نظام حیدرآباد: 224 سال تک حکمرانی کرنے والا خاندان

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 23-12-2021
نظام حیدرآباد:  224  سال تک حکمرانی کرنے والا خاندان
نظام حیدرآباد: 224 سال تک حکمرانی کرنے والا خاندان

 


شیخ محمد یونس :حیدرآباد

ریاست حیدرآباد غیر منقسم ہندوستان کی ایک نوابی ریاست تھی جو ہندوستان کے جنوب وسطی علاقہ میں قائم تھی۔ اس ریاست کے حکمران موروثی طور پر نظام حیدرآباد ہوا کرتے تھے جنھوں نے 1724ء سے 1948ء تک حکومت کی۔ ریاست کا دار الحکومت شہر حیدرآباد تھا۔ جبکہ  نظام الملک حیدرآباد جنہیں عموماً نظام حیدرآباد کے نام سے جانا جاتا تھا، ریاست حیدرآباد کے حاکموں کو کہا جاتا تھا۔ یہ خطاب مملکت آصفیہ کے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی جو خود مختار ریاستيں بر صغیر میں قائم ہوئیں ان میں سب سے بڑی اور طاقتور ریاست حیدر آباد دکن کی مملکت آصفیہ تھی۔

 اس ریاست کے بانی نظام الملک آصف جاہ تھے، چنانچہ اسی نسبت سے اس ریاست کو مملکت آصفیہ یا آصف جاہی مملکت کہا جاتا ہے۔آصف جاہی مملکت کے حکمرانوں نے بادشاہت کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ وہ نظام کہلاتے تھے اور جب تک آزاد رہے مغل بادشاہ کی بالادستی تسلیم کرتے رہے، اسی کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری رکھا اور مسند نشینی کے وقت اس سے فرمان حاصل کرتے تھے۔اس لحاظ سے دکن کی مملکت آصفیہ دراصل مغلیہ سلطنت ہی تھی جو دہلی کے زوال کے بعد دکن میں منتقل ہو گئی تھی اور یہیں آصفی دور میں مغلیہ نظام حکومت اور مغلیہ سلطنت کے تحت پرورش پانے والی تہذیب کا فروغ ہوا۔

حیدرآباد دکن پر سلاطین آصفیہ کی حکمرانی تاریخی اہمیت کی حامل رہی ہے۔آصف جاہی حکمرانوں نے بلا لحاظ مذہب و ملت رعایا کی خدمت کے ذریعہ ایک تاریخ رقم کی ہے۔ آصف جاہی خاندان نے حیدرآباد دکن پر 224برسوں تک حکمرانی کی۔اس دوران حیدرآباد کی تمام شعبہ جات میں ترقی کیلئے ناقابل فراموش خدمات انجام دی گئیں۔موتیوں کے شہر حیدرآباد میں آصف جاہی دور میں تعمیر کردہ عظیم الشان عمارتیں آج بھی شان و شوکت اور عظمت کی علامتیں ہیں۔شہریان حیدرآباد اپنے تاریخی ورثہ پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

آصف جاہی خاندان کے سات حکمرانوں نے ریاست حیدرآباد دکن پر حکومت کی۔ جن میں نظام الملک آصفجاہ اول' نظام علی خان آصفجاہ دوم' سکندر جاہ آصفجاہ سوم'ناصر الدولہ آصفجاہ چہارم' افضل الدولہ آصفجاہ پنجم' محبوب علی پاشاہ آصفجاہ ششم اور میر عثمان علی خان آصفجاہ ہفتم شامل ہیں۔نظام اسٹیٹ حیدرآباد کے علاوہ مہاراشٹرا میں اورنگ آباد اور ریاست کرناٹک میں گلبرگہ کے مختلف علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ آصفجاہ سابع نواب میر عثمان علی خان کے دور حکومت کو رعایا پروری اور انسانیت نوازی کیلئے جانا جاتا ہے۔آصف جاہ کے دور میں حیدرآباد نے تمام شعبہ جات میں غیر معمولی ترقی کی۔ ان ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج بھی خانوادہ آصفیہ کے چشم چراغ انسانیت کی خدمت کیلئے مصروف عمل ہیں۔

 

awazurdu


 

نظام ہفتم کے فرزند ہاشم جاہ بہادر نے فلاحی و رفاہی خدمات کے ذریعہ سماج میں نمایاں اور ممتاز مقام حاصل کیا تھا اب نواب ہاشم جاہ بہادر کے بیٹے نواب نجف علی خان اس مشن کو بڑی خوبی کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔

خانوادہ آصفیہ

خانوادہ آصفیہ شان و شوکت ' رعب و دبدبہ اور عظمت کے اعتبار سے ساری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ ماضی میں نظام خاندان میں شادیاں 11تقاریب پر مشتمل ہوتی تھیں۔جن میں منجے' سانچق' مہندی' نکاح' چوتھی' ولیمہ اور پانچ جمعگی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ قوالی' نوبت اور چوکھی ڈنر کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔تاہم آج حیدرآبادی شادیوں میں یہ تینوں چیزیں شاذ و نادر ہی نظر آرہی ہیں۔

آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر کو انسانی خدمات کیلئے ساری دنیا میں نہ صرف قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ انہیں یاد بھی کیا جاتا ہے۔ان کا دور حکومت سنہری تھا۔وہ اپنی فراغ دلی کیلئے جانے جاتے تھے۔ان کے دور حکومت میں حیدرآباد کی ہمہ جہت ترقی ہوئی۔ نواب میر عثمان علی خان کا دور حکومت( 1911-1948)37برسوں پر مشتمل رہا۔ انہوں نے بلا لحاظ مذہب وملت انسانیت کی مثالی خدمت کی۔ وہ ہندو اور مسلمانوں کو اپنی دو آنکھیں کی طرح سمجھتے تھے۔

سیکولر ازم کے علمبردار

میرعثمان علی خان سیکولر ازم کے علمبردار تھے وہ اپنی ہندو رعایا میں بھی کافی مقبول تھے۔ان کی غیر جانبدرانہ پالیسیوں اور سیکولر کردار کا بین ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے مہاراجہ کشن پرساد کو حیدرآباد کا وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔وہ پابندی کے ساتھ مساجد ' مندروں ’ گرجا گھروں اور گردواروں کو مالی مدد فراہم کرتے تھے۔

سلطان العلوم کا لقب

 نواب میر عثمان علی خان کو سلطان العلوم کا لقب عطا کیا گیا تھا۔ ان کے دور حکومت میں تمام زبانوں کی ترقی اور ترویج و اشاعت کیلئے نمایاں خدمات انجام دی گئیں۔ تمام مذاہب اور مکاتب کے اسکالرس کی حوصلہ افزائی اور مدد کی گئی۔علوم و فنون کی سرپرستی کے باعث بھی حیدرآباد کو عالمی سطح پر زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔

عدالتی نظام

نواب میر عثمان علی خان کا عادل حکمرانوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی عدالتی نظام میں مداخلت نہیں کی۔ان کے 37سالہ دور حکومت میں کسی کو بھی پھانسی کی سزاء نہیں ہوئی۔

شہر حیدرآباد کی برطانوی طرز پرترقی

نواب میر عثمان علی خان ' حیدرآباد کی برطانوی طرز پر ترقی کے خواہاں تھے یہی وجہ ہے کہ بڑے پیمانے پر ترقیاتی اقدامات روبہ عمل لائے گئے۔ صنعتی بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔469صنعتی یونٹس میں 27 ہزار افراد کو روزگار فراہم کیا گیا۔ ریلوے ' شہری ہوابازی' ٹیلی فون' الکٹرسٹی بورڈ' ڈرین نظام' منجیرا ' اعظم جاہی کاٹن ملس کے قیام کے ذریعہ حیدرآباد کی ہمہ جہتی ترقی کو یقینی بنایا گیا۔ علاوہ ازیں نواب میر عثمان علی خان نے اجتنا اور ایلورا کے غاروں کی عظمت رفتہ کی بحالی کیلئے 30لاکھ روپے صرف کئے۔

وکٹوریہ میموریل ہوم

نواب میر عثمان علی خان کی جانب سے یتیموں اور یسیروں کی مدد کیلئے وکٹوریہ میموریل ہوم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔یتیم خانہ میں تمام بچوں کو اپنے عقیدہ کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل تھا۔ان پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی۔

عثمانیہ یونیورسٹی

ریاست حیدر آباد کا ایک اور بڑا کارنامہ جامعہ عثمانیہ کا قیام ہے۔ 1856ء میں دار العلوم کی حیثیت سے اس کا آغاز ہوا تھا، 1918ء میں اس کو جدید طرز کی یونیورسٹی کی حیثیت دے دی گئی۔ جامعہ عثمانیہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ پہلی یونیورسٹی تھی جس نے اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا۔ مسلمانوں کے لیے اسلامی تعلیم اور ہندوؤں کے لیے اخلاقی تعلیم لازمی تھی۔ جامعہ عثمانیہ کے تحت ایک شعبہ تالیف و ترجمہ قائم کیا گیا تھا جس میں عربی، فارسی، انگریزی اور فرانسیسی کے ہر علم و فن پر کئی سو کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور اس طرح نہ صرف یونیورسٹی کی درسی ضروریات کو پورا کیا گیا بلکہ اردو کے علمی ذخیرے میں قیمتی اضافہ کیا گیا۔ شعبۂ تالیف و ترجمہ نے جن علمی اور فنی اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کیا ان کی تعداد 5 لاکھ ہے۔

نواب میر عثمان علی خان چاہتے تھے کہ عثمانیہ یونیورسٹی آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر میں ہندو۔مسلم تہذیب کی عکاسی ہو۔ عثمانیہ یونیورسٹی کی عظیم الشان عمارت فن تعمیر کا بہترین شاہکار ہے۔ جامعہ عثمانیہ سے آج بھی ہزاروں نوجوان تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ نواب میر عثمان علی خان نے بنارس ہندو یونیورسٹی کیلئے بھی گراںقدر عطیہ دیا۔ علاوہ ازیں حیدرآباد میں نابینا اور قوت گویائی اور سماعت سے محروم بچوں کو خصوصی تعلیم و تربیت کرنے کیلئے اسکول کا قیام بھی عمل میں لایا جو آج بھی امید کا مرکز ہے۔

راج پرمکھ

ریاست حیدرآباد کا 1948میں انڈین یونین میں انضمام عمل میں آیا۔ نواب میر عثمان علی خان کو نمایاں خدمات پر حکومت ہند کی جانب سے راج پرمکھ بنایا گیا۔ وہ 1951تا 1956راج پرمکھ رہے۔

ٹرسٹس کا قیام

عوام کی فلاح و بہبود کیلئے آصف جاہی حکمرانوں نے کئی ٹرسٹس قائم کئے تھے ۔ میر عثمان علی خان کے دور میں 52ٹرسٹس موجود تھے ۔ تاہم آج صرف چار یا پانچ ٹرسٹس ہی کارکرد ہیں۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی ٹرسٹس تحلیل ہوگئے۔

نظام چیارٹیبل ٹرسٹ

نظام چیارٹیبل ٹرسٹ کاپانچ کروڑ روپے فنڈ سے قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ ٹرسٹ ابھی بھی کام کررہا ہے۔نظام چیارٹیبل ٹرسٹ کے تحت بلا لحاظ مذہب و ملت انسانیت کی خدمت کا کام جاری ہے۔

نظام آرتھو پیڈک ہاسپٹل کا قیام

نواب میر عثمان علی خان نے نظام آرتھو پیڈک ہاسپٹل کا قیام عمل میں لایا۔ وہ اپنے رشتہ دار کی عیادت کیلئے عثمانیہ ہاسپٹل پہنچے تھے جہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک لڑکا گھٹنے میں شدید تکلیف کے باعث تڑپ رہا ہے۔ نواب میر عثمان علی خان نے ڈاکٹر سے وجہ دریافت کی ۔ڈاکٹر نے بتایا کہ حیدرآباد میں گھٹنوں کے علاج کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ ایسی سہولت صرف پونہ میں موجود ہے۔نواب میر عثمان علی خان نے فی ا لفور ماہر آرتھو پیڈک ڈاکٹر رنگاریڈی کو طلب کیا اور عالیشان دواخانہ کی تعمیر عمل میں لائی۔

قومی دفاعی فنڈ میں پانچ ہزار کیلو سونے کا عطیہ

پڑوسی ممالک سے امکانی خطرات سے نمٹنے کیلئے سال 1965میں اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے فنڈس کی وصولی کا آغاز کیا اس مقصد کے تحت نیشنل ڈیفنس فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔حکومت ہند نے راجہ ' مہاراجائوں سے مدد کی اپیل کی۔ وزیر اعظم مدد کی توقع کے ساتھ حیدرآباد پہنچے ۔نواب میر عثمان علی خان نے نیشنل ڈیفنس فنڈ میں ریکارڈ پانچ ٹن سونے کا عطیہ دیا۔

نظام ہفتم کی وفات

نواب میر عثمان علی خان کی وفات 1967میں ہوئی۔نظام ہفتم کے جلوس جنازہ میں بلا لحاظ مذہب و ملت لاکھوں افراد نے شرکت کی اور تاریخ میں یہ غیر سیاسی اور غیر مذہبی عظیم اجتماع کے طورپر جانا جاتا ہے۔ نواب میر عثمان علی خان کے جسد خاکی کو بادیدہ نم کنگ کوٹھی میں سپر د لحد کیا گیا۔

نواب ہاشم جاہ بہادر

نواب میر عثمان علی خان کو 18بیٹے اور 16 بیٹیاں تھیں۔ان میں نواب ہاشم جاہ بہادر پانچویں اور چہیتے فرزند تھے۔ہاشم جاہ بہادر کی پیدائش کا جشن 28 مارچ 1913جمعہ کو کنگ کوٹھی میں توپوں کی سلامی کے ساتھ منایا گیا۔نواب ہاشم جاہ بہادر کو شاہی حلقوں میں کافی قدر و منزلت حاصل تھی۔ وہ نظام انتظامیہ کی ضیافتوں میں باقاعدہ مہمانوں کی فہرست میں شامل تھے۔وہ گورنر ہاوس اور راشٹرپتی نیلائم کی تقاریب کیلئے بھی مہمانوں کی فہرست میں تھے۔نواب ہاشم جاہ بہادر نے ہندوستان کی ممتاز شخصیات صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین ' وزرائے اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو' راجیو گاندھی ' مرکزی وزراء ' گورنرس اور چیف منسٹرس سے ملاقات کی تھی۔

نواب نجف علی خان

نواب نجف علی خان' نواب ہاشم جاہ بہادر اور صاحبزادی مختار بیگم صاحبہ کے فرزند ہیں۔نظام ہفتم میر عثمان علی خان کی وفات 24فروری 1967کے وقت نواب نجف علی خان کی عمر صرف تین برس تھی۔نواب نجف علی خان نے حیدرآباد کے سرکردہ اداروں سے تعلیم حاصل کی۔انہوں نے کئی ممالک کا دورہ کیا۔انہیں بیرون ممالک میں سکونت اختیار کرنے کے مواقع حاصل تھے۔تاہم انہوں نے اپنے آباواجداد کے مقام کو ہی اپنا مسکن بنایا۔

نواب نجف علی خان دردمند دل کے مالک ہیں وہ ضرورتمندوں اور مستحقین کی مدد کیلئے ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔وہ دکن کی تہذیب کی بقاء کیلئے بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔نواب نجف علی خان نے بتایا کہ ان کے دادا نواب میر عثمان علی خان کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔نظام ہفتم کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں روشنی کے نظم کا اعزاز حاصل ہے۔

نواب نجف علی خان نے بتایا کہ حیدرآباد سے تقریباً 50 برسوں تک مکہ شریف اور مدینہ شریف کو فنڈس کی فراہمی عمل میں لائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ عازمین حج و عمرہ کی سہولت کیلئے سعودی عرب میں 42رباط تعمیر کئے گئے۔نجف علی خان نے بتایا کہ حضور نظام نے فلسطین ' شام ' برطانیہ اور دیگر ممالک کی بھی مدد کی۔ نواب نجف علی خان نے بتایا کہ حضور نظام کے دور میں تعمیر کردہ عمارتوں کی بقاء اور عظمت رفتہ کی بحالی کے ساتھ ساتھ نظام ہفتم کے اثاثہ جات کے معاملات کی یکسوئی کیلئے وہ مختلف سطحوں پر نمائندگی کررہے ہیں۔

awaz

نظام پیلیس حیدرآباد کی دیدہ زیب عمارت

نواب نجف علی خان نے بتایا کہ خاندان آصفیہ نے ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں اور اپنی بہترین اور شاندار حکمرانی کے نقوش چھوڑے ہیں۔ انہوں نے خانوادہ آصفیہ میں پیدا ہونے پر پروردگار عالم کا شکر ادا کیا اور کہا کہ ان کے آباواجداد نے انسانیت کی مثالی خدمت کی ہے جو ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔