خاندان : مولانا وحید الدین خان۔ امن و آشتی کے علمبردار

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
خاندان : مولانا وحید الدین خان۔ امن و آشتی کے علمبردار
خاندان : مولانا وحید الدین خان۔ امن و آشتی کے علمبردار

 


شاہ عمران حسن، نئی دہلی

مولانا وحید الدین خان معروف مفکر، مصنف اور ادیب و صحافی،امن و عاشتی کے علم بردار  رہے تھے۔ان کا نام زبان پر آتے ہی ذہن میں ایک درویش نما چہرہ خود بخود ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ ایک ایسے عالم جنہوں نے مذہب کے عملی پہلووں کو اجاگر کرنے کو ترجیح دی،انہیں زندگی کا حصہ بنانے پر زور دیا اور قرآن کریم کی روشنی میں ہمیشہ امن کا راستہ دکھایا۔ ٹکراؤ کے بجائے مذاکرات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔اپنے نظریے پر اٹل رہے ،کبھی اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

مولانا وحید الدین خان نے اس بات کو محسوس کیا تھا کہ اِس دور میں اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ جدیدسائنسی دلائل سے اسلام کی حقانیت کو واضح کیاجائے۔عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر تیارکیا جائے۔ ان کے مطالعہ کا خاص موضوع اسلام اور دورِجدید رہا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ممتاز اسلامی اسکالر مولانا وحید الدین خان مرحوم امن اور برابری کے اپنے اس مستقل پیغام کی وجہ سے اپنے ناقدین میں بھی مقبول رہے۔

بقول ممتاز اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع ،پدم شری ’مولانا وحید الدین خان معمولی واقعات سے بڑے نتائج اخذ کرتے تھے،ان کی علمی قابلیت یقینا بے مثال تھی،وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے چھپی بڑی خوبیوں کو بیان کرنے کے ماہر تھے

مرحوم مولانا وحید الدین خان کی پیدائش یکم جنوری1925ء کو ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے ایک علمی شہر”اعظم گڑھ“ کے ایک دوراُفتادہ گاؤں ”بڈہریا“میں ہوئی تھی۔

مولاناوحیدالدین خاں کے والد فریدالدین خاں اپنے علاقے کے ایک بہت بڑے زمیندار تھے جو ہندؤوں اور مسلمانوں دونوں کی نظر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جب کہ ان کی والدہ زیب النساء گھریلوامور سنبھالنے والی ایک ذمہ دارخاتون تھیں۔ مولاناکے والد کا انتقال ان کے بچپن میں ہی ہوگیاتھا؛اس لیے ان کی مکمل پرورش ان کی والدہ نے اپنی نگرانی میں کی۔

مولانا کی ابتدائی تعلیم عربی درس گاہ میں ہوئی۔ عربی اور دینی تعلیم سے فراغت کے بعد اُنھوں نے علومِ جدیدہ کی طرف توجہ دی۔ ذاتی مطالعہ کے ذریعہ اُنھوں نے انگریزی زبان سیکھی۔ اُس کے بعد مغربی علوم کا مطالعہ شروع کیا حتیٰ کہ اُن میں پوری دسترس حاصل کرلی۔

 مولاناوحیدالدین خاں بیک وقت چار زبانوں میں کام کرتے رہے۔ اُردو، انگریزی، عربی،ہندی میں ان کی متعدد تحریریں منظرعام پرآتی رہیں۔ وہ تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی ہند میں شامل ہو گئے اور 10 سال تک اس کے رُکن رہے۔ وہ جماعت کے مرکزی مجلس شوریٰ کے بھی رکن رہے لیکن نظریاتی اختلافات کی وجہ سے سنہ 1963 میں جماعت سے دور ہو گئے اور ’تعبیر کی غلطی‘ کے نام سے اپنی تنقید شائع کی۔

ماہنامہ الرسالہ:ایک اہم دینی پرچہ

ماہنامہ الرسالہ، جی ہاں یہی وہ میگزین ہے، جس نے مولانا کوشہرت دوام بخشی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مولاناوحیدالدین خاں کی ایک اہم شناخت ان کا ماہنامہ ’الرسالہ‘ رہا ہے، ماہنامہ الرسالہ کا پہلا شمارہ اکتوبر1976ء میں مولانا وحید الدین خاں نے جاری کیا۔ پہلا شمارہ مولانا کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی ادارت میں شائع ہوا اور ماہنامہ الرسالہ کا آخری شمارہ مولانا کی زندگی میں اپریل 2021ء میں ان کی وفات سے قبل شائع ہوا۔ ان کی سرپرستی میں الرسالہ مسلسل45 برسوں تک شائع ہوتا رہا۔ان کی زندگی میں ماہنامہ الرسالہ کے کل530 شمارے شائع ہوئے۔

awazurdu

اسلامی مرکزکا قیام

ملکی اورغیرملکی سطح پر اسلامی دعوت کوعام کرنے کے لیے دعوت الی اللہ کے کام کو منظم طورپر کرنے کے لیے مولانا وحیدالدین خاں نے ہفت روزہ الجمعیۃ سے وابستگی کے دوران 1970ء میں نئی دہلی میں اسلامی مرکز(The Islamic Centre For Reasearch & Dawah) قائم کیا۔ اسلامی مرکز کے صدر کے طورپر مولانا محترم دینی خدمت کاکام انجام دینے لگے۔

سی پی ایس انٹرنیشنل کا قیام

مثبت بنیاد پر مسلمانوں کی اصلاح اوران کی ذہنی تعمیرکایہ کام جاری تھاکہ اسی دوران مولانانے غیر مسلموں کے تعلیم یافتہ طبقہ تک اسلام کے پرامن دعوتی پیغام کو پہنچانے کے لیے ایک ادارہ سنٹر فارپیس اینڈ اسپریچولٹی انٹرنیشنل (International Center for Peace & Spirituality) قائم کیا۔ سی پی ایس کے تحت اب بھی ملک اوربیرون ملک غیرمسلوں کے درمیان اسلام کا پرامن پیغام پہنچایاجارہا ہے، خاص طورپر انگریزی زبان میں دعوتی لٹریچر اورقرآن کے ترجمے کی اشاعت کا کام بڑے پیمانے پرجاری ہے۔

awazurdu

مولانا وحیدالدین خان کا دورہ اسرائیل


ایوارڈ

مولاناکی فکری اوردعوتی خدمات کے اعتراف میں قومی اور بین اقوامی سطح پر متعدد ایوارڈ سے نوازا گیا۔

عام طورپرانھیں سفیرامن عالم (Ambassader of Peace to the World) کہا جاتا ہے۔

مولانا کو سب سے پہلا ایوارڈ سند ِ امتیاز حکومت ِ پاکستان کی جانب سے1983ء میں اُن کی کتاب پیغمبرانقلاب پر ملا۔ اس کے علاوہ مولانا کوسیرت انٹرنیشنل ایوارڈ منجانب حکومتِ پاکستان، محمودعلی خاں نیشنل انٹگریشن ایوارڈ،نیشنل سٹی زن ایوارڈ بدست مدر ٹریسا،ارونا آصف علی سدبھاؤنا ایوارڈ،قومی یکجہتی ایوارڈ منجانب حکومت ہند،دہلی اردواکادمی ایوارڈ برائے صحافت،فرقہ وارانہ ہم آہنگی ایورڈ،دیوالی بین موہن لال ایوارڈ،نیشنل امیٹی ایوارڈ،ایف آئی ای فاونڈیشن ایوارڈ، ڈیموگرس انٹرنیشنل ایورڈ، سفیر امن ایوارڈ، مہاتماگاندھی نیشنل ایوارڈ فارٹالرنس،راجیوگاندھی سدبھاؤنا ایوارڈ وغیرہ سے نوازا گیا۔

awazurdu

مولانا وحید الدین خان اور دلائی لامہ


اس کے بعد26 جنوری2000ء کو حکومت ہند کی جانب سے مولانا وحیدالدین خاں کو تیسرے سب سے بڑے شہری اعزاز”پدم بھوشن“ سے نوازاگیا۔ اس کے علاوہ دوبئی کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے سیدناحسن بن

علی ایوارڈ اور امریکی مسلمانوں کی تنظیم اثنا(ISNA)کی جانب سے لائف ایچومنٹ ایوارڈ سے نوازاگیا ہے۔ سنہ2021ء میں حکومت ہند نے بعد از مرگ مولانا وحیدالدین خاں کودوسرے سب سے بڑے شہری اعزاز ”پدم وِبھوشن“ سے سرفراز کیا۔

علمی وراثت

مولانا وحیدالدین خاں نے جو علم کی شمع روشن کی تھی، ان کی علمی وراثت کو ان کی اولاد اس شمع کو ابھی تک جلائے ہوئے ہے۔ اگرچہ ان کی سات بچے تھےتاہم ان میں تین یعنی ڈاکٹرظفرالاسلام خان، ڈاکٹر فریدہ خانم اورڈاکٹر ثانی اثنین خان ان کی علمی وراثت کو تھامے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں

دہلی اقلیتی کمیشن اور آل انڈیا مجلس مشاورت کے سابق صدر عالم اسلام کے معروف مصنف ومترجم اورصحافی ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں، مولانا وحید الدین خاں کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ اُنھیں عربی،انگریزی اور اُردو تینوں زبانوں پریکساں عبور حاصل ہے۔ وہ مختلف موضوعات پرتقریباَ50 کتابیں عربی،انگریزی اور اُردومیں تصنیف وتالیف کرچکے ہیں۔ نیز اُنھوں نے متعدد کتابوں کاترجمہ عربی،انگریزی اور اُردومیں کیا ہے۔

ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں مانچسٹر یونیورسٹی میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد اکتوبر1987ء میں اپنے وطن ہندوستان واپس لوٹ آئے۔ ہندوستان واپسی پر ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے 1988ء میں ایک علمی ادارہ (Institute of Islamic and Arab Studies)قائم کیا۔ اوراس ادارے سے انگریزی، اردو اور عربی میں اپنی اور دوسرے مصنفین کی تصنیفات شائع کرنا شروع کیا۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے 1993 ء میں انگریزی مجلہ مسلم اینڈ عرب پرسپیکیٹوز (Muslim & Arab Perspectives) کی اشاعت شروع کی پھر اُنھوں عربی زبان میں ایک سہ ماہی رسالہ ”مجلۃ التاریخ الاسلامی“ شائع کرنا شروع کیا۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے جنوری 2000ء میں نئی دہلی سے پندرہ روزہ انگریزی جریدہ دی ملّی گزٹ (The Milli Gazette) نکالنا شروع کیا جو تادمِ تحریر جاری ہے۔

 

awazurdu

ڈاکٹرظفرالاسلام خان اپنے والد محترم مولانا وحیدالدین خاں سے محبو گفتگو

ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے مسئلہ فلسطین کی دستاویزوں کو ایک انگریزی کتاب میں جمع کیا ہے جس کا نام پلسٹائن ڈاکومنٹس(Palestine Documents) ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1998ء میں شائع ہوئی اوریہ کتاب آج دُنیا بھر میں ایک بنیادی مرجع کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ 2002 میں صدر مسلم مجلس مشاورت سید شہاب الدین کی دعوت پر ڈاکٹرظفرالاسلام خاں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی مرکزی مجلس کے ممبر بنے اور دو سال کے بعد اس کے جنرل سکریٹری بنائے گئے۔ وہ 2009-2008ء کی دوسالہ میقات کے لئے مسلم مجلس مشاورت کے صدر چنے گئے اور اب دوبارہ 2014-2013ء کی میقات کے لئے بلامقابلہ صدر منتخب کیے گئے ہیں ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کی کوششوں سے مشاورت کے دونوں دھڑوں کاانضمام اکتوبر2013ء میں عمل میں آیا۔

ڈاکٹر فریدہ خانم

ڈاکٹر فرید ہ خانم مولانا وحید الدین خاں کی صاحبزادی ہیں۔ ڈاکٹر فرید ہ خانم اس اعتبار سے ایک مثالی خاتون ہیں کہ انھیں اپنی زندگی کے ابتدائی پندرہ برسوں تک اسکول و کالج جانے کا موقع نہ مل سکا مگر جب پندرہ برس کے بعد ان کی تعلیم شروع ہوئی تو پھر علمی و تحقیقی کام ہی ان کی زندگی کا اصل مشن بن گیا۔

ایک خاتون جس نے دیہی علاقے میں آنکھ کھولی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوئیں۔

مولانا وحیدالدین خاں کی علمی وراثت کوآگے بڑھانے میں فریدہ خانم کا بڑا تعاون رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مولانا موصوف کی اولاد میں سب سے زیادہ فریدہ خانم نے مولاناسے علمی استفادہ کیا۔ 1968 ء میں فریدہ خانم نے پرائیویٹ طور پر علی گڑھ سے دسویں کا امتحان دیا۔ نتیجہ آیا تو وہ تین مضمون میں فیل تھیں۔ظاہر سی بات ہے ایک پانچویں پاس طالب علم کابراہِ راست دسویں کا امتحان پاس کرنا آسان نہ تھا۔1969ء میں دوبارہ انھوں نے دسویں کا امتحان دیا، اس باراُنھوں نے سکنڈ ڈیویژن سے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا۔ گویاتعلیمی میدان میں انھوں نے پہلا قدم کامیابی کے ساتھ رکھا۔

awazthevoice

ڈاکٹرفریدہ خانم اپنے والد محترم کے ساتھ

انھوں نے علی گڑھ سے ہائی اسکول اور پری یونیورسٹی میں فارسی میں ٹاپ کیا۔ یہاں اُنھوں نے پوری یونیورسٹی میں فارسی میں ٹاپ کیا۔ اور اُنھیں ”سیفی میڈل“ سے نوازا گیا۔ فارسی کے بجائے بی اے انگلش آنرز 1970 ء میں فریدہ خانم نے دلی کالج میں فارسی آنرز میں داخلہ لیا تھا مگر مولانا کی ہدایت پر انگلش آنرز لیا۔

مولاناوحیدالدین خاں نے 1984ء میں ماہنامہ الرسالہ کا انگلش ایڈیشن شروع کیا۔اس کا پہلا شمارہ اکتوبر 1984ء میں شائع ہوا۔ انگریزی الرسالہ کی ساری ذمہ داری مولانا موصوف نے فریدہ خانم کے سپرد کردی تھی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ(نئی دہلی) کے شعبہ اسلامک اسڈیز میں ستمبر 1994ء کو بحیثیت لکچررجامعہ میں اُن کی تقرری ہوئی تھی۔ اب ان کوجامعہ میں کام کرتے ہوئے20 سال ہوچکے ہیں۔ڈاکٹر فریدہ خانم کی انٹرویو والے دن کے واقعہ کو مولانا موصوف نے اپنی کتاب میں یو ں درج کیا ہے ۔ انگریزی تراجم کے علاوہ میں نے جو کتابیں لکھی ہیں،اُن میں دواُردو میں ہیں اوربقیہ انگریزی میں۔(1)مولانا مودودی: شخصیت اور تحریک،ایک علمی جائزہ(2)امہات المؤمنین اورانگریزی میں تحریر کردہ کتابوں کی فہرست یہ ہے:

Life and Teachings of the Prophet Muhammad

Islam and Five Basic Human Values

A Simple Guide to Sufism

A Simple Guide to Islam

A Study of World's Major Religions

ڈاکٹر فریدہ خانم اِس وقت نئی دہلی میں۔ فی الحال وہ سی پی ایس انٹرنیشنل،نئی دہلی کی چیر پرسن(Chairperson) ہیں۔

ڈاکٹرثانی اثنین خاں

ڈاکٹرثانی اثنین خاں نے مختلف واقعات کے ساتھ مختلف کارٹون اور خوبصورت تصاویر سے کتابوں کی تزئین کی ہے۔ اس کے علاوہ اشاریے اور اسکیچ سے بچوں کے ذہن میں اعلیٰ اقتدارکی باتیں پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کے بہت سے حصے میں اْن کی کتابیں بچے بڑے ہی شوق سے پڑھتے ہیں، جس سے بچوں کے اندر اعلیٰ اقدار،امن و شانتی سچائی اور ایمانداری کا جذبہ پیدا ہوتا ہیں ثانی اثنین خاں نے کثرت سے بچوں کے لیے کتابیں لکھیں ہیں۔

اْنھوں نے1999 میں بچوں کے لیے سب سے پہلی کتاب جو تیار کی اْس کانا م ہے ٹیل میں اباوٹ حج(Tell Me About Hajj) یہ کتاب توقع سے زیادہ کامیاب رہی اور عالم اسلام میں بہت پسند کی گئی۔ پہلی کتاب کی کامیابی سے اْنھیں کافی حوصلہ ملا۔ اس کے بعد انھوں نے مسلسل کتابیں لکھنی شروع کردیں۔ تادم تحریر وہ 100سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں اور اب تک ان کی لکھی ہوئی کتابوں کے30 لاکھ سے زائد نسخے دنیا کے مختلف ملکوں میں فروخت ہوچکے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں خالص بچوں کے لیے کتابیں لکھنے پران کا نام لمکا بک ریکارڈ(2007) میں بھی آچکا ہے۔

اس کے علاوہ اْنھیں 2013 میں بچوں کے لیے لکھی گئی اْن کی انگریزی کتاب ”دی اسٹوری آف خدیجہ “پر حکومت شارجہ کی جانب سے ”شارجہ چلڈرنس بْک ایوارڈ“ ملا۔ ادارہ گڈورڈ بْکس کا قیام ابتداً ثانی اثنین خاں نے یکم مئی1992ء کو”مکتبہ الرسالہ“ کے نام سے ایک سنڑقائم کیا۔

awazurdu

مولانا وحیدالدین خان کے صاحبزادے ڈاکٹر ثانی اثنین خان 

اس کے تحت انھوں نے مولانا وحیدالدین خاں کی اردو اور انگریزی کتابیں اور دیگر اہم اسکالرس کی انگریزی کتابیں شائع کرنی شروع کیں۔1996ء میں اْنھوں نے مکتبہ الرسالہ کوگڈورڈبْکس (Goodword Books) کے ایک خوبصورت نام سے تبدیل کردیا۔ اب تک اِس ادارے سے1000 سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔

اعلیٰ معیار اور دیدہ زیب طباعت گڈ ورڈ بکس کی پہچان بن چکی ہے۔اِس ادارے کا عالم اسلام میں ایک منفرد مقام ہے۔

کورونا کے دور میں 21 /اپریل 2021ء کو96/برس کی عمر میں مولاناکا انتقال دہلی کے اپولو اسپتال میں ہوا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مولانا وحید الدین خان سمجھداری کی بات کرنے والی ایک مضبوط آواز اور امن کا پیغام دینے والے ایک مبلغ تھے، جس نے اسلامی تعلیمات کو گاندھیائی اقدار کے ساتھ ملا کر تشدد اور نفرت کے خلاف جنگ کی۔ جس کو آگے بڑھانے کا کام جن کندھوں پر ہے بلاشبہ مضبوط ہیں لیکن یہ کام کسی چیلنج یا جنگ سے کم نہیں ہوگا۔