یادیں اور باتیں: شعلوں اور برفباری کے دوران ہوئی تھی دلیپ کمار کی پیدائش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-07-2021
یادیں اور باتیں
یادیں اور باتیں

 

 

منصور الدین فریدی۔نئی دہلی

۔ دلیپ کمار کی پیدائش پشاور کے آبائی مکان میں شعلوں اور برفباری کے دوران ہوئی تھی۔

۔ دادی جان کو یقین تھا کہ ’آگ اور طوفان کے درمیان پیدائش میں کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ 

دلیپ کمارچل بسے ،طویل بیماری کے بعد آج صبح انہوں نے ممبئی کے پالی ہل کی رہائش گاہ میں آخری سانس لی۔وہ بالی ووڈ کے شہنشاہ تھے۔ پردے پر چھانے کےبعد سے آخری سان تک انہیں کوئی اس درجہ یا رتبہ سے اپنے آبائی مکان کو یاد کیا کرتے تھے ،جسے اب حکومت پاکستان نے قومی یادگار میں تبدیل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ خود دلیپ کمار نے بھی یہی خواہش ظاہر کی تھی۔کچھ قانونی داو پینچ کے سبب  اس میں کچھ تاخیر ضرور ہوئی ہے لیکن اب یہ مکان حکومت کی تحویل میں ہے۔ دلیپ کمار نے اپنی کتاب میں بھی ان یادوں کا ذکر کیا تھا۔جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں اپنے خاندانی مکان سے کس قدر لگاو تھا۔

پشاور میں آنکھیں کھولنے والے دلیپ کمار کی آنکھیں ممبئی میں بند ہوگئیں ۔ ان کی یادوں کی بات کریں تو آبائی مکان کی یادیں اور باتیں ان کی زبانی ہی سنیں ۔پیش خدمت ہےان کی کتاب سے کچھ اقتباسات۔ 

دلیپ کمار کا پشاور میں آبائی مکان اب تک ان کی یادوں میں قید تھا لیکن اب سرخیوں میں ہے۔ دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ ’یادگار‘ بنائے جانے کے اعلان اور پھر اس کو سرکاری تحویل میں لینے کے عمل میں تنازعات اور رکاوٹوں نے بھی اس مکان کو خبروں کا حصہ بنا دیا تھا مگر اب راہ ہموار ہوچکی ہے۔ اب لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اس خستہ حال مکان کے پیچھے کیا کیا کہانیاں ہیں۔خود دلیپ کمار نے اس مکان کو کس طری اپنی یادوں میں زندہ رکھا ہے،وہ حیران کن ہے۔

دنیا یقینا یہ جاننا چاہتی ہے کہ وہ کونسی یادیں ہیں جن کے سبب دلیپ کمار کا دل اب بھی اس خستہ حال مکان کیلئے دھڑکتا ہے۔جب اس کی کھوج میں آپ دلیپ کمار کی آٹو بائیو گرافی پر نظر ڈالیں گے تو اس کے کئی اہم پہلو اور واقعات سامنے آئیں گے۔اس میں سے ایک یہ ہے کہ جب دلیپ کمار کی اس مکان میں پیدائش ہوئی تھی تو سخت سردی کا موسم تھا۔برفباری بھی ہوئی تھی۔جبکہ پورا علاقہ آگ میں گھرا ہوا تھا۔اسی آگ اور برف کے درمیان پیدائش ہوئی تھی دلیپ کمار کی۔

اس واقعہ کا ذکر خود دلیپ کمار نے اپنے لفظوں میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ

۔۔ ”میرے چاچا عمر اس رات کا ذکر کثرت سے کرتے تھے جس رات میری پیدائش ہوئی تھی اور سناروں کی گلی میں جہاں ان کی دکانیں اور ورکشاپیں تھیں،آگ بھڑک اٹھی۔ ہمارے گھر کی گلی کا شمارقصہ خوانی بازار کی مصروف ترین گلیوں میں ہوتا تھا۔ وہاں سناروں کے گھر تھے اور ورکشاپیں بھی۔ اس گلی میں دن رات لوگوں کا کاروباری یا ذاتی سرگرمیوں کے حوالے سے رش لگا رہتا تھا۔ حتیٰ کہ تب بھی جب باقی ساری دکانیں بند ہو چکی ہوتی تھیں“۔

dk

مکان کا اندرونی حصہ کا ایک منظر

شہنشاہ جذبات کہیں یا ’ٹریجڈی کنگ‘۔ایک ایسا نام تھا جس کے دیوانے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ہیں۔ایک ایسا فلمی نام جو کئی دہائیوں سے فلموں سے دور رہا لیکن فلمی دنیا اب بھی اس کیسحر سے آزاد نہیں ہوسکی ۔مگر پچھلے چند سال کے دوران دلیپ کمار صر ف صحت کے تعلق سے خبروں میں رہے تھے۔ کبھی اسپتال میں داخلہ تو کبھی رخصتی۔ہر کوئی شہنشاہ جذبات کی صحت اور دراز عمر ی کا خواہاں رہا اس کے ساتھ  کچھ دنوں سے دلیپ کمار سرخیوں میں رہے لیکن اس بار بات صحت یا فلموں کی نہیں بلکہ ان کے آبائی مکان کی تھی پشاور میں ان کا آبائی مکان میوزیم کا در جہ حاصل کرنے سے دو قدم کی دوری پر ہے،حکومت پاکستان نے دلیپ کمار کے ساتھ راج کپور کے مکان کو بھی محفوظ کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن ان کے مکان مالک اب قیمت کے معاملہ میں اڑ گئے تھے۔ انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ خستہ حال مکان ان کی قسمت بدلنے کے اہل ہیں۔کیونکہ یہ مکان جن اداکاروں کے ہیں وہ بالی ووڈ کے بے تاج بادشاہ رہے ہیں۔اب معاملہ حل ہوچکا ہے

دلیپ کمارنے اپنی زندگی کی کہانی کوکتاب کی شکل میں پیش کیا تھا۔ان کی داستان حیات دو تہذیبوں اور دو سرزمینوں پر پھیلی ہوئی ہے۔جس میں انہوں نے کئی ایسے پہلوؤں اور واقعات پر روشنی ڈالی ہے جن سے دنیا بے خبر رہی تھی۔اسی موضوع پر دلیپ کمار نے مزید لکھا ہے کہ

۔۔ ”جس رات میں پیدا ہوا،اس رات آگ کا بھڑکنابھی ایک داستان بن گیا تھا۔ اس رات دکاندار اپنی دکانیں بند کر رہے تھے تو ان میں سے ایک دکان میں آگ بھڑک اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوا کی مدد سے وہ آگ بڑی تیزی سے شعلوں کی شکل اختیار کر گئی۔ اور اس نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خوف اور گھبراہٹ کا ایک عالم تھا اور بہت سے مرد آگ بجھانے کیلئے پانی کی بالٹیاں بھر کر لانے کیلئے وہاں اکٹھے ہو گئے۔ یہ کام بہت کٹھن اور محنت طلب تھا کیونکہ سردی کی وجہ سے پانی کے ٹینکوں کے اوپری حصوں میں برف جم چکی تھی۔ لیکن سخت جان اور مضبوط جسم کے مالک پٹھان اپنے طاقتور مکوں کی مدد سے اوپری برف کی تہوں کو توڑ کر ٹینکوں کے نیچے سے پانی کی بالٹیاں بھر کر لا رہے تھے“۔

dkk

    دلیپ کمار کے آبائی مکان کا بیرونی اور اندرونی حصہ

دلوں پر راج کرنے والے دلیپ کمار اب اپنی زندگی کی 98بہاروں کا دیدار کر گئے۔دلیپ کمار کی پہلی فلم 1944 میں آئی تھی اور آخری 1998 میں۔مگر 22سال گزر جانے کے بعد بھی فلمی دنیا میں کوئی ایسا ’مائی کا لعل‘ نہیں آیا جس نے دلیپ کمار کے مقام اور رتبہ کو چھونے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہوا۔وہ ایک بار پشا ور گئے تھے۔ ان گلیوں میں بھی گھومے تھے جہاں بچپنگزرا تھا۔ظاہری بات ہے کہاس مکان کو کیسے بھول سکتے ہیں جہاں سنہری یادیں جڑی ہوں۔وہ اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ

۔۔۔ ”میں آگ اور طونان کے بیچوں بیچ جنم لے چکا تھااور یہ رات انہو ں نے واقعات سے بھری تھے۔ہر کسی کا ایمان کی حد تک یقین تھا کہ اس رات پیدا ہونے والا بچہ کوئی عام نہیں ہوسکتا۔پشاور میں پھر کبھی ایسی رات نہیں آئی۔ہمارے گھر کے سبھی مرد بھی آگ بجھانے میں اپنے دوسرے بھائیوں کی مدد کیلئے اْس گلی کی طرف بھاگے جہاں آگ لگی ہوئی تھی لیکن چاچا عمر کو گھر کی عورتوں کے اکیلے ہونے کی وجہ سے گھر پر ہی چھوڑ گئے۔ اور وہ چاچا عمر ہی تھے جو اس رات میری والدہ کے لئے دائی اماں کو بلانے کیلئے گئے کیونکہ مجھے اس دنیا میں تشریف لانا تھا۔ پہلے وہ دائی اماں کو بحفاظت ہمارے گھر لائے اور اس کے بعد آغا جی کو تمام تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لئے بھاگے“۔

dkk

خستہ حال مکان کی چھت 

ساٹھ سے زیادہ فلموں میں اپنی اداکاری کا لوہا منوانے والے دلیپ کمار کی پہلی فلم ”جوار بھاٹا“ تھی جو 1944 میں سینما گھروں کی زینت بنی تھی۔ انداز،آن،دیوداس،آزاد،مغل اعظم،کنگا جمنا،شکتی،کرما،کرانتی،سوداگر نے انہیں عرش پر پہنچایا تھا جبکہ ان کی آخری فلم ”قلعہ“ تھی جو 1998 میں ریلیز ہوئی تھی۔دلیپ کمار نے 9 فلم فئیر ایوارڈ حاصل کئے تھے۔ حکومت کی طرف سے ”پدما بھوشن ایوارڈ“،”دادا صاحب پھالکی ایوارڈ“ اور پدما ویبھوشن ایوارڈ“ دیا گیا۔ اور 2015 میں انہیں راجیہ سبھا میں اعزازی سیٹ بھی دی گئی تھی۔یہاں تک کہ 1997 میں حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں سینئر فوجی اعزاز ”نشانِ امتیاز“ سے بھی نوازا تھا۔ دلیپ کمار اپنی یاوں کو بہت کچھ سمیٹے ہوئے ہیں۔ یقینا جو اس آبائی مکان کی کوئی خبر آتی ہوگی تو ان کی یادیں تازہ ہوجاتی ہونگی۔اسی لئے دلیپ کمار نے اس میں دلچسپی ظاہر کی  تھی کہ اس مکان کو یادگار بنایا جائے۔ کتاب میں وہ مزید کہتے ہیں کہ

۔۔۔ ”صرف دادی ہی نہیں محمد سرور خان اور عائشہ بی بی کے گھرانے کا ہر فرد مناسب موقع ملنے پر میری پیدائش کی عظیم داستان سنا تاتھا۔ جیسے یہ کوئی انہونی بات ہو۔ وہ 11 دسمبر 1922 کا دن تھا۔ مجھے شک ہے کہ شاید 11 دسمبر کا وہ دن،پشاور کی تاریخ میں بھی درج ہو گا اس لئے نہیں کیونکہ اس دن میں پیدا ہوا بلکہ اس لئے کیونکہ اس دن سناروں کی ورکشاپوں میں آگ لگی تھی۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں،اس سے پہلے اور اس کے بعد کبھی بھی اس طرح کا کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا جس طرح کا سانحہ سناروں کی گلی میں پیش آیا تھا۔ میری دادی جان کے خیال میں آگ اور طوفان کے درمیان میری پیدائش میں کوئی حکمت چھپی ہوئی تھی۔“

یہ تھی دلیپ کمار کی پیدائش کی کہانی خود ان کی زبانی۔ ان کے دل و دماغ پر پشاور کی یادوں کا گہرا اثر ہے،وہ کسی گلی کو بھولے اور نہ ہی کسی رشتہ دار کو۔ ان یادوں کو انہوں نے اپنی کتاب میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔اب وہ چاہتے ہیں کہ اس مکان کو بغیر کسی رکاوٹ کے یادگار میں تبدیل کردیا جائے۔اس سلسلے میں ان کے ترجمان کا بیان بھی سامنے آچکا ہے کہ یہ مکان دلیپ کمار کے دل کے بہت قریب ہے اس لئے پاکستانی حکومت اس سے جڑے مسئلہ کو جلد سے جلد حل کرلے گی اور اب یہ سب مسئلہ حل ہوچکے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ دلیپ کمار کا یہ خواب کب حقیقت میں تبدیل ہوتا ہے۔