'قمرحیات :اردو کے لئے بن گئے’آب حیات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-09-2021
قمر حیات : میں اکیلا ہی چلا تھاجانب منزل
قمر حیات : میں اکیلا ہی چلا تھاجانب منزل

 

 

یوم اساتذہ کے موقع پر خاص پیشکش 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

محمد قمرحیات ۔ یہ ناگپور میں روشن ایک ایسا چراغ ہے جس نے شہر کے گھر گھر میں اردو کے دئیے جلا دئیے ہیں۔ جنہیں ناگپور میں اردو کے ایک خدمتگار یا خادم کے طور پر جانا جاتا ہے۔جنہوں نے اردو کی فروغ کے لئے وہ کام کیا ہے جو اردو کی بڑی بڑی سرکاری اور غیر سرکاری توپیں نہیں کرسکی ہیں۔

ان کی خدمات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے 1979 میں جومشن شروع کیا ،اس کے تحت پچھلے 38 سال کے دوران 14 ہزار لوگوں کو اردو زبان سکھانے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ جس کا مکمل ریکارڈ 200صفحات کے 27 رجسٹرز میں محفوظ ہے۔ جن میں اردو سیکھنے والوں کے نام ،ایڈریس اور فون نمبر بھی موجود ہیں۔

اس کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ قمر حیات صاحب نے اس مشن کوکبھی کاروباری شکل دینے کے بارے میں سوچا ہی نہیں ۔وہ اردو کلاس یا کوچنگ کو مفت رکھنے میں کامیاب رہے۔

اس کا تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اردو کی فروغ کے ساتھ قومی یک جہتی کی تشہیر بھی ایک مقصد تھا۔

ناگپورمیں مراٹھی زبان کے مشہور ادارے‘ ودربھا ساہتہ سنگھ ‘ نےاردو کلاس کے لئے اپنا ہال پیش کردیا ،وہ بھی ’مفت‘۔ یہ قومی یک جہتی کا ایک بڑا نمونہ بنا۔

مراٹھی کے پلیٹ فارم سے اردو کی اڑان نے قمر حیات صاحب کو ایسا حوصلہ دیا کہ انہوں نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ آج وہ ناگپور میں ایک ایسے گرو کا درجہ رکھتے ہیں جس نے اردو سکھانے کے نام پر پیسہ کو چھوا نہیں ۔

awazurdu

اردو جنون کانام ہے جس کی خدمت قمرحیات اپنے انداز میں کرتے ہیں 

دراصل قمر حیات ناگپور میونسپل اسکول میں ٹیچر تھے،1979 میں انہوں نے اردو میں غیر اردو طبقہ یا برداری کی دلچسپی کے سبب اس مشن کا آغازکیا تھا،2003 میں ریٹائر منٹ کے باوجود یہ مصروفیت جاری رہی اور اب بھی جاری ہے جب ان کی عمر 76 سال ہے۔چار دہائیوں کے دوران صرف کورونا ایک ایسی طاقت تھی جس نے دنیا کے ساتھ ان کے اردو کلاس کو بھی ٹھپ کردیا ہے۔ لیکن اب وہ زمانے کے ساتھ چل رہے ہیں اس لئے اس سلسلے کو ’آن لائن‘ کرنے کی تیاری کررہے ہیں ۔

آواز دی وائس نے جب قمر حیات صاحب سے رابطہ کیا تو انہیں خوشی بھی تھی اور حیرت بھی۔انہوں نے ناگپور میں اردو کے لئے اس خاموش خدمت کی کہانی انتہائی خوبصورت انداز میں بیاں کی۔ 

یہ ان دنوں کی بات ہے

وہ کہتے ہیں کہ اردو سکھانا میرا جنون ہے،شوق ہے اور عبادت ہے۔اس کو ہوا دینے کا کام غیر اردو برادری نے کیا تھا۔ دراصل ۱۹۷۹ میں جب کچھ غیر اردو داں حضرات میرے پاس آئے اورکہا کہ اردو میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں، کیونکہ زبان میں بہت مٹھاس ہے لیکن کوئی سکھانے والا نہیں ہے۔

قمر حیات کہتے ہیں کہ یہ بات میرے دل کو چھو گئی۔میں نے اس پر غور کیا تو پہلی ضرورت ایک کمرے کی تھی۔ تاکہ اردو کلاس کا آغاز کیا جاسکے۔یعنی کہ ایک چھت ہو ۔ایک سائبان ہو۔

اس وقت میرا سہارا بنا ودربھا ساہتہ سنگھ ،اس کے صدر سے میں نے جب اس خواہش کا اظہار کیا تو وہ فورا راضی ہوگئے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے بغیر کرائے کے ہال میں بغیر فیس کوچنگ کلاس کا آغاز کردیا۔ اس طرح اردو پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔

awazurdu

اشارے کی دیر تھی

قمرحیات کے مطابق انہیں اس بات کا تو علم تھا کہ لوگوں میں اردو پڑھنے یا لکھنے کا شوق ہے لیکن حیرت اس وقت ہوئی جب میں نے اخبار میں اردو کوچنگ کا اشتہار دیا تو 180 درخواستیں موصول ہوگئیں ۔

قمرحیات نے اردو سکھانے کے مشن کا سہرا مشہور شاعر (مرحوم) منشا الرحمٰن خان 'منشا' کو سہرا دیا ہے جنہوں نے انہیں کلاسیں شروع کرنے کی ترغیب دی،ہمت دی اور حوصلہ دیا تھا۔کیونکہ  ان کا کہنا ہے کہ میرے لئے اتنے لوگوں کو پڑھانا بہت مشکل تھا لیکن ڈاکٹر منشا الرحمن اور محمد خضر حیات نے ہمت بڑھائی۔میں خود ٹیچر تھا اس لئے بسمہ اللہ کردی۔ ایک ماہ کے دوران سو افراد تو کم ہوگئے تھے لیکن 80 ریگولر رہے۔ جنہیں میں نے تین ماہ کا کورس کامیاب رہا۔

اردو کی جانب جھکاو کیوں

ناگپور میں اردو کے اس سفر کے دوران قمر حیات نے یہ محسوس کیا کہ اردو کی جانب جھکاو کا اہم سبب شاعری،فلمیں ،قوالیاں اور ڈائیلاگ ہیں۔لوگ سب کچھ سنتے ہیں لیکن پوری طرح سمجھ نہیں پاتے ۔ یہی بے چینی انہیں اردو سیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔

قمرحیات کا کہنا ہے کہ اردو زبان کوسیکھنے میں لوگوں کا جذبہ بہت اہم تھا۔میں نے اس بات کو محسوس کیا کہ کچھ لوگ شاعری کے سبب اردو سیکھنے کے خواہش مند تھے تو کچھ فلموں کے سبب ۔کچھ قوالی کے سبب ۔ان میں جو مشکل الفاظ آتے تھے وہ سر سے گزر جاتے تھے،یہی وجہ ہے کہ لوگ چاہتے تھے کہ اس زبان کو پڑھانا سیکھ لیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ کھنچے چلے آگئے۔

awazurdu

قمر حیات اپنے شاگردوں کے ایک گروپ کے ساتھ

اردو کو کیسے بنایا دلچسپ

قمرحیات کہتے ہیں کہ پڑھنے اور پڑھانے کا دور بہت خشک ہوتا ہے،اس لئے میں نے بہت کم وقت میں اپنا طریقہ اپنایا۔

اس سیشن کو دلچسپ اور پرکشش بنانے کے لئے کئی طریقے اپنائے۔ میں نے کبھی کچھ اشعار سنائے اور کبھی کچھ لطیفہ ،۔تاکہ اس سے دل لگا رہے۔ یہ تجربہ کامیاب رہا۔

اس کوشش میں مجھے کتنے اشعار یاد ہوگئے ان کی گنتی مشکل ہے ۔

مگر ایک اور اہم بات رہی قمر حیات نے ہر ایسی شاعری کا انتخاب کیا جو قومی یک جہتی کو فروغ دیتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہی ایک نمونہ یہ تھا کہ

 ہندو ہیں یہاں کتنے مسلمان ہیں کتنے

کتنے ہیں یہاں دھرم تو ایمان ہیں کتنے

 مذہب کے پرستاروں ذرا گن کر بتاو

انسانوں کی دنیا میں انسان ہیں کتنے

وہ کہتے ہیں کہ اس انداز کو لوگوں نے بہت پسند کیا،میرے شاگرد ان اشعار کو اپنی کاپی میں نوٹ کیا کرتے ہیں ۔یہ شاعری بھی انہیں اردو سیکھنے کی جانب راغب کرتی ہے۔ 

اردو زبان نہیں ایک تہذ یب ہے

آواز دی وائس' سے بات کرتے ہوئے قمر حیات نے کہا کہ میں نے اس طویل دور میں اردو سیکھنے والوں میں ایک بڑی تبدیلی دیکھی۔اردو سیکھنے کے بعد مزاج اور انداز میں فرق پڑتا ہے، وہ بہت با ادب ہوگئے۔ بڑی تہذیب اور ادب سے ملنے لگے ۔وہ کہنے لگے کہ حیات صاحب اس زبان کے ساتھ ایک تہذیب پوشیدہ ہے۔'

لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ بات صرف زبان کی مٹھاس کی نہیں بلکہ یہ تو خود ایک تہذیب کی عکاسی کرتی ہے۔ دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے ۔

وہ کہتے ہیں میرا ماننا ہے کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ۔ ہر زبان کو سیکھنا چاہیے۔ ہر زبان کا ایک رنگ ہوتا ہے۔ہر زبان کی ایک تہذیب ہوتی ہے۔

قمر حیات ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ  ناگپور کے فوجی اسپتال کے ایک سرجن تھے جن کا نام ڈاکٹر میرال۔انہوں نے ریٹائر ہونے کے بعد اردو سیکھی تھی۔ ایک فنکشن میں انہوں نے کہا تھا کہ  ’’ گاڈ میڈ اے مین اینڈ اردو میڈ اے جنٹلمین ‘‘۔

اب ایسے خیالات کے سبب ہم یقینا کہہ سکتے ہیں اردو ایک تہذیب ہے۔

awazurdu

اردو کورس مکمل ہونے پر ایک گروپ فوٹو

کیا ہےکمزوری زبان کی

اردو ہندوستان کی زبان ہے۔ زبان میٹھی ہے،زبان کے دیوانے ہزاروں ۔ زبان میں ادب ہے، تہذیب ہے۔کشش ہے مگر اس کی سب سے بڑی کمزوری اس کا روزگار سے نہ جڑ پانا ہے۔

 قمر حیات کہتے ہیں کہ انگلش کی اجارہ داری نے ہر زبان کا یہی حال کردیا ہے،ہم مادری زبان سے دور ہورہے ہیں ۔اس کے سبب تہذیب سے روایات سے بھی۔

آواز دی وائس کے ایک سوال کے جواب میں قمرحیات نے کہا کہ میں یہ محسوس کیا کہ جن کی زبان مراٹھی ہے وہ اردو سے کچھ زیادہ ہی محبت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی چاہتے ہیں اردو سیکھیں مگر یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اس ذمہ داری کو نبھا نہیں سکے ہیں۔اگر اردو والے اس کی پہل کریں تو اردو بہت پھیل سکتی ہے۔

awazurdu

مہاراشٹر اردو اکاڈمی کے خصوصی ایوارڈ کو وزیر اعلی منوہر جوشی کے ہاتھوں قبول کرتے ہوئے

کس کس نے سیکھی اردو

قمر حیات نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس بات کو محسوس کیا کہ اردو سیکھنے والوں میں صرف دانشور یا ادب کی دنیا کے لوگ نہیں تھے۔ ڈاکٹر، چارٹر اکانٹینٹ اور وکیل بھی شامل تھے۔ یہاں تک کے راشٹریہ سیوم سنگھ یعنی کہ آر ایس ایس سے وابستہ لوگوں نے بھی اردو سیکھی۔

تیس یا بتیس سال پہلے جو لوگ اردو سیکھنے آتے تھے آج بھی ویسے ہی لوگ آتے ہیں ۔ڈاکٹر ہوں یا وکیل ۔ مگر سب سے زیادہ دانشور حضرات دلچسپی لیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ دو خواتین جج بھی طالبات شامل تھیں جو اردو سیکھنا چاہتی تھیں کیونکہ انہیں طلاق کے بہت سارے مقدمات ملے تھے۔

قصہ انل دیش مکھ کا

قمرحیات اردو سے شوق اور لگاو کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ سابق وزیر تعلیم انل دیش مکھ صاحب بھی اردو سیکھنے آتے تھے اس وقت وہ ضلع پردیش کے صدر تھے۔پھر ایم ایل اے بنے تھے۔انہیں شاعری کا شوق تھا،اشعار اکٹھا کیا کرتے تھے۔دیونا گری میں اشعار لکھا کرتے تھے۔

جب انہوں نے ایک دو بار ایوان میں شعر پڑھے تو خوب واہ واہ ہوئی۔ دیش مکھ بھی بہت خوش ہوگئے۔ انہوں نے مجھ سے دوسو صفحات کی ایک ڈائری میں اشعار لکھ کر لئے۔مگر المیہ یہ ہوا کہ کسی نے ان کی ڈالئری ہی غائب کردی ۔انہوں نے مجھے بلایا اور درخواست کی کہ اشعار سے بھری ایک اور ڈائری کا انتظام کردیں ۔جس کے بعد انہوں نے دیش مکھ کو ایک نئی ڈائری میں اشعار کا خزانہ دیدیا۔

آجکل کے ماحول کا ذکر

قمر حیات کہتے ہیں کہ میں ناگپور میں رہتا ہوں جو کہ آر ایس ایس کا مرکز ہے لیکن مجھے کبھی بھی ایک مسلمان یا اردو داں ہونے کے ناطے ایسا احساس نہیں ہوا کہ مجھے کسی امتیاز کا شکار ہونا پڑا یا کسی تعصب کا شکار ہوا۔

دراصل ناگپور کی غیر مسلم برادری نے انہیں جو عزت دی اس کی کوئی نظیر نہیں ۔قمر حیات کہتے ہیں کہ میرے غیر مسلم شاگرد جہاں مل جاتے ہیں میرا آشیرواد لینے کے لئے پیروں پر جھک جاتے ہیں میں انہیں پکڑ لیتا ہوں ،گلے لگا لیتا ہوں۔ وہ شاعر گوپی ناتھ امن کےان اشعار کو گنگناتے ہیں کہ

اس بستی کی رونق ہے تبھی

جب میں بھی رہوں تو بھی رہے

مسجد بھی رہیں مندر بھی رہیں

مسلم بھی رہے اور ہندو بھی ہے

ہندو کی زبنان اردو بھی ہے

مسلم کی زبان ہندی بھی ہے

آداب وطن کی شان ہے یہ

ہندی بھی رہے اردو بھی رہے

قمر حیات کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ ان کے کلاس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں،اس سے ایک طرح کا بھائی چارہ ہوتا ہے۔ اردو کے نام پر ایک چھت کے نیچے اکٹھا ہونے والے لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں بلکہ زبان کے ساتھ ایک دوسرے کی تہذیب اور ثقافت سے بھی واقف ہوتے ہیں ۔

کسی نے کیا شک تو

قمر حیات ماضی کے تجربات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی تھا جس نے میری اردو سے محبت کو مذہبی سازش کا رنگ دے دیا تھا۔ مگر میں نے اسے بھی محبت سے جواب دیا ۔

وہ کہتے ہیں کہ آج سے چودہ سال قبل سرکاری ملازمت کرنے والی ایک خاتون نے مجھ سے کہا کہ کہیں آپ اردو سکھانے کی آڑ میں مذہب کا پرچار تو نہیں کررہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کے سوال کا جواب میں ایک شعر میں دینے کی کوشش کرتا ہوں ۔ پھر میں نے انہیں یہ شعر سنایا۔

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جواب سن کر وہ مسکرائیں ۔بس

قمرحیات بڑے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ میں نے اس شوق اور جنون کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فروغ کے لئے استعمال کیا اور اس میں کامیاب رہا ہوں۔

awazurdu

راجا رگھو جی راجے مہاراج سے ایوارڈ لیتے 

زندگی کو ایک مثال بن گئی

قمر حیات نے اردو سکھانے کا مشن اس لئے شروع کیا تھا کہ انہیں سرکاری اور غیر سرکاری کوشیشوں سے اطمینان نہیں تھا۔ انہوں نے دنیا کو دکھا دیا کہ اگر انسان چاہیے تو شکایت کے بجالئے عملی طور پر خود ایسا کچھ کرسکتا ہےجو اس کی کوشش ہمالیائی کامیابی کا درجہ حاصل کرلے۔

میونسپل اسکول میں بطور استاد اور اردو کے عاشق کے طور پر اپنے طویل کیریئر کے دوران حیات نے کئی ایوارڈز جیتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ بہترین ایوارڈ وہ ہوتا ہے جب ان کے طلبا بلیک بورڈ پر لکھی اردو کی سطروں کو پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ شاگردوں کی آواز میرے لئے بہترین ایوارڈ ہوتی ہے۔

قمر حیات کی خدمات کو سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا ہے ،انہیں 1983 میں ناگپور میونسپل کارپوریشن کا ’بیسٹ ٹیچر ایوارڈ‘ ملا تھا۔

 اس کے بعد قمر حیات کو 1997 میں مہاراشٹر اردو اکاڈمی نے ’خصوصی ایوارڈ‘ سے نوازا تھا جو کہ اس وقت کے وزیر اعلی منوہر جوشی نے شروع کرایا تھا۔

۔ 2020 میں انہیں ناگپور کی تنظیم راجہ شیو چھتر پتی پرتیشتھان کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا جو راجا رگھو جی راجے مہاراج نے دیا تھا۔

قمر حیات کہتے ہیں کہ اردو سے پیار ہے،مقصد اس کا فروغ ہے اس لئے زبان سے کبھی پیسہ کمانے کے بارے میں سوچا ہے اور نہ سوچ سکتے ہیں ۔

یوم اساتذہ کے موقع پر ہم ایک ایسے استاد کو سلام کرتے ہیں جو اردو زبان کی محبت میں اس کی فروغ کے لئے چار دہائیوں سے خدمت  کررہے ہیں، یہ خدمت بھی کسی عبادت سے کم نہیں ہے۔ساتھ ہی اہل اردو کے لئے کسی سبق سے کم نہیں ۔