‘خورشید احمد:کشمیر کے تعلیم یافتہ کسان کو وزیر اعظم کا ’سلام

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
محنت اور پھل
محنت اور پھل

 

 

ساجد رسول /سری نگر

جموں و کشمیر میں گزشتہ کئی برسوں سے شعبہ زراعت میں نوجوانوں کی دلچسپی کم ہورہی ہیں - اگرچہ دیہی علاقوں میں اکثر آبادی زراعت اور کاشت کاری پر ہی منحصرہے اس کے باوجود اس کام میں نوجوانوں کی دلچسپی کم ہوتی جارہی ہیں - اس کے کئی وجوہات ہیں جن میں سرکاری نوکریوں کے پیچھے باگ دوڑ اور غیر مقامی مزدوروں پر انحصار قابل ذکر ہے - دوسری جانب رخ کریں تو یہاں کئ ایسے نوجوان بھی اس شعبے میں اس حد تک کامیاب ہیں جنہوں نے اسی فیلڈ کو اپنے کیریئر کے طور لیا ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں 

حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کے 6 کسانوں سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات چیت کی اور فارمنگ میں ان کی بے مثال کارکردگی کی سراہنا کی اور ان کی اس انہیں دوسرے کسانوں کے لئے رول ماڈل قرار دیا- ان کسانوں کا تعلق اتر پردیش، مہاراشٹرا، آندھرا پردیش، میگھالیہ، جموں وکشمیر اور اندامان نکوبار سے سے تھا -ملک کے ان چھے بہترین کسانوں میں سے جموں وکشمیر کے خورشید احمد بھی ایک تھے بلکہ خورشید ہی سر فہرست ہیں جس کی فارمنگ کے نریندر مودی بھی قائل ہیں ۔

 چالیس سالہ خورشید احمد جموں وکشمیر کی گرمائی دارلحکومت سرینگر کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے انگلش لٹریچر میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد بھی فارمنگ کو ہی اپنا ذریعے روزگار بنایا ہے - سرینگر کے ٹینگ پورہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان کسان خورشید احمد آرگینک فارمنگ کے ماہر ہیں اور اپنی اس کامیاب پیشہ وارانہ فارمنگ کی وجہ سے انہیں ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی سے بات چیت کرنے کے لئے منتخب کیا گیا - خورشید اور ان کے سبھی رشتہ داروں اور گاؤں والوں کے لئے ان دونوں خوشی کا ماحول پایا جارہا ہے - ان کے لئے یہ باعث افتخار ہے کہ ان کے علاقے کے کسان کی تعریف وزیر اعظم نریندر مودی نے کی - خورشید جس علاقے سے تعلق رکھتا ہے وہاں اکثر آبادی کا تعلق بھی فارمنگ سے ہی ہیں- اس تعلق سے وہ کافی خوش ہیں کہ نوجوان کسان خورشید کی تعریف ملک کے وزیر اعظم نے کی۔

awazurdu

میرے دیش کی دھرتی 

ٹینگ پورہ سرینگر کے مضافات میں واقع علاقہ ہے جہاں بیشتر آبادی سبزیوں کی کاشت کرتے ہیں اور یہی ان لوگوں کے آمدنی کا ذریعہ بھی ہے- خورشید احمد پہلے ایک پرائیویٹ ٹیچر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے تاہم بعد میں انہوں نے جموں و کشمیر کے محکمہ ایگریکلچر سے آرگینک فارمنگ میں تربیت حاصل کی انہوں نے اس سلسلے میں مختلف ورکشاپ اور تربیتی کیمپوں میں حصہ لیا اور اس دوران انہیں محسوس ہوا کہ ان ان کے والد اور دیگر کسان جس طرح سے روائتی طور پر سبزیوں کی کاشت کرتے ہیں اس میں جدید طرز پر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ سبزیوں کی کاشت بھی بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ منافع بخش بھی ہوں -

انہوں نے خود اس کام میں دلچسپی لینا شروع کیا اور محکمہ ایگریکلچر کی جانب سے جو تربیت انہیں دی گئی تھی اس کے مطابق اور محکمہ کی مختلف سکیموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنے وسیع کھیتوں میں سبزیوں کی کاشت کرنا شروع کیا - کچھ ہی سال میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور آج وہ کسانوں کے لئے ایک مثال پیش کررہے ہیں۔

awazurdu

خورشید اپنے والد کے ساتھ

  جب وزیر اعظم نریندر مودی ملک کے 6 بہترین کسانوں سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات چیت کی

وزیر اعظم مودی نے ان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خورشید کی ہمت اور لگن بے مثال ہے اور انہوں نے خورشید کو اس شعبہ میں مزید بہتری کے لئے اپنا کام جاری رکھنے کا مشورہ بھی دیا- نریندر مودی نے ان سے بات چیت کے دوران کہا "یہ واقعی ایک مثال ہے کیونکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود آپ نے آخر کار کھیتی باڑی کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ متاثر کن ہے۔ بصورت دیگر اکثر نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس الجھن میں ہوتے ہیں کہ اتنے سالوں کی تعلیم کے بعد کیا کریں کیا نہیں۔"

وزیر اعظم نے ان کی تعریف کرتے ہوئے مزید کہا کہ خورشید نے تمام تر مشکلات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کھیتی باڈی کو ہی ذریعہ روزگار بنایا یہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے- وزیر اعظم نے خورشید کی کامیابی پر انہیں داد و تحسین دی اور انہیں اس کام میں مزید بہتری لانے کا مشورہ دیا- آواز دی وائس کے ساتھ بات کرتے ہوئے خورشید احمد نے کہا کہ ان کے پاس 26 کنال اراضی ہے جس میں سے 12 کنال اراضی پر وہ دھان کی کاشت کرتے ہیں جبکہ دیگر 14 کنال اراضی پر سبزیوں کی کاشت کرتے ہیں-

خورشید کے مطابق روایتی کھیتی باڑی میں زیادہ فائدہ نہیں ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے آرگینک فارمنگ کو ہی اپنایا ہے جس میں انہیں کافی منافع مل رہا ہے اور اس وجہ سے نہ صرف وہ اپنا گھر چلا لیتے ہیں بلکہ اس میں دوسرے مزدوروں کے لئے بھی روزگار کا ذریعہ بنتے ہیں۔

 خورشید نے بتایا کہ انہوں نے سرکاری نوکری تلاش کرنے کی کافی کوشش کی اور جب وہ اس میں ناکام ہوئے تو بجائے اس کے کہ وہ دیگر نوجوانوں کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتا اس نے کھیتی باڈی کا کام شروع کیا - اور آج وہ ایک کامیاب کسان ہیں اور لوگوں میں جو ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ کاشت کاری اور کھیتی باڈی صرف ان پڑھ کسانوں سے مخصوص ہیں خورشید نے نہ صرف خیال کع رد کیا بلکہ وہ دوسرے پڑھے لکھے نوجوان کو بھی اس کام کی طرف مائل کررہے ہیں