نیرج چوپڑا کی کامیابی اور کوچ نسیم احمد کی یادیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-08-2021
ایک استاد کی یادیں
ایک استاد کی یادیں

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی

ٹوکیو اولمپکس میں جب نیرج چوپڑا نے جیولن تھرو میں گولڈ میڈل جیتا اور پورا ملک جشن میں ڈوب گیا تو ایک شخص ایسا تھا جو گیارہ سال پہلے کے ایک منظر کو یا دکررہا تھا۔ وہ تھے جیولین کوچ نسیم احمد۔

نسیم احمد ہیں نیرج چوپڑا کے پہلے کوچ۔نسیم احمد کو 2011 کا وہ دن یاد ہے جب 13 سالہ موٹا سا ایک لڑکا تاؤ دیوی لال اسپورٹس کمپلکس میں آیا تھا۔ اس نوجوان نے پانی پت کے نزدیک اپنے آبائی گاؤں کھانڈرا سے چار گھنٹے کا سفر کیا۔

، اسپورٹس اکیڈمی میں داخلہ لینے کے عمل کے بارے میں پوچھ گچھ کی جس میں اس وقت ہریانہ میں صرف دو مصنوعی ٹریک دستیاب تھے۔

کسی کو نہیں معلوم تھا کہ یہ لڑکا ایک دن ملک کے لیے اولمپکس میں تاریخ رقم کرے گا۔نیرج چوپڑا کی کامیابی نے اچانک نسیم احمد کی یادوں کو تازہ کردیا ۔ نسیم احمد کہتے ہیں کہ "مجھے اب بھی یاد ہے کہ نیرج نرسری میں اپنے سینئرز کی تربیت کیسے دیکھتا تھا ،" وہ اس یاد کو بیان کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے تھے۔

وہ اپنی نوٹ بک کے ساتھ بیٹھتا تھا اور ان سے مشورے لے کر لکھا کرتا تھا۔۔ وہ تربیت سے کبھی نہیں ہچکچاتا اور ہمیشہ گروپ کے ساتھ ہر دن کے راؤنڈ جیتنے کے اہداف طے کرتا۔ اسے سب سے بڑے اسٹیج پر آج سونے کا تمغہ جیتتے ہوئے دیکھنا ہمارے لیے سب سے بڑی خوشی ہے۔

 چوپڑا نے سب سے پہلے نیزہ پھینکنے کا فن پانی پت میں کوچ جیویر سنگھ سے سیکھا۔ پنچکولہ میں اس نے 2011 سے 2016 کے اوائل تک ٹریننگ کی۔

 اس کے ساتھ پنچکولہ میں ہاسٹل میں قیام کرنے والے چند دوست بھی تھے جو اس کے ساتھ پانی پت میں تربیت حاصل کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ نیرج چوپڑا مسلسل اس کھیل کی باریکیوں کے بارے میں دریافت کیا کرتا تھا۔