عالمی یوم خاندان :بہار میں رحمانی خاندان کی عظیم خدمات

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 14-05-2022
عالمی یوم خاندان :بہار میں رحمانی خاندان کی عظیم خدمات
عالمی یوم خاندان :بہار میں رحمانی خاندان کی عظیم خدمات

 

 

سراج انور/پٹنہ

 ریاست بہار میں یوں تو بہت سے خاندان ہیں لیکن رحمانی خاندان ان میں بے مثال ہے۔ رحمانی کا مطلب مونگیر کی خانقاہ رحمانی سے ہے۔ بہار کے سماج کی تعمیر و ترقی میں ان کی شراکت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ رحمانی خاندان ہر اعتبار سے آگے رہا ہے خواہ وہ ثقافتی میدان ہو یا مذہبی، خواہ وہ تعلیمی میدان ہو یا پھر سیاسی۔ان سب میں اس خاندان کی ایک انفرادی شناخت رہی ہے۔

ریاست بہار کے ضلع مونگیر میں خانقاہ رحمانی کے قیام سے لے کر اب تک اس خاندان کے افراد نے امارت شرعیہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ترقی اور عروج میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حیرت و تعجب کا مقام یہ ہے کہ یہ خاندان گذشتہ تین نسلوں سے معاشرے کے لوگوں کی رہنمائی کرتا رہا ہے۔ تین نسلوں کے گزرنے کے بعد بھی رحمانی خاندان میں لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام جاری ہے۔ مولانا محمدعلی مونگیری، مولانا منات اللہ رحمانی، مولانا محمد ولی رحمانی کے انتقال کے بعد موجودہ نسل بھی وہی خدمات انجام دے رہی ہے، جو ان کے آبا واجداد انجام دے رہے تھے۔ گویا رحمانی خاندان کی حیثیت جوں کی توں برقرار ہے۔

awaz

خانقاہ رحمانی کی عمارت

اسی خاندان کی ایک اہم کڑی مولانااحمد ولی فیصل رحمانی ہیں۔ وہ تین ریاستوں بہار،اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہیں مولانا فیصل رحمانی کے چھوٹے بھائی فہد رحمانی مسلم معاشرے میں جدید تعلیم کا محور بنے ہوئے ہیں، وہ ایک بڑے تعلیمی ادارے رحمانی فاؤنڈیشن کے نگران ہیں۔ خیال رہے کہ آنند کمار کے سپر30 کی طرح رحمانی 30 کو فروغ دیا جا رہا ہے اور رحمانی فاونڈیشن کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ کہ رحمانی-30 کے کامیابی کی شرح سپر30 سے ​​بہتر ہے۔

رحمانی-30 پورے ملک میں مسلم لڑکے اور لڑکیاں آئی آئی ٹی کے ساتھ مختلف کورسز کی تیاری کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مونگیر کی خانقاہ رحمانی سے جو سماجی تبدیلی آئی ہے وہ اب بھی برقرار ہے۔ رحمانی خاندان بھی اپنی ساکھ برقرار رکھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے لے کر سونیا گاندھی تک پر اس خاندان کا دبدبہ رہا ہے۔یہ خاندان شروعی سے کانگریسی رہا ہے۔ نس بندی کی شدید مخالفت کے باوجود یہ خاندان کانگریس پارٹی سے جڑا رہا۔

مولانا محمد علی مونگیری

یہ فرنگیوں کا دور تھا، ملک میں مذہبی تشخص کے تحفظ کی فکر جاری تھی۔ بہار جنگ آزادی مرکز بنا ہوا تھا۔ سنہ 1901 میں مولانا محمد علی مونگیری نے مونگیر میں خانقاہ رحمانی کی بنیاد رکھی۔ مولانا محمد علی مونگیری، مولانا منت اللہ رحمانی کے والد تھے اور مولانا محمد ولی رحمانی کے دادا تھے۔

وہ ایک اسلامی اسکالر تھے۔ انہوں نے ہی لکھنؤ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء قائم کیا تھا۔ وہ اس کے بانیوں میں سےتھے۔اس کے علاوہ وہ دارالعلوم دیوبند کے مشاروتی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ 1892 میں مدرسہ فیض عام کے سالانہ اجلاس کے دوران مسلم علماء کے ایک گروپ نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ علمائے کرام کا ایک مستقل ادارہ بنانا جائے۔ اسی اجلاس میں مولانا محمد علی مونگیری نے ادارے کا نام ندوۃ العلماء تجویز کیا۔ مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی کے مطابق مولانامحمد علی مونگیری ہی پہلے شخص تھے جنہوں نے ادارہ کے قیام کے بارے میں سوچا تھا۔

awaz

 رحمانی 30 کا ایک پروگرام

مولانا محمد علی مونگیری 28 جولائی 1846 کو ریاست اترپردیش کے شہر کانپور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1903 میں دارالعلوم ندوۃ العلماء سے استعفیٰ دے دیا اور مونگیر چلے گئے۔

مولانا محمد علی مونگیری ان ممتاز مسلم علماء میں سے ایک تھے جنہوں نے احمدی جماعت کے ساتھ مناظرہ کیا تھا۔انہوں نے احمد جماعت کے خلاف سو سے زائد کتابیں اور مضامین لکھے۔ مولانا محمد علی مونگیر کا انتقال 13 ستمبر 1927 کو ہوگیا۔ مولانامحمد علی مونگیری، رحمانی خاندان کی پہلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء اور خانقاہ رحمانی ہندوستان میں مسلمانوں کی اپنی مذہبی شناخت رکھنے کے ساتھ ایک تناور درخت کی مانند مسلم معاشرے کو سایہ دینے کا کام کر رہے ہیں۔

مولانا منت اللہ رحمانی

مولانا منت اللہ رحمانی، مولانامحمد علی مونگیری کے بیٹے تھے۔ انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پہلے جنرل سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دیں، وہ مذہبی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی شخصیت بھی تھے۔ مولانا منت اللہ رحمانی 7 اپریل 1913 کو مونگیر میں پیدا ہوئے۔ بہار قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے جمعیۃ علماء بہار کے جنرل سکریٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ مولانامنت اللہ رحمانی نے ابتدائی تعلیم مونگیر میں حاصل کی ۔ پھر حیدرآباد چلے گئے جہاں انہوں نے مفتی عبداللطیف سے عربی قواعد، صرف و نحو اور منطق کی تعلیم حاصل کی۔

 انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا اور وہاں سے بھی تعلیم حاصل کی۔ چار سال انہوں نے مشہور مجاہد آزادی مولانا حسین احمد مدنی سے صحیح بخاری کی تعلیم حاصل کی۔1935 میں وہ جمعیۃ علماء بہار کے جنرل سکریٹری بنائے گئے۔ امارات شرعیہ کے بانیوں میں سے ایک مولانا ابو المحاسن محمد سجاد نے 1935 میں مسلم آزاد پارٹی بنائی۔ مولانا منت اللہ رحمانی بھی اس وقت بہار کی ایک اہم شخصیت مانے جاتے تھے۔ وہ اس پارٹی کے رکن بن گئے اور جب 1937 میں انتخابات ہوئے تو مولانا منت اللہ رحمانی مسلم آزاد پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور بہار قانون ساز اسمبلی کے رکن بنائے گئے۔

مولانا منت اللہ رحمانی کو مونگیر کی خانقاہ رحمانی کا سجادہ نشیں بنایا گیا۔انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور 28 دسمبر 1972 کو اس کی تاسیسی میٹنگ میں انہیں اس کا پہلا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ جس نے ملک میں ایمرجنسی کے دوران اس قانون کو یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ یہ شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے۔

اس کے بعد کانگریس حکومت کو نس بندی کا قانون واپس لینا پڑا۔ مولانا منت اللہ رحمانی کا انتقال 20 مارچ 1991 کو ہوگیا۔ ان کی وفات کے بعد خانقاہ رحمانی اوراہل خاندان ذمہ داری ان کے بیٹے مولانا محمد ولی رحمانی پر آگئی۔

مولانا محمد ولی رحمانی

مولانا محمد ولی رحمانی ایک اسلامی اسکالر اور ماہر تعلیم تھے۔انہوں نے اسلامی تعلیم کو پھیلانے اور مسلمانوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ مضبوط کرنے کے لیے رحمانی-30 کی بنیاد رکھی۔وہ 1974 سے 1996 تک بہار قانون ساز کونسل کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری اور خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشین کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ پہلے ایسے مذہبی رہنما تھے جو گہرائی سے سیاسی سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔ ان کی پیدائش اسلامی اسکالر مولانا منت اللہ رحمانی کے یہاں ہوئی، جو خود بھی مذہبی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت تھے۔

مولانا محمد ولی رحمانی کو والد مولانامنت اللہ رحمانی کی وفات کے بعد 1991 میں انہیں مونگیر کی خانقاہ رحمانی کا سجادہ نشین بنایا گیا۔ 15 اپریل 2018 کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں انہوں نے ایک کانفرنس منعقد کی ۔ جس کا عنوان تھا' دین بچاؤ - دستوربچاؤ'۔ اس ریلی میں بڑی تعداد میں مسلمانوں نے شرکت کی تھی۔ عام طور پر مسلمان اتنی بڑی تعداد میں جمع نہیں ہوتے تھے۔ مگر یہ مولانا محمد ولی رحمانی کی شخصیت اور قیادت کا کمال تھا، جس کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے۔ مولانا محمد ولی رحمانی ہندو مسلم اتحاد کے بھی علم بردار تھے۔ وہ3اپریل2021 کو کورونا وبا سے متاثر ہونے کے بعد انتقال کر گئے۔

رحمانی خاندن گذشتہ تین نسلوں سے سماج کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہا ہے۔ اب رحمانی خاندان کی چوتھی نسل سماجی کام کے لیے آگے آئی ہے۔ چوتھی نسل کے افراد یعنی مولانامحمد ولی رحمانی کے دونوں بیٹے مولانااحمد ولی فیصل رحمانی اور مولانا فہد رحمانی وراثتی کام کو آگئے بڑھا رہے ہیں۔ 

مولانا احمدولی فیصل رحمانی

رحمانی خاندان کے غالباً یہ واحد وارث ہیں جنہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی۔امارت شرعیہ کے آٹھویں امیر شریعت مولانا احمدولی فیصل رحمانی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کئی بڑی کمپنیوں میں کام کر چکے ہیں۔ مولانااحمد ولی فیصل رحمانی پہلے امیرِ شریعت ہیں جو باضابطہ ووٹنگ کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں، وہ اس وقت خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین بھی ہیں۔ وہ مذہبی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ انہیں عربی ، انگریزی اور اردو زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ مولانااحمد فیصل رحمانی نے امریکہ کی کیلیفورنیا یونیورسٹی سے آئی ٹی کیا اور اس یونیورسٹی میں لیکچرار بھی بنائے گئے۔

انہوں نے آپریشن مینجمنٹ کے عہدے پر رہتے ہوئے درجنوں اداروں میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی ایک باوقار امریکی ادارے کے اسٹریٹجک پروجیکٹس کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ وہ اوریکل، ایڈوب، پیسیفک گیس اینڈ الیکٹرک، برٹش پیٹرولیم اور ڈزنی جیسی کمپنیوں میں بھی مختلف ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔

انہوں نے مصری علما و دانشوران سے اسلامی علوم اور عربی زبان پرمہارت حاصل کرنے میں مدد لی ہے۔ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی امریکی سرزمین پر طویل مدت تک رہنے کے بعد مونگیر اپنے والد کی میراث کو سنبھالنے کے لیے آگئے ہیں۔

خیال رہے کہ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی خانقاہ رحمانی کے پانچویں سجادہ نشین ہیں۔ ان کی قیادت امارت شرعیہ میں انقلابی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ وہیں ان کے چھوٹے بھائی مولانا فہد رحمانی بھی خاندان کا نام روشن کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ 

مولانا فہد رحمانی

رحمانی خاندان کا سب سے اہم مشن کون سا ہے۔ تو یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ وہ رحمانی مشن ہے۔ اس کا قیام اگرچہ طویل المدتی، قلیل مدتی اور عارضی کورس کرانے کے لیے عمل میں آیا تھا، تاکہ منظم تعلیم، صحت اور سماجی انصاف کے ذریعے انسانیت کے مقصد کو ترجیح دی جائے۔ رحمانی مشن تعلیم کو اپنے بنیادی مقاصد میں سے ایک قرار دیتا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ جدید سائنسی تعلیم کو لازمی قرار دیتا ہے جورحمانی 30 کی شکل میں دکھ رہا ہے۔ وہیں دوسری طرف جامعہ رحمانی ہے جو بنی نوع انسان کو مذہبی تعلیم دینے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

رحمانی 30 کی جانب سے معاشرے کے لیے تعلیمی اور فکری بنیاد فراہم کرنے کے علاوہ نوجوانوں میں ہنر مندی پیدا کرنے کے لیے بھی پروگرام کئے جاتے ہیں۔ نیزامن و امان، بھائی چارگکی اور ہم آہنگی بھی رحمانی مشن کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔

awazthe

    رحمانی فاونڈیشن کی عمارت

اس کی ترجیہات میں عوامی صحت کی بہتری بھی شامل ہے۔ اس کے لیے رحمانی فاؤنڈیشن صحت سے متعلق آگاہی کی مختلف مہمات چلاتی ہےمثلاً تمباکو نوشی کے خلاف مہم، عام زکام، فلو اور وائرل انفیکشن سے بچاؤ اور علاج کے لیے آگاہی کے پروگرام کا انعقاد وغیرہ ۔ رحمانی فاؤنڈیشن عوام میں بیداری کے لیے پولیو اور دیگر ویکسینیشن مہم بھی چلاتی ہے۔ رحمانی فاؤنڈیشن کا ایک اہم مشن مختلف مذاہب کے درمیان ثقافتی تفریق کو ختم کرنا ہے۔اس کے لیے مختلف ثقافتی پروگرام بھ منعقد کئے جاتے ہیں۔

یہاں کانفرنسز، سیمینارز اور مشاعرے باقاعدگی سے منعقد کیے جاتے ہیں۔رحمانی فاؤنڈیشن کے تحت ہی رحمانی 30 ہے۔ اس کے سی ای او مولانا فہد رحمانی ہیں۔ خیال رہے کہ مولانا محمدولی رحمانی نے اپنی زندگی میں ہی رحمانی-30 کی ذمہ داری اپنے چھوٹے بیٹے مولانافہد رحمانی کو دی تھی۔ سنہ 1977 بیچ کے آئی پی ایس افسر ابھایانند رحمانی رحمانی 30 سے ​​وابستہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رحمانی-30 کی کوششوں سے سینکڑوں طلبا نے آئی آئی ٹی میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ 30 غریب مسلم طلبہ کے لیے امید کی ایک کرن ہے اور یہ روشنی رحمانی خاندان سے ہے۔ فہد رحمانی خود انجینئر ہیں، تعلیم کے معاملے میں ان کا وژن واضح ہے، وہ رحمانی مشن کو بلندیوں تک لے جانا چاہتے ہیں۔