رام پورکا نواب خاندان:وراثت،سیاست اورثقافت

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-02-2022
رام پورکا نواب خاندان:سیاست اورثقافت
رام پورکا نواب خاندان:سیاست اورثقافت

 



 

غوث سیوانی،نئی دہلی

دسمبر2021،میں ایک خبرمیڈیا میں آئی تھی جو کچھ یوں تھی ’’تقریباًپچاس سال کی قانونی جنگ کے بعد رام پور کی ضلعی عدالت نے رام پورنواب خاندان  کی جائیداد کے تنازع میں فیصلہ سنایا ہے۔ جائیداد کو اب 16 قانونی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔ رام پور کے آخری نواب، رضا علی خان کا انتقال 1966 میں ہوا تھا۔طویل قانونی جنگ کے بعد ان کی 2,664 کروڑ روپے کی جائیداد کا فیصلہ سنایا گیا۔‘‘

اصل میں شاندار تاریخ رکھنے والا رام پور کا نواب خاندان آج بھی رام پور اوراس کے نواحی اضلاع میں اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں اس خاندان نے ایک طویل مدت تک اپنی ریاست پر حکمرانی کی، وہیں دوسری طرف آزادہندوستان میں بھی اس کی رسائی پارلیمنٹ واسمبلی تک رہی ہے۔ سابق ممبران پارلیمنٹ مکی میاں اورنوربیگم کا اسی خاندان سے تعلق ہے۔ ذیل میں اسی خاندان کے بارے میں کچھ جانکاریاں فراہم کی جارہی ہیں،جس نے سیاست میں ہی اہم کردار نہیں نبھایابلکہ تہذیب وثقافت میں بھی خاص یوگدان دیاہے۔ شاعروں، قلمکاروں، موسیقاروں کی سرپرستی بھی اس خاندان کے اہم کاموں میں شامل ہے۔

awaz

رام پور کے آخری نواب،رضاعلی خان اور ان کے اہل خاندان

نوابان رام پور

ہندوستان کی آزادی سے قبل یہاں بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں جن میں ایک رام پور کی ریاست بھی شامل تھی۔1719ء میں پہلے حکمراں ،نواب علی محمد خان نے باگ ڈور سنبھالی۔ ریاست میں کل گیارہ نواب ہوئے جن میں نواب فیض اللہ خان،نواب حافظ رحمت خان باریش،نواب محمد علی خان،،نواب غلام محمد خان،نواب احمد علی خان، نواب محمد سعید خان،نواب یوسف علی خان،نواب کلب علی خان،نواب محمد مشتاق علی خان،نواب حامد علی خان شامل تھے۔آخری نواب تھے،رضا علی خان۔خاندان میں جس جائیداد کی تقسیم کا تنازعہ چلا آرہا ہے،وہ اسی آخری نواب کی تھی۔ ریاست رام پور برطانوی ہند کی 15 توپوں کی سلامی والی نوابی ریاست تھی اور اس کے پاس دولت بھی زیادہ تھی۔ہیرے،جواہرات، سونا،چاندی کے علاوہ محلات،باغات اور دیگر قسم کی جائیدادیں،تب بھی خاندان کے پاس تھیں جب ریاست کا الحاق ہندوستان میں ہوچکا تھا۔

پرائیویٹ ریلوے اسٹیشن

awaz

رام پور نواب خاندان کا پرائیویٹ ریلوے اسٹیشن

آزادی سے پہلے ریاست رام پور کے نوابوں کا اپنا ریلوے اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔ جہاں دو خصوصی کوچ ہر وقت تیار کھڑے رہتےتھے۔ جب بھی نواب خاندان کو ریل کے ذریعے دہلی، لکھنؤ یا کہیں اور جانا ہوتا تھا، وہ اپنے کوچ میں سوار ہوتے تھے اور کوچ کو ٹرین میں شامل کرلیا جاتا تھا۔ رام پور کے نویں نواب حامد علی خان کے زمانے میں جب ریلوے لائن ضلع سے گزرتی تھی تو انھوں نے ریلوے اسٹیشن کے قریب اپنے لیے الگ اسٹیشن بنوایا تھا۔ اس کے ساتھ ملاک تک ریلوے لائن بھی بچھائی گئی۔

پرائیویٹ ریلوے کوچ یا عیش گاہ؟

awaz

رامپورنواب خاندان کاریلوے کوچ

فی الحال جائیداد کی مجوزہ تقسیم کے عمل کی اسکیم میں دو تاریخی ریلوے کوچ بھی شامل ہیں۔ ویلیویشن میں ان کی مالیت 11 کروڑ 74 لاکھ 24 ہزار روپے بتائی گئی تھی لیکن دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہونے سے قیمت آدھی رہ کر 5 کروڑ 87 لاکھ 12 ہزار روپے رہ گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کوچ اتنے ماڈرن قسم کے تھےکہ ان میں 33 ایم ایم سنیما پروجیکٹر، 16 ایم ایم سنیما پروجیکٹر، کیمرے، امپورٹڈ ریڈیو ٹرانزسٹراور ٹیپ ریکارڈرز وغیرہ کا بھی انتظام تھا۔ کوچ میں تمام عیش وآرام کا انتظام تھا۔ بستر،کرسی،کارچوبی گاؤ تکیہ، مسند، چاندی کے برتن، گلاس، وہسکی، بیئرکی بوتلیں،انگلش کراکری، بڑا سگریٹ اور سگار باکس، چاندی کا پاندان، اگالدان،سلور کینٹین سیٹ، چاندی کا حقہ، سلور بیڈ، تلواراورمختلف قسم کی بندوقیں وغیرہ۔

نواب خاندان کی جائیدادوں میں شامل ہیں 1073 ایکڑ اراضی کوٹھی خاص باغ، کوٹھی بے نظیر، لکھی باغ، کنڈا اور نواب ریلوے اسٹیشن جبکہ منقولہ اثاثے بھی وافر مقدار میں ہیں جن میں اسلحہ اور دیگر قیمتی اشیاء بھی شامل ہیں۔ اس پراپرٹی میں نواب کے چاندی کے چھ بستر، 20 چاندی کے پاندان، چھ خاصدان اور 20 اگلدان، 20 سگار کے ڈبے اور چار حقے شامل ہیں۔ سابق رکن پارلیمنٹ بیگم نوربانو بتاتی ہیں کہ وہ 1956 میں دلہن بن کر خاص باغ میں آئی تھیں۔ پھر وہ چاندی کے بستر پر سو ئیں۔واضح ہوکہ خاص باغ ، ہندوستان کا پہلا ایئرکنڈیشنڈمحل تھا۔  

awaz

خاص باغ محل جو ہندوستان کا پہلا ایئرکنڈیشنڈ محل تھا

تہذیبی خصوصیت

رام پور کی ریاست محض ایک سیاسی ریاست نہیں تھی بلکہ تہذیبی لحاظ سے بھی خاص اہمیت رکھتی تھی جسے بیان کرنے کے لئے دفتر درکا ہے۔وہ علم دوست تھے اورعلما و طلبہ کو وظائف بھی دیا کرتے تھے۔ریاست کے وظیفہ یافتگان میں مشہور شاعر مرزا غالب بھئ شامل تھے۔ رام پور کے نواب یوسف علی خان ،غالب کے شاگرد تھے۔وہ مرزاکوایک معقول رقم وظیفہ کے طور پر بھیجتے تھے۔نواب یوسف علی خان کی وفات کےبعدنواب کلب علی خان نے ان کی جگہ لی اور انھوں نےوطیفےکوباقی رکھا۔ علاوہ ازیں مرزاداغ دہلوی سمیت سینکڑوں شاعروں کی سرپرستی رام پور کے نوابوں نے کی۔شعروسخن کی محفلیں جمتی تھیں اور اسے ’’دارالسرور‘‘یعنی خوشیوں کا گھر کہا جاتا تھا۔

رضالائبریری

awaz

رام پور کے نواب علم دوست تھے۔ان کی علم دوستی کی نشانی رضالائبریری ہے جوکسی زمانے میں ہندوستان کی سب سے بڑی لائبریری تھی اورآج بھی اس کی اہمیت برقرارہے۔اردو‘ فارسی اور ترکی زبان کی ہزاروں نادرونایاب کتابیں اور مخطوطے یہاں موجود ہیں۔

نوابی دسترخوان

رام پور کے نواب کھانے پینے کے شوقین تھے۔ ان کا دسترخوان ملک وبیرون ملک میں مشہور تھا۔ان کے پاس باورچیوں کی پوری فوج ہوتی تھی۔ یہ خانسامےسارا دن لگا کر اعلیٰ ذائقے کے کھانے تیار کرتے اورنئے نئے ذائقوں کے تجربے کیا کرتے تھے۔ نوابی دسترخوان پرعمائدین کو مدعوکیا جاتا تھا۔ریاست کے خاتمے کے بعد نواب کیلئے دستر خوان جاری رکھنا مشکل ہو گیا تھا تب انھوں نے زمینیں‘ جائیداد اور زیورات فروخت کر کے دستر خوان کا سلسلہ جاری رکھا۔  

موسیقی کا رام پورگھرانا

رام پور کے نوابوں نے اپنے دربار میں روایتی موسیقی کی سرپرستی کی۔ محبوب خان ریاست رام پور کے شاہی دربار کے سب سے بڑے خیال گائک تھے، اس روایت کی پیروی ان کے بیٹے عنایت حسین خان (1849–1919) اور عنایت کے بہنوئی حیدر خان (1857–1927) اور مشتاق حسین نے کی۔ یہیں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے رام پور-سہسوان گھرانے کاجنم ہوا. سہسوان، موجودہ بدایوں ضلع میں ہے۔  

سیاست میں نواب

awaz

آزادی کے بعد نواب خاندان نے سیاست میں سرگرم حصہ لیا اورمیجر نواب سید ذوالفقار علی خان بہادر (11 مارچ 1933 - 5 اپریل 1992) لوک سبھا میں پہنچے۔ انھیں مِکی میاں کے نام سے جانا جاتا تھا۔وہ نواب سر سید رضا علی خان بہادر کے دوسرے بیٹے تھے۔1963 میں،مِکی میاں اتر پردیش اسمبلی کے ممبر بنے اور 1967 میں لوک سبھا کے رکن بنے۔اس کے بعدوہ 1971،1980،1984اور1989میں رام پورلوک سبھا سیٹ سے کانگریس کےٹکٹ پرمنتخب ہوئے۔واضح ہوکہ پہلی لوک سبھا کے لئے رام پور سیٹ کی نمائندگی مولاناابوالکلام آزاد نے تھی۔ ایک دلچسپ جانکاری یہ بھی ہے کہ مِکی میاں نے طویل مدت تک علاقے کی نمائندگی کی مگر کبھی پارلیمنٹ میں تقریرنہیں کی۔

بیگم نوربانو

awaz

بیگم نوربانواپنے اہل خاندان کے ساتھ

مِکی میاں کے بعد ان کی بیوی بیگم نور بانو نے 11ویں اور 13ویں لوک سبھا میں ممبر پارلیمنٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر رام پور سے منتخب ہوئی تھیں۔ بیگم نور بانو (مہتاب زمانی بیگم) نواب امین الدین احمد خان کے ہاں پیدا ہوئیں جو کہ لوہارو(بھیوانی۔ہریانہ) کے آخری حکمران نواب تھے۔انھوں نےجے پور کے ایم جی ڈی گرلز پبلک اسکول سےتعلیم پائی تھی۔

انھوں نے1992 میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی میں شمولیت اختیار کی اور 1996 میں 36.96 فیصد ووٹوں کے ساتھ لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئیں۔ وہ اگلے الیکشن میں مختار عباس نقوی سے ہار گئی تھیں۔ موسیقی اور رقص کی قدردان، نور بانونین دیوی فاؤنڈیشن اور رام پور گھرانہ کی سرپرست ہیں۔ بانو کو تاریخی اور ثقافتی فارسی اور عربی کتابوں اور ماحولیات اور جنگلات کے تحفظ پر تحقیق میں دلچسپی ہے۔ وہ پڑھنے، پینٹنگ، باغبانی اور موسیقی سے لطف اندوز ہوتی ہیں نیزملک بھر میں کئی اسپورٹس کلبوں کی رکن ہیں۔

نواب کاظم علی خان اور حیدرعلی خان

awaz

مکی میاں اور بیگم نور بانو کے تین بچے ہیں۔ ان میں نوابزادہ سید محمد کاظم علی خان بہادر (16 اکتوبر 1960-)سیاست میں سرگرم ہیں۔وہ2002 میں سوار ٹانڈہ حلقے سے ممبراسمبلی منتخب ہوئے اور وزیر بھی بنائے گئے۔ وہ متعدد بار ایم ایل اے چنے گئے اور رواں اسمبلی الیکشن میں بھی کانگریس امیدوار ہیں۔ ان کے علاوہ ان کے بیٹے نوابزادہ سید حیدر علی خان بہادر (19 مارچ 1990) بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔  

سیاست آج بھی جاری ہے

رواں اترپردیش اسمبلی الیکشن میں رام پور نواب خاندان کی عزت بھی دائو پر لگی ہوئی ہے۔یہاں ماضی کی طرح اس بار بھی موجودہ ایم پی اعظم خان کے خاندان کے سامنے نواب خاندان ہے۔ اعظم خان رام پور شہر سے نو بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ اب ان کی اہلیہ ڈاکٹر تزئین فاطمہ ایم ایل اے ہیں۔ اس بار شہر میں نواب خانداں اور اعظم خان کے درمیان سیدھا مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔

اعظم خان ایس پی کے ٹکٹ پر جیل سے الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ نواب خاندان کے نوید میاں (نواب کاظم علی خاں)، شہر سیٹ سے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہی نہیں اعظم خان کے بیٹے عبداللہ اعظم سوار ٹانڈہ سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں جب کہ نوید میاں کے بیٹے حمزہ میاں ان کے مدمقابل ہیں۔

اعظم خان 42 سال سے رام پور کی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔ وہ چار بار ریاستی حکومت میں مختلف محکموں کے وزیر رہے۔ وہ اپوزیشن لیڈر اور راجیہ سبھا ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ دوسری طرف رام پور کی سیاست میں نواب خاندان کا بھی اچھا اثر رہا ہے۔ نوید میاں سوار ٹانڈہ سیٹ سے چار بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ ایک بار بلاس پور سے ایم ایل اے بھی منتخب ہوئے۔ وہ ریاستی حکومت میں وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے والد نواب ذوالفقار علی خان عرف مکی میاں پانچ مرتبہ رکن پارلیمنٹ اور والدہ بیگم نوربانو دو مرتبہ رکن پارلیمنٹ رہ چکی ہیں۔ کانگریس اور ایس پی دونوں نے باپ بیٹوں کو ٹکٹ دیا ہے۔ اس بار کانگریس نے سابق ممبراسمبلی نوید میاں کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹے حیدر علی خان عرف حمزہ میاں کو بھی ٹکٹ دیا ہے۔ نوید میاں رام پور سٹی اسمبلی سے کانگریس کے امیدوار ہیں اور ان کے بیٹے حمزہ میاں سوار سیٹ سے ہیں۔ ایس پی نے اعظم خان، جو تقریباً دو سال سے سیتا پور جیل میں ہیں، رام پور شہر سے اور ان کے بیٹے عبداللہ کو سوار ٹانڈہ سے میدان میں اتارا ہے۔ اس طرح دونوں خاندان آمنے سامنے ہیں۔ اعظم خان سیاست کے آغاز سے ہی نواب خاندان کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس بار وہ جیل میں ہے۔