میزائل مین بننا چاہتے تھے’’دولہا‘‘ مگر ۔۔۔۔

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-07-2021
میزائل مین کی یادیں
میزائل مین کی یادیں

 

 

اے پی جے عبدالکلام کی چھٹی برسی کے موقع پر خراج عقیدت 

 

سریشتھا تیواری : چینئی 

میزائل مین و سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کی یوم پیدائش پر پیش ہے، ان کی بڑے پوتے اے پی ایم جے شیخ داؤد سے لیا گیا ایک خاص انٹرویو۔

اس انٹرویو میں داؤد میزائل مین کے ساتھ جڑی ہوئی اپنی یادوں کو قارئین کے روبرو پیش کیا ہے۔

یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ہر سال ’اے پی جے عبدالکلام فاؤنڈیشن‘ ان کی برسی کے موقع پر، قومی اور بین الاقوامی طلباء کے لئے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرتی ہے۔ یہ زیادہ تر ڈاکٹر اے پی جے کی تقاریر، طرز زندگی پر مبنی ہوتا ہے۔

واضح ہو کہ فاؤنڈیشن مختلف اداروں اور صنعتوں کے ساتھ مل کر بھی کام کرتی ہے۔ ماحولیات کے موضوعات پر وہائٹ ​​پیپرز پیش کرتی ہے جن پر ڈاکٹر کلام نے توجہ مرکوز کی تھی۔جیسے سی او ٹو(CO2) کے اخراج۔

اے پی جے عبدالکلام کے بڑے پوتے داؤد کہتے ہیں۔ گھر پر اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا ان کو اچھا لگتا تھا، وہ ہمیشہ میری اور میرے بھائی سلیم کی ہمت بڑھاتے رہتے تھے اور اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بھی ہم لوگوں پر توجہ دے رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2008 میں جب اے پی جے عبدالکلام  صدر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے تو وہ تقریباً 8 پروگراموں میں شرکت کے لئے ریاست مہاراشٹر کے شہر پونہ تشریف لائے تھے، جہاں انہیں ایک ہی دن میں تقریر کرنا اور طلباء سے گفت و شنید کرنا تھا۔

داود کہتے ہیں کہ ’’پونہ میں، میں اس وقت ایک آئی ٹی کمپنی میں کام کر رہا تھا۔ اس دن شام سات بجے کے لگ بھگ ، انھوں نے مجھے اپنے اس ہوٹل میں بلایا، جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔

میں اس وقت یہ جاننے کے لئے بے چین تھا کہ اس کی عمر کے اس پڑاؤ (74) کے میں آکر کوئی شخص کیسے ایک ہی دن میں  پے در پے مسلسل آٹھ پروگرام میں شرکت کر سکتا ہے، میں فوراً ان سے یہی سوال کر ڈالا۔

اس پر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے فوراً جواب دیا کہ میں نے اپنی ساری زندگی اور اپنے علم کو ملک کی نوجوان نسلوں کے لیے وقف کر دیا ہے۔ ہر روز جب میں سوکر اٹھتا ہوں تو یہی سوال کرتا ہوں کہ آج میں نے ان کے لیے کیا کیا؟ جب آپ کے ذہن میں ہر روز اس قسم کے خیالات آئیں گے تو خود بخود ایسے سوال نہیں آئیں گے کیوں کہ ملک کے لیے تعاون کے مقابلے میں ان سوالوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ڈاکٹر کلام کی باتوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نےسوچا کسی اور ملک کے وزیراعظم یا صدر کو اس قسم کے پروگرام میں جانا تو آرگنائیزر کو ہر پروگرام میں شرکت کے لیے پیسے دینے ہوتے، لیکن یہ بڑا عجیب اتفاق بلکہ حسن اتفاق ہے کہ کلام نے اپنے کسی بھی پروگرام کے لیے کوئی پیسےنہیں لیے، سب کچھ فری میں کیا۔

داؤد کے بقول انھوں نے سماج کو صرف دینے کا سوچا، انھوں نے، بدلے میں سماج سے لینے کی بات کبھی کی ہی نہیں۔

 شیخ داؤد نے کہا کہ چنئی میں 2013 کا ایک اور واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ڈاکٹر کلام نے کبھی کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا۔ یہ گرم دوپہر کا وقت تھا۔ اس وقت ان کی 80 عمر سے زائد ہو رہی ہے۔ میں ان کے ساتھ تھا۔ وہ ہوٹل سے اپنے پروگرام میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ 500-600 آدمیوں کا ہجوم ان سے آٹوگراف لینے کے لیے ٹوٹ پڑا۔ یہ ایک مشکل مسئلہ تھا۔ تاہم انھوں نے بہت خوش اسلوبی سے اس کو حل کیا۔

اس بھیڑ میں ایک ضعیف انسان بھی تھا اوراسی بھیڑ میں ایک 7 سال کا لڑکا بھی تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر کلام نے بوڑھے اور سات سالا  لڑکے دونوں کو بلایا اور اپنا آٹوگراف انہیں دے دیا۔

بعدازاں جب میں نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے ایسا کیوں کر کیا۔

ڈاکٹر کلام نے کہا کہ بوڑھا آدمی اپنی زندگی کے اختتام کے قریب ہے اور وہ اپنی زندگی کے آخری مراحل سے گزر رہا ہے۔ جب کہ اسی وقت کم عمر لڑکا اپنی زندگی کا آغاز  کر رہا ہے۔ میں ان دونوں کوخوش کرنا چاہتا تھا۔

شیخ داؤد کہتے ہیں یہ کہنا بالکل غلط ہے ڈاکٹر کلام قوم کی خدمت کے سبب کبھی بھی شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ انہیں شادی میں دلچسپی تھی اور وہ کنوارہ نہیں رہنا چاہتے تھے۔ کئی بار رشتے بھی طے ہوئے مگر ان کی مصروفیت اس قدر تھی کہ وہ شادی نہیں کر سکے۔

شیخ داؤد نے کہا کہ ابھی ملک کورونا وائرس کی وجہ سے ایک بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ڈی آر ڈی میں بن رہی لائبریری کی عمارت کبھی بن سکتی ہے۔ ملک کو بحرانی دور سے بچانا ہے، ملک کی ترقی ہی اے پی جے عبدالکلام کا خواب تھا۔