ناہیدہ منظور۔ ایورسٹ پر پہلی مسلم فاتح خاتون

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-01-2021
مجھے جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے
مجھے جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے

 

ناہیدہ کی دو انگلیاں اسٹیج -3 کے فرسٹ بائٹ کی وجہ سے سوج گئی تھیں*

*آکسیجن لیول  کم ہونے سے ایک بار ایسا لگاتھا کہ شاید یہ سفر درمیان میں ہی روکنا پڑے

*پہاڑوں کی چوٹی سرکرنا بسا اوقات کو آپ کو انسانوں میں سب سے ممتاز کردیتی ہے، کبھی  آپ کو سب سے بہتر بناتی ہے تو کبھی آپ کو مایوس بھی کرتی ہے

*کچھ شیرپا انسانوں کی پرواہ نہیں کرتے، وہ صرف کمیشن کی فکر کرتے ہیں

*مالی دشواریوں کی وجہ سے رائفل شوٹنگ کی ٹریننگ نہیں لے سکی

*کشمیری نوجوان فطرت کی شاہکار سے پیارکریں تو ان کا نشہ چھوٹ جائے گا

آشا کھوسہ / نئی دہلی

ناہیدہ منظور ماونٹ ایورسٹ کو فتح کرنے والی ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون کوہ پیما ہیں۔ اس نے یہ کارنامہ ڈیڑھ سال قبل انجام دیا تھا اور شاید آپ نے اس کے بارے میں نہیں سنا ہو،اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی زمانے میں جب یہ تاریخ رقم اس نے رقم کی تھی اس کی آبائی ریاست جمو اینڈ کشمیر میں آرٹیکل 370 کومودی حکومت نے اپنے انتخابی منشور کے مطابق منسوخ کردیا تھا۔ 5 اگست 2019 کو وادی میں نافذ کیا گیا یہ فیصلہ ریاست جموں کشمیر کے لیے ایک ایسا خونچکاں واقعہ تھا جس نے پوری ریاست کے نظام کو  معطل کردیا تھا، ریاست میں زندگی گویا تھم سی گئی تھی، اس کا برا اثر یہ یہ ہوا کہ لاک ڈاون اورمتععد قسم کی پابندیوں کے نتیجے میں ریاست کی اچھی بری کوئی بھی خبر دنیا کو نہیں مل سکی۔ ناہیدہ کا یہ تاریخ ساز کارنامہ بھی اسی سراسیمہ کردینے والے اسی واقعہ کی نذر ہوگیا۔ ورنہ ایک مسلمان کشمیری خاتون کے ہمالیہ کی چوٹی سر کرنے یہ کارنامہ اپنے آپ میں ایک اعجوبہ اور غیر معمولی عمل تھا۔

Naheeda Manzoor

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

 ناہیدہ نے آواز دی وائس کو بتایا کہ“ایئرپورٹ پر میرا زبردست استقبال ہوا۔ میرے والدین،  اسپونسر اور افسران سب وہاں موجود تھے۔ سوشل میڈیا پر سب نے میری ڈھیر ساری تعریفیں کیں اور پھر اچانک سب کچھ کوسرد بستے میں چلا گیا۔انہوں نے بتایا کہ ''اس وقت مجھے ایورسٹ مشن کے بعد فارغ ہوکر تھوڑا آرام کررہی تھی، مجھے ممتا بنرجی کے دفتر سے فون آیا۔ ممتابنرجی  کا دفتر چاہتا تھا کہ میں بنگال کا دورہ کروں۔ مگر میری ہی نہیں، بل کہ ساری وادی کے باشیوں کی مقدر کو کچھ اور ہی منظور تھا، 5 اگست کو حکومت ہند نے پارلیمنٹ میں ریاست جموں و کشمیرخصوصی درجہ لینے سے متعلق ایک بل منظور کرلیا۔ اسے مرکزکے زیر انتظام دو علاقوں (یونیں ٹیریٹری) میں تقسیم کرتے ہوئے علیحدہ آئین اور خصوصی حیثیت بہ یک قلم دونوں کو ہی ختم کردیا گیا۔ اس فیصلہ کے بعد ریاست بھر میں آمدو رفت سمیت تمام نوعیت کی سفری پاپندی عائد کردی گئی، حتیٰ کہ ٹیلیفون اور انٹرنیٹ خدمات کلی طور پر معطل کردیے جانے کی وجہ سے ناہیدہ کا بھی  بہت سے لوگوں سے رابطہ منقطع  ہوگیا۔ ''وہ اس بات سے قطعی ناواقف تھی  کہ محض 26 سال کی عمر میں  وہ  کشمیر سے دنیا کی بلند ترین چوٹی کو سر کرنے والی نہ صرف  تیسری شخصیت بن گئیں ہیں، بلکہ وہ ایسا کارنامہ انجام دینے والی مرکز کے زیر انتظام علاقہکی خاتون بھی بن گئی ہیں۔ ان کے علاوہ ایورسٹ کو فتح کرنے والے کشمیر کے دو دیگر افراد میں ایک فوجی اور ایک پولیس اہلکار شامل ہیں۔ایوریسٹ کو چھوکر شہرت حاصل کرنے والی ناہیدہ کی کہانی میں رومانس اور عزم و حوصلہ کے سبھی عناصر موجود ہیں۔ ان کے انٹرویو کے کچھ اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں

آپ نے ماونٹ ایورسٹ پر چڑھنے کا فیصلہ کیسے کیا؟

پہاڑوں نے ہمیشہ مجھے حوصلہ بخشا اور اس کی بلند و بالا چوٹی کو چھونے کی میرے اندر آرزو پیدا کی۔ بچپن میں میں اپنے گاوں کے آس پاس کی تمام پہاڑیوں اور چوٹیوں کی سیر کرتی تھی۔ میں مغل گارڈنس میں پکنک منانے کی  بجائے اپنے کزنز کو اپنے گھر کے قریب پہاڑیوں پر چڑھنے کے لیے ساتھ لے لیا کرتی تھی۔ میں نے اپنے گاو?ں کے پہاڑوں کی سبھی چوٹیوں کی ٹریکنگ کی تھی۔ کیندریہ ودیالیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران کھیلوں میں میری بڑی دل چسپی تھی جب کہ پڑھائی کرنا مجھے بہت پسند نہیں تھا۔ چار سال پہلے میں سری نگرکے وشوا بھارتی کالج سے گریجویشن کر رہی تھی۔ وہاں کے این سی سی ٹرینر نے مجھے بتایا کہ میں کوہ پیمائی کی ٹریننگ کے لئے اترکاشی جاسکتی ہوں۔ نہرو ماونٹینرینگ انسٹی ٹیوٹ میں سرٹیفکیٹ کورس کی صرف ایک سیٹ خالی تھی۔ مجھے اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ میری زندگی بدلنے والی ہے۔ میں نے اس ادارے سے ایک ابتدائی کورس کیا تھا اور پھر اس کے بعد میں نے کئی ایڈوانس کورس اور منالی میں ایک سال کا کورس کیا۔

ٹریننگ کے دوران میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے مشن میں کامیابی پانے کے لیے سخت کوشش دوسروں سے زیادہ جی جان لگاکر محنت کرنی ہوگی۔ خیال رہے کہ ذہنی اور جسمانی اسٹامینا حاصل کرنا ایک اچھا  کوہ پیما بننے کی کلید ہے۔ ٹریننگ کے دوران جب میں چڑئی کرتی تھی  تو ہمیشہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں دوگنا وزن اٹھا کر چلا کرتی تھی۔

Naheed Manzoor

ایک شوق جو جنون بن گیا

آپ نے کب سوچا تھا کہ ایورسٹ جانے کا وقت آگیا ہے؟

ٹریننگ کے دوران  میں جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط شخصیت کے طور پراپنے ہدف کی طرف بڑھ رہی تھی۔  ایک دن چڑثرھائی کے دوران ں لہراتے ہوئے میرے بال ٹریکنگ ہک میں پھنس گئے۔ ایسا واقعہ رونما ہونا بے حد خطرناک تھا۔ میرے کوچ بھی گھبرا گئے اور وہ مجھے بچانے کے لئے دوڑے۔ میں پرسکون رہی اور ان سے کہا کہ آپ  فکرمند نہ ہوں، میں نے ہُک سے اپنے بالوں کوچھُڑایا اور بہ حفاظت نیچے اتر گئی۔ اس واقعے کے بعد کر کوئی یہ کہنے لگا کہ  'اس لڑکی کے اندر کچھ خاص بات  ہے'۔ ٹریننگ کرتے اور چوٹیوں پر چڑھتے ہوئے میں اپنے اندر یہ عزم پالے ہوئی تھی کہ ایورسٹ تک پہنچنا ہی میرا اصل مقصد ہے۔ پھر میرے اندر حوصلہ جواں ہوتا رہا کہ میں اس چوٹی تک پہنچ پا نے کی ساری صلاحیتیں میرے اندر موجود ہیں اور اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوجاوں گی۔

ایورسٹ پر چڑھنا ایک کافی مہنگا اور حوصلہ آزما منصوبہ تھا، آپ نے رقم کا انتظام کیسے کیا؟

اس مشن کی لاگت تقریبا 30 لاکھ روپے ہے۔ میں نے سوشل میڈیا پر کلاوٗڈ فنڈنگ کے ذریعے رقم اکٹھا کیا۔ کچھ مقامی کمپنیوں، جموں و کشمیر کی اسپورٹس باڈیز، محکمہ سیاحت، سی آر پی ایف اور ضلع انتظامیہ نے بھی میرے مشن کے لئے مالی تعاون پیش کیا۔ نتیجہ کار آج  میں کامیاب ہوں، پھر اچانک بہت سے لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے ایڈونچرکو اسپونسر کیا تھا۔ (تھوڑا سا ہنستے ہوئے

naheeda

اہمت اجور عزم کی مثال ہیں ناہیدہ منظور

اپنی چڑھائی کے بارے میں بتائیں؟

اس میں تقریبا دو مہینے لگتے ہیں۔ ہمارا کل  پانچ کوہ پیماو?ں کا ایک گروپ تھا جو حیدرآباد میں واقع ہندوستان کی پہلی ایڈونچر کمپنی ایورسٹ ٹرانسینڈ ایڈونچرز کے زیر اہتمام روانہ ہوا تھا۔ ہم نے اپنے بیس کیمپ سے 6 اپریل کو اپنا سفر شروع کیا اور 10 دن میں وہاں پہنچ گیے تھے۔ وہاں میں نے قریب ایک مہینے تک آخری منزل تک پہنچنے کے لیے جسمانی ورزش کی اور توانائی حاصل کرتی رہی۔ ہر روز ہم ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ جاتے اور واپس لوٹ آتے۔ ہماری ٹیم کے ایک ساتھی کو صحت کی خرابی کی وجہ سے بیس کیمپ  سے ہی لوٹنا پڑا۔ میں نے اپنے گروپ میں شامل دوسرے کوہ پیماو?ں سے دوستی کرلی۔ حیدرآباد سے تُکا رام اور تروپتی و مہاراشٹر سے ایک جوڑاانجلی اور شرد کلکرنی تھے۔ انجلی میڈم نے اپنی بیٹی کی طرح مجھے چاہا اور میرے ساتھ ماں جیسا سلوک کیا۔ ہم نے تاش کھیلا اور بہت لطف اندوز ہوئے۔ میں نے ہر ایک کے لئے اپنی پسندیدہ پیاز کی چٹنی بھی بنائی، اور کبھی کبھی قہوہ (کشمیری چائے) اور لہسن کے ذائقے والے انڈے بھی بنائے۔ وہ مجھے ’کشمیر کی کلی‘ کہتے تھے۔

ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچنے میں آپ کو کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا؟

ماونٹ ایورسٹ تک چڑپہنچنے میں آپ کو چونکانے والے واقعات اور مختلف قسم کے منفی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے بھی اپنی زندگی کے سب سے بڑے سانحے کا سامنا کرنا پڑا، جب انجلی میم کیمپ 2 میں تھکن کی وجہ سے جان ہار گئیں اور ہمیشہ کے دنیا کو الوداع کہ دیا۔ میں نے انہیں آخری سانسیں بھرتے ہوئے قریب سے دیکھا۔ پھران نگہداشت کررہے شیرپا نے ان کے  شوہر شرد کلکرنی کو چھوڑکر ہم سب  کو وہاں سے جانے کوکہا۔ کیمپ-2 کی بالکونی میں اس کی موت ہوگئی۔ میں صدمے، غیر یقینی مایوسی اور خوف سے ٹوٹ گئی تھی۔ میری ہمت جواب دے رہی تھی۔ ایک عورت جو مجھے اپنی بیٹی کہتی تھی وہ دنیا چھوڑ رہی رہی تھی اور میں اس کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اس درمیان مجھے محسوس ہو کہ میں ڈوب رہی ہوں اور پھر اچانک مجھے اپنے والدین کا چہرہ یاد آیا اور ہمت لوٹ آئی۔ وہ رمضان کا مہینہ تھا، مجھے آخری چڑھائی کے پانچ دن بخوبی یاد ہیں، میرے والدین اور مجھے جاننے والے میرے واقف کار ہر ایک  میری محفوظ واپسی کے لئے دعاو?ں میں مصروف تھے۔

میں نے کئی لاشیں برف میں پڑی کئی لاشیں بھی دیکھی تھی۔ کچھ لاشوں کو نکالا جا رہا تھا۔ بلندی پرچڑھنا آپ کو انسانوں میں ممتازکرتی ہے تو کبھی کبھی آپ کی زندگی کے ہمیشہ کی ناکامی کے سانحے بھی لاکھڑا کرتے ہیں۔ میرے شیرپا نے میرے لئے ایکسٹرا آکسیجن سلنڈر لے جانے سے منع کردیا۔ میرے پاس دو سلنڈر تھے۔ کچھ شیرپا انسانوں کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ وہ صرف اس کمیشن کی فکر کرتے ہیں جو چوٹی پر پہنچنے کے بعد انہیں ملتا ہے۔

کوہ پیمائی کے دوران سب سے زیادہ اپنی خوشی اور صدمے کے بارے میں بتائیں؟

انجلی کی موت کے کی وجہ سے جب میں چوٹی پر پہنچی توبالکل ٹوٹ چکی تھی۔ میں جی بھر کر روئی، یہ خوشی اور غم کے آنسوتھے۔ ماو?نٹ ایوریسٹ تک پہنچنے کے بعد اپنے جذبات اور تجربے کو بیان کرنا مشکل ہے۔ میری دو انگلیاں اسٹیج 3 پر ٹھنڈ  لگنے (فرسٹ بائٹ) سے سوج گئیں تھیں۔ میں خوش قسمت تھی  کہ ایک غیر ملکی سے فوراً دوا  مل گئی جس کے پاس ایسے مرض سے نجات پانے کے لیے خاص قسم کی دوا موجود تھی۔ ورنہ مجھے اپنی انگلیاں کٹوانی پڑتی۔ بلندی کا یہ سفر آپ کے ضبط  اور حوصلے کا امتحان لیتا ہے۔ سفر کے ایک مرحلے میں میں بیماربھی ہوگئی تھی۔ میری آکسیجن کی سطح اچانک اس لیول تک نیچے چلی گئی تھی کہ اس مشن کو چھوڑنے کا امکانات واضح ہوگیے تھے۔ جب کہ میں اپنے سفر کو ترک کرنیکا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی، مایوسی کے عالم میں  میں خوب روئی  این ایس جی (نیشنل سیکیورٹی گارڈ) کی ایک ٹیم ہمارے کیمپ میں آئی اور مجھے تھپتھپایا۔ انہوں نے مجھ سے ایک اور رات کا آرام کرنے مشورہ دیا۔ مگر خوش قسمتی سے میں اگلی صبح بالکل ٹھیک تھی۔

naheeda manzoor

’ہمت ناہیدہ‘مدد خدا

 آپ نے کشمیر میں کیا برے تجربات کیے؟

کچھ لوگ ہمیشہ ایسے ہوتے ہیں جو اس بات کو قبول نہیں کرنا چاہتے کہ کشمیر کی ایک لڑکی ایورسٹ پر بھی چڑھ سکتی ہے۔ پہلے تو ان لوگوں نے میرے والدین سے کہا کہ میں صرف ایک لاش کی شکل میں واپس آو?ں گی۔ وہ مجھے طعنے دیتے تھے۔ کچھ لوگوں نے  سوشل میڈیا پر مجھے ٹرول بھی کیا اور کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ  میں ایک فراڈی ہوں۔ در حقیقت میں ایورسٹ پر نہیں چڑھ پائی، بلکہ لوگوں سے میں جھوٹ بول رہی ہوں۔ میں ایک بار اتنا افسردہ ہوگئی تھی کہ میں نے اپنی زندگی تمام کر لینے کا فیصلہ تک کرلیا تھا، لیکن میرے والدین نے مجھے اان حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت دلائی۔ کشمیر میں اشرافیہ کے لوگوں کو یہ پسند نہیں آیا کہ ہم جیسے لوگوں کو کامیابی کا جشن منانا چاہئے۔ غریب لوگوں کا کوئی دبدبہ یا اثر و رسوخ نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی کامیابی کی کوئی خبر سرخیاں بٹورنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ میں نے حکومت سے غریب بچوں کے لئے راک کلائمبنگ اور ایڈونچر اسپورٹس کا انتظام کرنے کی مانگ کی ہے۔

مستقبل کے لیے آپ کے کیا منصوبے ہیں؟

میں کشمیری نوجوانوں کو فطرت کے مناظر سے پیار کرتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں۔ ایک بار جب آپ فطرت سے جڑ گئے تو وہ کبھی بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑتی۔ جن لڑکوں نے منشیات، ڈرگس اور دوسری دواوں کا استعمال شروع کردیا ہے  وہ فطرت کی جانب لوٹنے کے بعد صحت یاب ہوجائیں گے اور ان کی بری لت جلد چھوٹ جائے گی۔ میں چاہتی ہوں کہ لڑکیاں ایڈونچر گیمز کو بڑے پیمانے پر کھیلیں۔ ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جو قدرت انسان کو عطا کرتی ہے۔ جب اتراکھنڈ، راجستھان، مہاراشٹر اور ہماچل پردیش جیسی ریاستوں کی بہت سی لڑکیاں بڑے پیمانے پر کوہ پیمائی کے لئے جاسکتی ہیں تو جموں وکشمیر کی لڑکیاں کیوں نہیں جاسکتیں؟

کس چیز نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا؟

میرے والدین نے سب سے زیادہ میری حوصلہ افزائی کی اور متاثر کیا۔ مجھے یقین ہے کہ لڑکیاں کچھ بھی کرسکتی ہیں بشرطیکہ ان کی کاوشوں کے مطابق والدین ان کی مدد کریں۔ میرے والد منظور احمد پامپوری پیشے سے ایک قصاب ہیں۔ وہ ہمیشہ لوگوں کو کہتے تھے کہ ان کی تین بیٹیاں ہی ان کے لیے بیٹے ہیں۔ اس نے ہمیں خواب بننے اور اسکول کے کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں  نے ہمارے