رمضان اور نوراتری: ہندو مسلم ہم آہنگی کے فروغ کا نادر موقع

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-04-2021
رمضان اور نوراتری  ہندو مسلم ہم آہنگی کے فروغ کا نادر موقع ہے
رمضان اور نوراتری ہندو مسلم ہم آہنگی کے فروغ کا نادر موقع ہے

 

 

راوی دویویدی

دو مختلف مذاہب اور دو مختلف مذہبی عقائد اور روایات کو ماننے والے افراد ۔ رمضان المبارک کے دوران روزہ رکھنا اور نوراتری پر رکھا جانے والا ورت، ویسے تو ایک دوسرے سے کچھ مختلف ہیں ، لیکن ان دونوں میں قواعد اور ضوابط پر اتنی زیادہ شدت سے عمل ہوتا ہے کہ یہ کسی سادھنا سے کم نہیں معلوم ہوتا- اس عمل کو کرتے ہوئے لوگوں کے اندر موجود مذہب کا درد ، انہیں مزید نرم دل اور حساس بناتا ہے۔ صحت کے اعتبار سے دیکھیں تو روزے اور ورت کی افادیت خاصی اہم ہے۔ یہ سخت نظم و نسق کی پابندی کے ساتھ کیا جانے والا عمل ایک دوسرے کے لئے احترام کے جذبے اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے ۔ اس بار تو رمضان المبارک اور نوراتری کا مہینہ ایک ساتھ ہی آرہا ہے۔

 طہارت پر ہوتا ہے خصوصی زور

روایات کے مطابق کہ نوراتری کی عبادت ویدک عہد سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی ، جبکہ رمضان المبارک کا آغاز چھٹی صدی سے اسلام کے مقدس مہینے طور پر اس وقت ہوا جب پیغنبر اسلام پر قرآن کا نزول ہوا ۔ دونوں تہواروں کی تاریخوں کا تعین قمری بنیاد پر ہوتا ہے۔ دونوں تہوار میں جسمانی ، ذہنی اور روحانی تزکیہ پر زور دیا جاتا ہے۔ عقائد اور عبادت ماحول کی وجہ سے ، لوگ اپنے رب سے پہلے سے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں جبکہ قواعد اور ضوابط پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انہیں جسمانی اور ذہنی پاکیزگی بھی میسر آتی ہے ۔ اسلام میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ روزے رکھنے کا مطلب صرف صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہوتا بلکہ نفرت کو دل نکالنے ، لالچ یا جھوٹ سے پرہیز کرنے کا نام روزہ ہے۔ نوراتری کے دوران بھی بری عادتیں ترک کرنا ، سادہ زندگی گزارنا اور کسی کو تکلیف نہ پہنچنا مذہبی عمل کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔

 فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک مثال

اگر آپ سیاسی جماعتوں کی افطار پارٹیوں کو کچھ دیر کے لئے نظر انداز کر دیں تو آپ اپنی گلی محلوں میں ہی ایسے ہندو مل جائیں گے کہ رمضان کے مہینے میں مسلمان بھائیوں کے لئے افطارکی دعوت کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ان کی نظر میں یہ انتہائی مبارک کام ہے۔ دوسری طرف ، آپ کو ایسے مسلمان بھی ملیں گے ، جو اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ پوری عقیدت کے ساتھ نوراتری کے روزہ رکھتے ہیں ۔ اگرچہ فرقہ وارانہ ٹکراو کی خبریں گاہے بہ گاہے آتی رہتی ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں خاص طور پر نوجوانوں میں مل جل کر روزے رکھنے اور نوراترا کا ورت رکھنے کا چلن فروغ پا رہا ہے ۔ سوشل میڈیا نے بھی ان نوجوانوں کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پچھلے سال سوشل میڈیا پر آنے والی ایک رپورٹ کو ہم آہنگی کی انوکھی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔

 واقعہ کچھ یوں ہے کہ جموں سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان سماجی اور سیاسی کارکن کشمیر میں اس وقت پھنس گیا جب گذشتہ سال لاک ڈاؤن شروع ہوا ۔ وہاں اسے ایک مقامی مسلمان کنبہ نے پناہ تو دی ہی ساتھ ہی جب نوراتری کا تہوار شروع ہوا ، تو اس کنبے نے اس کے لئے پوجا اور پھلوں کا انتظام بھی کیا ۔ نوجوان تقریبا 40 دن تک کنبے کے ساتھ ہی رہا ۔ چنانچہ کچھ دنوں بعد شروع ہونے والے رمضان المبارک کے دوران اسے روزہ کی اہمیت کو گہرائی سے سمجھنے کا موقع ملا ۔ آج کل بنگال انتخابات میں فرقہ وارانہ مسائل ایک اہم انتخابی موضوع ہے ، لیکن دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ دسہرہ سے پہلے ہونے والے شردیہ نوراترا جسے یہاں درگا پوجا کے طور پر بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے ، دونوں مذاہب کے لوگوں کی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ ماں درگا کی مورتیوں سے لے کر پوجا کے پانڈآل کو سجانے اور یہاں تک کہ کئی مقامات کے مکمل انتظام کی ذمہ داری مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔

روزگار کا موقع بھی موجود ہوتا ہے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال بننے والے یہ دونوں تہوار دونوں مذاہب کے لوگوں کو نہ صرف ایک دوسرے سے قریب کر رہے ہیں بلکہ معاشرہ کے لئے روزگار کا بھی ایک اہم ذریعہ ہیں ۔ ویسے بھی ہمارے یہاں ایک عام تا ثر ہے کہ ملک میں تہواروں کو دھوم دھام سے منانے کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی کار فرما ہوتا ہے کہ ایک ایسی آبادی جس کے پاس روزگار کے محدود وسایل ہیں اسے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں ۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف مورتی بنانے کا ہی ہی نہیں بلکہ ماتا کو چڑھا ے جانے والے دیگر سامانوں کو بھی مسلم تیار کرتے ہیں ۔ دوسری طرف ، ہندو کاریگروں کے بنا تو عید کی سیوئیوں کی مٹھاس ادھوری رہتی ہے ۔ لکھنؤ ، کانپور ، بنارس ، الہ آباد جیسے شہروں میں ہندو کاریگروں کی ایک بڑی تعداد میں تین ماہ قبل سے ہی اپنی خدمات انجام دینا شروع کر دیتی ہے ۔ یہ کام نسل در نسل جاری ہے ۔

کھان پان میں ہی صحت کا راز پوشیدہ ہے رمضان ہو یا نوراتری کھان پان سے متعلق قواعد و ضوابط صحت کے معاملے میں بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اس میں خاص طور پر تین چیزوں پر زور دیا جاتا ہے ، ایک تو کھانا کم خیا جائے ، لمبے وقفے تک کچھ نہ کھا یا جائے ، اور جو کھایا جاتا ہے وہ سادہ اور غذائیت سے بھرپور ہو ۔ سائنسی اعتبار سے ہمیشہ ہی یہ اختلاف موجود رہا ہے کہ آیا روزہ صحت کے لئے فائدہ مند ہے یا نہیں۔ بہت سے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ روزہ دل ، دماغ اور نظام انہضام کے لئے اچھا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ آٹھ ہفتوں تک ایک دن کے وقفے سے روزے رکھنے سے خراب کولیسٹرول کے خطرے میں 25 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔ روزے میں کھجور اور ورت میں سیندھا نمک کا استعمال اس طرح ہوتا ہے کہ اس کے بغیر تو یہ تہوار نامکمل معلوم ہوتے ہیں ۔ اگر ہم ان دو چیزوں کے بارے میں بات کریں تو پھر انھیں اپنے آپ میں ہی علاج کہا جاسکتا ہے۔ آیور وید میں کھجور کو غذائیت سے بھرپور ، طاقت بڑھانے والا کہا جاتا ہے۔ معدنیات ، فائبر اور وٹامنز سے بھرپور کھجوریں ایک مکمل غذا سمجھی جاتی ہیں۔ کھجوروں کے ساتھ روزہ افطار کرنے پر زور دیتے ہوئے قرآن پاک کہتا ہے کہ جو شخص کھجوروں کے ساتھ روزہ افطار کرے گا اس کے گھر میں برکت ہوگی۔ سیندھا نمک کی بات کریں تو یہ کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ اس میں عام نمک سے کم سوڈیم کلورائد ہوتا ہے اور اس میں لوہے ، کیلشیم ، پوٹاشیم ، میگنیشیم جیسے درجنوں معدنیات ہوتے ہیں۔ یہ نظام انہضام کی مرمت اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں موثر ہوتا ہے۔