جے اور ویرو' :: مگر ایک ہندوستانی اور ایک پاکستانی'

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
ہند ۔ پاک میں دوستی کا نیا پل
ہند ۔ پاک میں دوستی کا نیا پل

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی

ٹوکیو اولمپکس میں جیولن تھرو مقابلے ہندوستان اور پاکستان کی دعویداری کے سبب دلچسپ ہوگئی تھی ،جیت ہندوستان کو ملی جب نیرج چوپڑا نے گولڈ میڈل جیتا ۔جبکہ پاکستان کے ارشد خان پانچویں مقام پر رہ گئے۔لیکن ان دونوں ایتھلیٹس کے درمیان میچ سےپہلے اور میچ کے بعد کوئی روایتی تناو یا دشمنی نظر نہیں آئی۔

دراصل اس مقابلہ سے قبل ایسا ماحول بنا دیا گیا تھا گویا مقابلہ سیدھا ہندوستان اور پاکستان کا ہے۔

فائنل میں ہندوستان کے نیرج نے جب گولڈ میڈل جیتا اورارشد خان پانچویں مقام پرپہنچا تو سب کو انتظار تھا کہ اب نیرج کچھ لمبےچوڑے بیان دے گا۔ارشد خان کوئی بہانہ بازی کرے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

روایتی دشمنی کی کوئی بو نہیں آئی لوگ کچھ حیران ہوئے ،کچھ پریشان 

پھر جب دونوں کے تاثرات اور ردعمل سامنے آئے تو سب کو حیرت ہوئی کہ روایتی حریفوں میں دوستی اور خیر سگالی جذبہ  اباک کھا رہا ہے۔

ہار جیت کے بعد  دونوں ایک دوسرے کے دوست ہی رہے۔ ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے رہے۔ کسی نے کوئی بڑ بولا پن نہیں کیا۔

نیرج اورارشد میں کوئی جارحیت نہیں ہے۔ ان پرسرحد کے اس پاراوراس پار کا کوئی جنون نہیں ہے۔ وہ بالکل ٹھنڈے ٹھنڈے کول کول ہیں ۔

کوئی زبان درازی نہیں ۔کوئی اوچھا پن نہیں ۔احترام اورعزت۔کوئی للکار نہیں اور کوئی لمبے چوڑے دعوے نہیں ۔خاموش طوفان ۔اپنے کام سے کام ۔

فائنل میں نیرج چوپڑا نے تمام حریفوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ،ہندوستان میں جشن تھا اور پاکستان میں غم مگر خوشی اس بات کی تھی کہ پاکستان بھی پہلی بار فائنل میں آیا تھا۔

اب سب اپنے اپنے وطن لوٹ چکے ہیں ۔آو بھگت جاری ہے۔ اسی دوران نیرج چوپڑا نے کہا ہے کہ انہیں خوشی ہوتی اگر پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم بھی میڈل جیتنے کے بعد ان کے ساتھ پوڈیم شیئر کرتے۔اگر ارشد بھی میڈل جیت جاتے تو ایشیا کا نام ہوجاتا۔

 پیغام محبت ہے

 دوسری جانب اب پاکستان کے ارشد خان نے ایک ٹیوٹ کیا ہے کہ ۔۔ بہت اچھا کھیلے چمپین نیرج چوپڑا- مستقبل کے لیے نیک خواہشات

اس کے بعد جب ارشد خان کو اس خبر کا علم ہوا کہ نیرج چوپڑا انہیں بھی میڈل کے لیے پوڈیم پر دیکھنا چاہتے تھے تو انہوں نے اس کا بھی شکریہ ادا کیا۔

دونوں ایتھلیٹس کی ملاقات میدان کے بعد اختتامی تقریب میں ہوئی تھی۔

بقول نیرج چوپڑا میں نے ارشد کو سامنے سے آتا دیکھا ۔ تو میں نے کہا کہ ۔۔۔۔ تم نے اچھا کھیلا اور مستقبل کے لیے اسے نیک تمنائیں ۔

روایتی ٹکراو کے حامی نہیں

دونوں ایتھلیٹس میں ایک بات یکساں ہے کہ دونوں روایتی ٹکراو اور اس کے رجحان کے حامی نہیں ہیں ۔

نیرج نے ایک ہندی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ۔ مجھے ہند ۔ پاک روایتی تناو یا جنگ کا سماں بالکل پسند نہیں ۔

 نیرج کا کہنا ہے کہ کرکٹ میں چل جاتا ہے کیونکہ سات، آٹھ ممالک ہوتے ہیں، پر اولمپکس میں یہ سب کرنا ٹھیک نہیں۔

اولمپکس کی اختتامی تقریب سے پہلے بھی نیرج اور ارشد کا کھانے کے ہال میں آمنا سامنا ہوا۔

نیرج کہتے ہیں کہ ارشد نے انہیں ایک بڑی سی مسکراہٹ کے ساتھ مبارکباد دی۔ میں نے اسے کہا کہ وہ اپنے قومی لباس میں تگڑا لگ رہا ہے۔ اس نے اچھا کھیلا اور میں اس کے مستقبل کے لیے اسے نیک تمنائیں دیں۔ 

 ارشد ندیم نے 2019 میں 13ویں ساؤتھ ایشین گیمز میں طلائی تمغہ حاصل کرکے ٹوکیو اولمپکس 2020 کے لیے براہ راست کوالیفائی کیا تھا۔

 وہ پہلے پاکستانی ایتھلیٹ ہیں، جو وائلڈ کارڈ انٹری نہیں بلکہ براہ راست اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

 اس سے قبل انہوں نے جکارتہ میں کھیلی گئی ایشین گیمز میں بھی کانسے کا تمغہ اپنے نام کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ صوبائی سطح کے کئی مقابلوں میں بھی کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔

 خیال رہے کہ پاکستان نے اولمپکس میں 1992 میں آخری تمغہ حاصل کیا تھا جب قومی ہاکی ٹیم سپین میں کھیلے گئے بارسلونا اولمپکس میں چاندی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔