموعے پر قومی جنگ(نیا زمانہ بمبئی) میں تبصرہ بھی شائع ہوا۔ اور بہت پذیرائی ہوئی۔ اسی زمانے میں ساحر نے ’ادب لطیف‘ کی ادارت سنبھالی۔ ادب لطیف کے اداریے اور تبصرے کی بدولت ساحر ادباء و شعرا میں کافی مقبول ہوئے اور ان کا حلقہ بڑھتا گیا۔
اکتوبر1945 میں حیدر آباد میں ترقی پسند مصنّفین کی پانچویں کل ہند کانفرنس کا انعقاد ہوا تو ساحر کو مقالہ نگار کی حیثیت سے مدعو کیا گیا۔ ساحر نے ’اُردو کی جدید انقلابی شاعری‘ پر اپنا مقالہ پیش کیا جسے بہت پسند کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ معتبر اور مقتدر ترقی پسندوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ چنانچہ کانفرنس کے اختتام پر ساحر ترقی پسند ادبا کی ایما پر لاہور کے بجائے بمبئی چلے آئے۔ بمبئی جو اُس زمانے میں ترقی پسند ادباء اور شعراء کا مستقر بنی ہوئی تھی۔ وہاں ساحر کو ذریعہ معاش کی تلاش اور فلموں سے وابستہ ہونے کاموقع ملا۔
بمبئی پہنچنے کے بعد ساحر کرشن چندر کے یہاں ٹھہرکر فلموں کے لیے جد و جہد کرتے رہے۔ قسمت نے ساتھ دیا اور بہت جلد موسیقار ایس ڈی برمن کی سفارش پر فلم ’آزادی کی راہ‘ کے لیے پہلا بریک ملا۔ اس فلم کے لیے جو نغمہ ساحرنے لکھا اُس کے بول تھے’ بدل رہی ہے یہ زندگی‘ ان کی دوسری فلم ’نوجوان‘ تھی جس کے نغمے کے بول تھے ’ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں‘ اس کے بعد فلم بازی کا مقبول و معروف نغمہ’تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنالے اپنے پہ بھروسہ ہے تو داؤ لگالے‘لکھا۔ اس نغمے کی کامیابی کے بعد پھرساحر نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یہ وہ دور تھا جب ساحر فلمی نغمے لکھنے میں اس قدر منہمک ہوگئے تھے کہ اُن کے پاس تخلیق ادب کے لیے زیادہ وقت نہ تھا۔ اُن کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے فلمی نغموں کو ایک معیار عطاکیا۔ 
اُس وقت شاعری میں آرزو لکھنوی، شکیل بدایونی، پریم دھون، مجروح سلطان پوری اور راجندر کرشن وغیرہ فلمی گانوں کو ادبی معیار کے قریب لانے کی کوشش کررہے تھے۔
بیسویں صدی کے پانچویں دہے میں ساحر نے نہ صرف عوام اور فلمی اورغیر فلمی ہستیوں کو شاعری کی عظمت کا احساس دلایا بلکہ نغمہ نگاروں کے حقوق کی بحالی کے لیے جو قابل رشک کارنامہ انجام دیے اس کے لیے نغمہ نگار ان کے منّت کش رہیں گے۔ ساحر سے قبل فلمی پوسٹر وں پر صرف موسیقار کے نام لکھنے کی روایت تھی ساحر نے اس حق تلفی کے خلاف آواز بلند کی۔ اس زمانے میں ریڈیو سے نشر ہونے والے نغموں میں صرف موسیقار اور گلوکار کا نام ہی لیاجاتا تھا بعد میں ساحر کی کوششوں سے نغمہ نویس کا نام بھی شامل کیا جانے لگا۔
ساحر لدھیانوی کی شعری تصانیف کی تعداد کل چار ہے جن میں تلخیاں، پرچھائیاں،گاتا جائے بنجارا اور آؤ کہ کوئی خواب بنیں، شامل ہیں۔
’تلخیاں‘ ساحر لدھیانوی کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو 1944-45 میں ہی شائع ہوکر مقبول عام ہوا۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے تیئس جائز اور ناجائز ایڈیشن شائع ہوئے۔
ساحر لدھیانوی کی نظم’پرچھائیاں‘ بین الاقوامی امن کے موضوع پر لکھی گئی ایک طویل نظم ہے۔ یہ پہلی دفعہ1955 میں کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ اب یہ نظم ساحر کے دوسرے مجموعہ کلام’آؤ کہ کوئی خواب بنیں‘ میں مستقل طور پر شامل ہے۔
’گاتا جائے بنجارا‘ ساحر کا مشہور و مقبول فلمی نغموں کا مجموعہ ہے، جسے ساحر نے خود ترتیب دیا ہے۔ اس کی پہلی اشاعت1958 میں ہوئی۔ یہ کتاب اُردو شاعری میں پہلی مثال ہے کہ کس نغمہ نگار نے اپنے فلمی نغموں کو کتابی صورت عطا کی ہو۔ بہر حال ساحر کے چوتھے مجموعہ کلام’آؤ کہ کوئی خواب بنیں‘ کا پہلا ایڈیشن1971 میں منظر عام پر آیا اور تیسرا اور آخری ایڈیشن1979 میں شائع ہوا۔
ساحر کے یہاں جدت کا جو رجحان ہے وہ فلم ’بازی‘ میں اور نمایاں ہوا۔’جو تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنالے‘ اور ’گجر کے گانے‘ سے مترشح ہے۔ ساحر کی فلمی شاعری کا زمانہ جاگ اٹھا ہندوستان (فلم: آزادی کی راہ پر)‘ ’ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں‘(نوجوان1955) ہے ’لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں‘(انصاف کا ترازو 1980) تک کم و بیش تیس سالوں پر محیط ہے۔ ان تیس برسوں میں ساحر نے کبھی بھی اپنے نظریات اور مسلک سے گریز نہیں کیا۔ بلکہ دوہے، گیت، نظم، غزل میں زندگی اور سماج سے متعلق مختلف موضوعات کو سمیٹا ہے۔
اُردو میں ساحر لدھیانوی واحد شاعر ہیں جنھوں نے اپنی شاعری میں تخلص کا استعمال کہیں نہیں کیا ہے۔ ساحر کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری، کو ایک منفرد انداز عطا کیا۔ عربی فارسی کے ادق الفاظ سے پرہیز کر آسان الفاظ کا انتخاب جس سے اُن کی شاعری خاص و عام کے لیے یکساں دلچسپی کا سامان بنی۔ زبان کی سلاست کے سبب اُن کی شاعری میں جمالیاتی حسن و نکھار پیدا ہوا۔ سادگی، رعایت لفظی، اسلوبیاتی جدّت نے اُن کی شاعری کو ایک منفردانداز عطا کیا۔
ساحر لدھیانوی ایک خوش مزاج ، خوش باش اور خوش پوش شخصیت کا نام ہے۔ خوش گفتاری اور مہمان نوازی اُن کی شخصیت کے اہم پہلو ہیں۔ وہ ایک سادہ معصوم اور بامروّت انسان تھے۔ سادگی اُن میں اس قدر تھی کہ وہ ہمیشہ سفید براق قمیص اور پتلون میں ملبوس نظر آتے تھے۔ اُن کی گاڑی کا رنگ بھی سفید ہی تھا۔ کوئی میل اُن پرچڑھی ہی نہ تھی۔
ساحر لدھیانوی اُن گنے چنے نامور شعراء میں ہیں جسے اپنی زندگی میں ہی مقبولیت حاصل ہوچکی تھی۔بہر حال ساحر کے نغموں میں جہاں ناکام محبت کا درد اور محبوب سے والہانہ محبّت کی کسک نظر آتی ہے وہیں ان کے یہاں احتجاج،تلخی،اور کڑواہٹ بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔وہ درد مند دل کے مالک تھے لہٰذاانسانیت اور انسانی حقوق کی پامالی کے سبب ان کے قلم سے وہ کڑواہٹ اور ترشی اشعار اور بعض اوقات نغمے کی صورت میں نکلیں جس سے فلمی دنیا ہی نہیں بلکہ ادب میں بھی ایک مقام و مرتبہ حاصل ہوا۔چونکہ ساحر کو دنیا میں تلخیوں کا سامنا ہوا تھا۔انھیں محبّت میں ناکامی ملی تھی۔ذات اور مذہب کے نام پر انھیں اپنی محبّت قربان کرنی پڑی اور دل پر پتھّر رکھ کر انھیں یہ کہنا پڑا ؂
چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی 
اور کبھی سنجیدہ ہو کر زندگی کے فلسفے کو یوں بیان کرتے ہیں ؂
ایک پل کی پلک پر ہے ٹھہری ہوئی یہ دنیا
ایک پلک جھپکنے تک ہر کھیل سہانا ہے
ساحرنے نہ صرف مقبولیت بلکہ دولت بھی خوب کمائی۔ نیز بے شمار انعامات و اعزازات سے نوازے گئے۔ 1972 میں مہاراشٹر حکومت نے انھیں جسٹس آف دی پیس نامزد کیا۔ اُن کے مجموعہ کلام’آؤ کہ کوئی خواب بنیں‘ پر1972 میں اردو اکادمی مہاراشٹر اسٹیٹ لٹریری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جواہر لال نہرو(ہندوستان کے سابق وزیر اعظم) کی وفات پر لکھی گئی ساحر کی نظم کو ان کے مجسمے کے نیچے نصب کیاگیا۔ 1977 میں حکومت پنجاب نے ساحر کو شرومنی اُردو ساہتیہ کار قرار دیتے ہوئے گولڈ میڈل، ابھی نندن گرنتھ سرو ہال(شال) اور نقد رقم سے نوازا۔ اُن کے انتقال کے بعد پنجاب زراعتی یونیورسٹی لدھیانہ نے ایک خوبصورت پھول کا نام گُلِ ساحر رکھا۔ وفات سے قبل انھیں پدم شری ایوارڈ سے نوازاگیا تھا۔
ساحر لدھیانوی کی مقبولیت کا ایک اہم ثبوت ہے اُن کے کلام کے مجموعوں کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوئے اور مقبول ہوئے۔ انھیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ اُن کی شاعری کے نہ صرف ہندوستان کی کئی زبانوں بلکہ انگریزی، فرانسیسی، چیک، روسی، فارسی و عربی جیسی بین الاقوامی زبانوں میں ترجمے کیے گئے اور مقبول ہوئے۔
بمبئی میں رہتے ہوئے ساحر لدھیانوی ادبی اور فلمی دونوں دنیا میں بے حد مقبول و معروف ہوئے۔ یہ ضرور ہے کہ زندگی کے ان ایّام میں دولت و شہرت نے بڑھ کر اُن کی قدم بوسی کی۔ لیکن وہ اپنی نجی اور خانگی زندگی سے بڑی حد تک بے زار رہے۔ اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کا انھیں موقع ہی نہ ملا۔ ممکن ہے کہ اپنے والدین کے انتہائی تلخ اور ازدواجی تعلقات اور خود پچھلے ناکام معاشقوں اور تجربات کے زیر اثر ساحر گھر بسانے اور دنیا میں اپنا خاندان یا اپنی نسل چھوڑجانے کی فطری انسانی خواہش کو پورا کرنے کی طرف مائل نہ ہوئے اور یوں وہ پوری عمر مجرّد اور کنوارے ہی رہے۔
25 اکتوبر1980 کی شب میں دس بجے بمبئی کے ورسوا میں اپنے فیملی ڈاکٹر کپور کے گھر علاج کی غرض سے آئے ہوئے تھے اور وہیں دل کے دورے کا خدشہ ہوا اور انتقال کر گئے۔