مفتی خاندان : وراثت کی نگہبان بنیں محبوبہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 19-03-2022
مفتی خاندان :  وراثت کی نگہبان  بنیں محبوبہ
مفتی خاندان : وراثت کی نگہبان بنیں محبوبہ

 

 

آشا کھوسا،نئی دہلی

مسلم معاشرے میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے جب کوئی خاتون اپنے خاندانی وراثت کی ناہبان بنتی ہے۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں۔ 

 محبوبہ مفتی کے علاہ مفتی محمد سعید کی دیگر اولادیں زندگی میں اتنی کامیاب نہ ہوسکیں جتنا انہیں ہونا چاہئے۔ اپنے دیگر بہن بھائیوں کے برعکس محبوبہ مفتی نہ صرف جموں و کشمیر کی سب سے مشہور خاتون رہنما بن گئیں بلکہ انہیں وہاں وزیراعلیٰ بننے کا بھی موقع ملا۔ گویا محبوبہ مفتی نے اپنے والد کی وراثت و خواب کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہندوستان کے پہلے اور واحد مسلم وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی سربراہی میں مفتی خاندان درحقیقت کشمیر کے سب سے بااثر سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے۔ اس خاندان نے سابق ریاست یعنی جموں و کشمیر کو دو وزرائے اعلیٰ دیے ہیں۔

awazthevoice

محبوبہ مفتی اپنے والد کے ساتھ

پائپ کےساتھ سگریٹ نوشی کرنے والے مفتی محمد سعید ایک تجربہ کار کانگریسی رہنما تھے۔ بعد ازاں اپنی سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) کی تشکیل کا فیصلہ کیا۔ سنہ 2000 کے اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس کی بالادستی کو ختم کر کے جموں و کشمیر کی سیاست پر وہ پوری طرح حاوی ہوگئے۔ تاریخ اس ریاست کو بانٹنے میں مفتی خاندان کے کردار کا فیصلہ کرے گی جہاں کبھی اس خاندان کی حکومت تھی۔ مفتی محمد سید اننت ناگ کے قصبہ بیجبہاڑہ میں ایک بزرگ کے گھر میں پیدا ہوئے۔ سری نگر میں اپنی بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، وہ عربی میں ماسٹرز کرنے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے۔

تاہم اے ایم یو سے واپسی پر وہ شیخ عبداللہ کی قیادت والی نیشنل کانفرنس اور بعد میں کانگریس پارٹی میں شامل ہو گئے۔ کانگریس میں رہتے ہوئے وہ نیشنل کانفرنس کے زیر تسلط کشمیر میں میونسپلٹی کی ایک نشست بھی جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مگر بعد میں انہوں نے جموں و کشمیر کی سیاست کا رخ بدل ڈالا۔

مفتی محمد سعید ایک عظیم تنظیمی مہارت رکھنے والے رہنما تھے۔ تاہم اپنے حلقے میں وہ معمولی مقرر کے طور پر جانے گئے۔ جموں و کشمیر سے انہوں نے واحد انتخاب جیتا تھا۔ یہ جموں کے رنبیر سنگھ پورہ سے لوک سبھا کی نشست تھی۔ تاہم وہ خوش قسمت تھے کہ پہلے راجیو گاندھی کی کابینہ میں  وزیر سیاحت  بنائے گئے اور بعد میں وی پی سنگھ کی قیادت والی جنتا دل میں ہندوستان کے پہلےاور اب تک کے واحد مسلم وزیر داخلہ بنائے گئے گئے۔

یہ بڑاعجیب اتفاق ہے کہ مفتی محمد سعید انتخابی حمایت کے بغیر ہندوستان کے اعلیٰ عہدوں پر پہنچ گتے۔ اس کے باوجود مفتی محمد سعید نے ہمیشہ جموں و کشمیر سے انتخابات جیتنے کا خواب دیکھا۔ اور ان کا خواب اپنے سیاسی کیرئیر کے مشکل ترین حالات کے درمیان پورا ہوا۔ وہ ایک لمبی مدت تک جموں و کشمیر میں کانگریس پارٹی کے ریاستی سربراہ رہے۔ پھرجب ایک دہائی کے وقفے کے بعد جموں و کمشیر میں اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوا تو وہ وہاں کے انچارج بنائے گئے۔ اس دوران کشمیر میں دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ سکیورٹی فورسزکی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کی گئی۔اسی تناظر میں غائب سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر تالے لگا دیے گئے۔

سنہ 1996 میں دیو گوڑا حکومت نے جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا اعلان کیا اور مفتی محمد سعید کو ریاست کی ذمہ داری دی گئی کہ امیدواروں کو اپنے دائرہ کار سے منتخب کریں۔ اگرچہ اس وقت لوگ الیکشن لڑنے سے خوفزدہ تھے۔ مایوسی کے عالم میں مفتی محمد سعید نے اپنے اہل خانہ کو انتخابات میں اتارنا چاہا۔ انہوں نے اپنے دو بھائیوں کے ساتھ ساتھ اپنی اہلیہ گلشن آرا کو بھی الیکشن میں کھڑا ہونے کے لیے کہا۔

awazthevoice

محبوبہ مفتی دیہی خواتین کے ساتھ

اگرچہ مفتی محمد سعید کی اہلیہ خالص گھریلو تھیں اور ایک اچھی بیوی تھیں؛انہوں نے کبھی لیڈر بننے کی خواہش نہیں کی۔ وہ اگرچہ بے چین تھیں، مگروہ اپنے شوہرکومنع بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ مفتی محمد سعید نے اپنے گھر میں رہنے والی اکلوتی بیٹی محبوبہ مفتی سے اس بارے میں پوچھا۔ محبوبہ مفتی کی شادی ٹوٹ چکی تھی، وہ اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ ان کے پاس آکررہ رہی تھیں۔

خیال رہے کہ محبوب مفتی نے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔ کشمیر یونیورسٹی میں ان کے ہم جماعتوں نے انہیں ایک خوش مزاج اور تیز لڑکی کے طور پر دیکھا تھا۔ مگر اس لڑکی کی زندگی میں کوئی خاص خواہش نہیں تھی۔ وہ اپنے چار بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں اور ان کی طلاق کو خاندان نے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا۔ ان کی شادی پھوپھی زاد بھائی سے ہوئی تھی۔ اگرچہ محبوبہ مفتی اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ اپنے شوہر جاوید اقبال سے خلع  لینے کے بعد دہلی چلی گئی تھیں تاکہ اپنے اس جرات مندانہ قدم پرسماجی ردعمل سے بچ سکیں۔ وہ جانتی تھی کہ ان کا خاندان ان کے اس فیصلے سے ناخوش ہے۔

ان کی دو سگی بہنیں محمودہ اور روبیہ میڈیکل ڈاکٹر تھیں۔ جب کہ ان کے بھائی تصدق مفتی امریکہ میں فلم ساز بننے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

محبوبہ مفتی نے ایک بار مجھے بتایا کہ جب ان کے والد نے ان سے اتفاقاً پوچھا کہ کیا وہ اسمبلی انتخابات کے لیے کانگریس پارٹی سے امیدوارکے طور کھڑی ہوسکتی ہیں۔مفتی محمد سعید کی منشا یہ تھی اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پارٹی کم از کم اپنی موجودگی ظاہر کر سکے گی۔ اپنے والد کے سوال پرانہوں نے فوراً ہاں میں جواب دیا۔ اگرچہ دو چھوٹی بچیوں کی ماں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ الیکشن لڑنے کا کیا مطلب ہے۔ وہیں اس الیکشن کے خلاف دہشت گردوں نے فتویٰ بھی جاری کر رکھا تھا۔

awazthevoice

محبوبہ مفتی اپنے بھائی تصدق مفتی کے ہمراہ

 انہوں نے اپنے والد کے چہرے پر پھیلتی ہوئی لکیروں کو غور سے دیکھا اور وہ مطمئن ہوگئیں۔ اور پھر اس کے بعد الیکشن کی مہم چل پڑی۔ محبوبہ مفتی کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ علیحدگی پسندوں کی ارد گرد کس حد تک رسائی ہے۔ وہ سخت سیکورٹی کے بیچ دیہاتوں کا دورہ کرتی رہیں اور خواتین سے مل کر ان کے طرز پر بات کرتی رہیں، ان کے مسائل کو سمجھتی رہیں اور ان سے ووٹ ڈالنے کی اپیل کرتی رہیں۔

انہوں نے ان خواتین سے کہا کہ میں آپ کا درد بانٹنے آئی ہوں؛اب اپنے زخموں پرخود مرہم لگاو۔ یہ محبوبہ مفتی کی ٹیگ لائن تھی جب وہ اپنے والد کے ساتھ جنوبی کشمیر کے دیہاتوں میں سخت سکیورٹی کے ساتھ پہنچی تھیں۔ کوئی انتخابی جلسہ نہیں کیا گیا اور وہ صرف میگا فون سے ان سے خطاب کرتی تھیں کیونکہ ووٹ مانگنے والے سیاستدانوں کو دیکھ کر لوگ گھروں میں چھپ جاتے تھے۔

مفتی محمد سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی کی انتخابی مہم نے لوگوں کے دلوں کو چھو لیا۔ نہ صرف اس نے اور ان کے والد نے معقول فرق سے اپنی نشستیں جیتیں بلکہ وہ کشمیر میں ان لوگوں کے زیادہ مطلوب رہنما بن گئیں جو اس وقت منظر سےغائب ہوئے سیاست دانوں کو تلاش رہے تھے۔

محبوبہ کو یوتھ بریگیڈ باجی (بڑی بہن) کہا جاتا تھا۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے سونیا گاندھی والی کانگریس پارٹی ترک کر دی اور جنتا دل میں شامل میں ہوگئیں۔اسی دوران مفتی محمد سعید نے اپنی پارٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا۔

پی ڈی پی نے 2020 کے انتخابات میں حصہ لیا اور وہ نیشنل کانفرنس کے لیے خطرہ بن گئیں۔ باجی عوامی ریلیوں میں سب سے زیادہ مطلوب اسپیکر بن چکی تھیں۔ محبوبہ مفتی نے ایک بار مجھے بتایا کہ ان کے والد ہمیشہ سے چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا تصدق مفتی سیاست میں داخل ہو۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تصدق کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اور ایک عرصہ کے بعد وہ اپنے پہلے فلمی پروجیکٹ وشال بھاردواج کی فلم'اومکارا' سے مشہور ہوئے۔ جس میں وہ فوٹو گرافی کے ڈائریکٹر تھے اور فلموں کو کیریئر کے طور پر منتخب کیا ہوا تھا۔

awazthevoice

فلم ساز اور محبوبہ مفتی کے بھائی تصدق مفتی

سنہ 2016 میں مفتی محمد سعید کی وفات کے بعد تصدق مفتی کو ان کی بہن نے دوبارہ گھر واپس آنے پر آمادہ کیا۔ انہوں نے اپنی بہن کی بات مانی اور ان کی وزارت میں وزیر بھی بنائے گئے۔ تاہم، وہ جلد ہی منظر سے غائب ہو گئے اور کسی کو قطعی طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کیوں پھر سیاست سے دور ہوگئے۔  تصدق اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بنگلورو میں رہتے ہیں۔

محبوبہ اپنے والد کے قریب ہوگئیں اور ان کے عزائم اور منصوبوں کے لیے وہ ناگزیر تھیں۔ انہوں نے وزارت میں شامل ہونے اور پارٹی کی دیکھ بھال کرنے کا انتخاب کرنے سے انکار کردیا تھا۔

محبوبہ ان نوجوانوں میں مقبول تھیں جنہوں نے ان کی قیادت میں پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی اور پی ڈی پی کو مختصر وقت میں ایک غیر معمولی قوت بنا دیا تھا۔ محبوبہ کو اپنے والد کی وفات کے بعد وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھانے میں تقریباً ایک مہینہ لگ گیا۔ کیوں کہ وہ اپنے بارے میں غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھیں۔ انہوں نے خود کو کبھی بھی ایک آزاد ہستی کے طور پر نہیں دیکھا تھا۔

اس کے علاوہ وزیراعلیٰ بننا بھی ان کی خواہش نہیں تھی اور وہ صرف اپنے والد کو خوش کرنے کے لیے سیاستداں بن گئیں تھیں۔ والد کی وفات کے بعد انہوں نے والد کی وراثت کو جاری رکھنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کی باجی کہی جانے والی شخصیت ہچکچاتے اوار لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت میں وزیر اعلیٰ بن گئیں۔

محبوبہ لوک سبھا کی رکن بھی تھیں اور قومی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ انہوں نے مجھے ایک بار بتایا تھا کہ اگرچہ وہ دہلی میں اجنبی محسوس کرتی ہیں، تاہم ان کی بیٹیاں اکریتا اور التجا خود کو دہلی کا باشندہ مانتی ہیں۔

مفتی محمد سعید کی ایک بیٹی محمودہ اپنے ڈاکٹر شوہر کے ساتھ امریکہ میں رہتی ہیں جب کہ روبیہ اپنے تمل شوہرکے ساتھ چنئی میں رہتی ہیں۔ خیال رہے کہ دہشت گرد تنظیم جے کے ایل ایف نے روبیہ کو اس وقت اغوا کر لیا تھا جب کہ ان کے والد ہندوستان کے وزیرداخلہ تھے۔ یہ تذبذب کی شکار باجی ہیں، جنہوں نے اپنے والد مفتی محمد سعید کی وراث کو سنبھالا ہوا ہے۔