ایم ایف حسین : فن مصوری گھوڑوں سے مادھوری تک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-09-2021
یاد رکھے گی دنیا
یاد رکھے گی دنیا

 

 

ایم ایف حسین کے یوم پیدائش پر 

دراصل دنیا میں بہت کم ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں جنہوں نے نہ صرف زندگی میں بے پناہ شہرت حاصل کی ، مرنے کے بعد بھی برسوں تک لوگ انہیں بھولا نہیں پائے ۔ایسی شخصیات میں ہی ایم ایف حسین بھی شامل ہیں ۔

عظیم مصور مقبول فدا حسین کی پیدائش17 ستمبر 1915 میں ہندستان کے ایک چھوٹے سے علاقے میں ہوئی تھی۔گھرانہ مذہبی سلیمانی بوہری تھا جو داؤدی بوہریوں سے جدا ایک چھوٹا سا فرقہ ہے۔ان کی مادری زبان گجراتی تھی۔

ہندو دیویوں کی مصوری سے لے کر بالی وڈ اداکارہ مادھوری ڈکشٹ تک ، حسین نے اپنے کام کی تعریف اور تنقید دونوں حاصل کی ہیں۔ اگرچہ بہت سراہا گیا ، اس کے کام نے وقتا فوقتا مختلف تنازعات کو بھی جنم دیا اور اسے اپنے وطن سے دور آخری دن گزارنے پر مجبور کیا۔ ایم ایف حسین نے ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کے پوسٹر بنانے شروع کردیئے تھے۔حسین کے والد نے بہت چاہا کہ وہ کاروبار کی طرف مائل ہو جائیں لیکن ان کا رجحان تو پیٹنگ کی جانب تھا۔

انہوں نے اپنی پہلی آئل پینٹنگ دکان پر ہی بیٹھ کر بنائی۔ان کے چچا جنہیں یہ دکان ان کے باپ ہی نے بنا کر دی تھی، یہ دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور ان کے والد کو بتایا۔جب ان کے والد نے وہ تصویر دیکھی تو مقبول حسین کو گلے لگا لیا۔

ان کے باپ نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور کہا '' بیٹا جاؤ اور اپنی زندگی کو رنگوں سے بھر دو، ان کے باپ کے ان الفاظ کے ساتھ یہاں سے حسین کی پیشہ ورانہ فنی زندگی کا آغاز ہوتا ہے ۔

سال 1934 میں اندور کی ایک سڑک کنارے حسین کی پہلی تصویر دس روپے میں فروخت ہوئی اور اس کے بعد حسین نے مانو مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔

ایم ایف حسین نے چار آنے سے ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے کمانے تک کا سفر یوں ہی اور آسانی سے طے نہیں کیا بلکہ برسوں کی محنت اور اپنے کام سے لگن کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچے۔

گھوڑے کیوں بنے تھے توجہ کا مرکز 

ایم۔ایف حسین نے خاص طور پر ’’گھوڑوں ‘‘ کو اپنے فن کا ذریعۂ اظہار بنایا تھا۔ ’گھوڑا ’ جو مردانہ وجاہت، طاقت، پھرتی اور وفاداری کی علامت ہے۔ یہی گھوڑا حسین کے فکر و فن کی پہچان بن گیا۔

گھوڑوں کی مصوری نے انہیں ایک پہچان دی تھی۔ ہوا سے بات کرتے گھوڑے اور بے قابو گھوڑے ،ہنہناتے ہوئے گھوڑے اور جھنڈ  میں دوڑتے گھوڑے۔ان مصوری کے ساتھ ایم ایف حسین نے دنیا کو بتایا تھا اس فن میں لمبی دوڑ کا گھوڑا داخل ہو چکا ہے۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ان کا گھوڑوں سے عشق مادھوری سے عشق میں بدلا تو یہ چھلانگ بھی انہوں نے گھوڑے کی پیٹھ پر مادھوری کی پینٹنگ بناکر ماری تھی۔

مادھوری سے عشق

ایم ایف حسین بس ایک آرٹسٹ تھے۔فن کار تھے۔جسن نواز تھے اور حسن کار تھے۔جہاں کہیں انھوں نے حسن دیکھا اس کی قدر کی۔

انھیں ہندوستانی فلم اکٹریس مادھوری ڈکشٹ میں حسن دکھائی دیا اور وہ اس کے گرویدہ ہو گئے بے شمار تصاویر مادھوری کی بنا ڈالیں۔

خود مادھوری نے بھی ان کے جذبۂ وفا کی قدر کی بلکہ پذیرائی کہ۔ایم۔ ایف حسین جیسا عالمی سطح کا عاشق اسے کہاں مل پاتا اور پھر بقول غالب، اس کا بگڑنا ہی کیا تھا۔ حسین کہتے تھے۔ “زیادہ تر لوگ جاہل ہیں ، پینٹنگ کی زبان کیا ہے۔ تم جانتے ہو کہ وہ جاہل ہیں۔ ان کو آگاہ کرنا بہت مشکل ہے ، لیکن وقت انہیں سکھائے گا۔

ایم ایف حسین فلم اداکارہ سری دیوی کے بہت بڑے مداح تھے، لیکن 1994 میں منعقدہ ’فلم فیئر ایوارڈز‘ کی تقریب میں سال کی بہترین اداکارہ کے ایوارڈ کے لیے ایک ایسی اداکارہ (مادھوری دکشت) کے نام کا اعلان کرنا پڑا جن کی انہوں نے ایک بھی فلم نہیں دیکھی تھی۔

اپنی خود نوشت ’ایم ایف حسین کی کہانی اپنی زبانی‘ میں لکھتے ہیں: ’سال 1994، مقام جوہو سنتور ہوٹل کا سمندری کنارہ۔ فلم فیئر ایوارڈز کی جگمگاتی رات۔ جیا بچن اور پرمیشور گودریج کے ساتھ ایم ایف اس ’ٹنسل ٹاؤن‘ کے شاندار تماشے میں پہنچے۔

انہوں نے سال کی بہترین اداکارہ کے نام اعلان کرنے۔ لفافہ کھولا، نام پڑھا، مادھوری دکشت، پھر کچھ دیر خاموش، کیوں کہ اس نام کی ایکٹرس کی فلم ایم ایف نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔ ہاں ’دھک دھک‘ کا بازاری گانا لاؤڈ سپیکر سے کانوں میں پڑتا رہا ہے۔

ان دنوں ایم ایف کی نظر صرف سری دیوی کے ناچ گانے پر لگی ہوئی ہے، پھر بھی ہمت کی، ایک گہری سانس بھری اور گرج کر کہا

 ’اینڈ دا ایوارڈ گوز ٹو دھک دھک مادھوری دکشت‘

 تالیاں گونج اٹھیں، مادھوری سٹیج پر آئیں۔

 لوگوں کی آنکھیں مادھوری اور مقبول پر جم گئیں۔ایسی جمم گئیں کہ اپنے فن کو اس سے جوڑ لیا۔

 ایم ایف حسین نے اپنے برش اور رنگوں کی مدد سے مادھوری دکشت کی درجنوں تصویریں بنائی تھیں جن میں سے اکثر ایسی ہیں جن میں مادھوری کا چہرہ واضح نہیں ہے۔

 ایم ایف حسین لکھتے ہیں: ’شروع شروع میں مادھوری سے کسی صحافی نے پوچھا کہ یہ حسین کیا ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ ہر پینٹنگ میں بس مادھوری ہے، کہاں ہے؟ چہرہ ہی غائب، کوئی بھی عورت ہو سکتی ہے تصویروں میں۔

تو مادھوری نے جواب دیا --- ’حسین جی میری پہچان نہیں کرا رہے بلکہ میرا وجود منوا رہے ہیں۔‘

ایف ایم حسین اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ مادھوری پر فلم ’گج گامنی‘ بنانے کے بعد انہیں اپنے اندر کے ’مصور مقبول‘ نے جگایا۔ ۔

وہ کہتے تھے ۔۔۔

میں صرف اپنی روح سے جبلت کا اظہار کرتا ہوں۔”

“وہ مجھے جنگل میں ڈال سکتے ہیں۔ پھر بھی ، میں بنا سکتا ہوں۔ “

۔“جہاں بھی مجھے محبت ملے گی میں اسے قبول کروں گا۔”

۔“میں ایک لوک پینٹر کی طرح ہوں۔ پینٹ کرو اور آگے بڑھو “

۔“الہام اور لمحے کے بارے میں یہ سب باتیں فضول ہیں” “ثقافتی طور پر ، ہم (ہندوستانیوں) کا ایک منفرد مقام ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ ایک زندگی اس کو گھیرنے کے لیے کافی ہے۔

“اور لوگوں تک پہنچنے کا بہترین طریقہ ایک سپر اسٹار کو پینٹ کرنا ہے۔”

“میں نے اپنے فن کے ذریعے کسی کے عقائد کو بدنام کرنے یا اسے مجروح کرنے کا ارادہ نہیں کیا ہے۔”

“میں ایک ہندوستانی نژاد مصور ہوں۔ میں اپنی آخری سانس تک اسی طرح رہوں گا۔