انٹرٹینمنٹ کی دنیا کا فنکارخاندان،اعظمی خاندان

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 13-01-2022
انٹرٹینمنٹ کی دنیا کا فنکارخاندان،اعظمی خاندان
انٹرٹینمنٹ کی دنیا کا فنکارخاندان،اعظمی خاندان

 

 

کیفی اعظمی: پیدائش14 جنوری 1919۔وفات10 مئی 2002


غوث سیوانی،نئی دہلی

 

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

کیا غم ہے جس کو چھپارہے ہو

موسیقی سے دلچسپی رکھنے والا کون سا انسان ہوگا،جس نے یہ شعر نہ سنا ہوگا۔جگجیت سنگھ نے اپنی آوازسے اسے امرکردیا ہے مگر اسے لکھا ہے کیفی اعظمی نے۔ایک اورغزل کا مطلع بہت مشہورہے

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں

دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں

یہ بھی کیفی اعظمی کی ہی تخلیق ہے۔

کیفی اعظمی کو ایک شاعر اورنغمہ نگارکی حیثیت سے دنیا جانتی ہے مگر وہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک نظریہ تھے۔ان سے پہلے،ان کا خاندان صرف اعظم گڑھ میں جاناجاتا تھامگر ان کے بعد اس خاندان کو دنیا بھر میں پہچان ملی۔

کیفی اعظمی، ان کی بیوی شوکت اعظمی، بیٹی شبانہ اعظمی، دامادجاویداختر، بیٹابابااعظمی اور بہواداکارہ تنوی اعظمی،اس خاندان کے ارکان ہیں۔ اس خاندان کے رشتہ داروں میں اداکارہ تبو اور فرح بھی شامل ہیں۔

awaz

دنیانے شاعری کالوہامانا

جہاں کیفی اعظمی کو ادب کے حوالے سے جاناجاتا ہے اورترقی پسند شاعروں میں اونچامقام رکھتے ہیں ،وہیں بالی وڈ میں ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے ان کی شناخت عالمی شہرت کی حامل ہے۔ یہی سبب ہے کہ چند سال قبل ان کے101 واں یوم پیدائش پر گوگل نے ڈوڈل بناکر انھیں خراج عقیدت پیش کیا تھا۔

مدرسہ سے کمیونزم تک

کیفی اعظمی کی ولادت 14 جنوری 1919 کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گائوں کے ایک خوشحال خاندان میں ہوئی تھی۔والد زمیندار تھے۔ وہ بیٹے کواعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے۔ ابتدا میں کیفی کولکھنو کے مشہور مدرسے ”سلطان المدارس“ میں بھیجاگیا۔ حالانکہ ان کے ڈی این اے میں شعروسخن کا ذوق شامل تھا، یہی سبب ہے کہ محض گیارہ برس کی عمر میں انھوں نے شاعری شروع کردی۔

گھر میں ادبی ماحول بھی تھا۔بڑے بھائی شاعری کرتے تھے۔کیفی کی شخصیت کا دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ ایک دینی مدرسے میں تعلیم پانے کے باجود انھوں نے دہریت کا راستہ اپنایا اور کمیونزم کے نظریے کے زیراثرشاعری کی۔

awaz

جب ایک حسینہ نے منگنی توڑدی

حیدرآباد کے ایک مشاعرے میں جب کیفی اعظمی اپنی ایک نظم سنا رہے تھے تو ان کے پڑھنے کے انداز نے ایک حسینہ کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنی منگنی توڑ دے۔ اس دوشیزہ نے اس دن سفید ہینڈلوم کرتہ، سفید شلوار اور قوس قزح کا دوپٹہ ڈال رکھا تھا۔

اطہر علی رضوی المعروف کیفی اعظمی، جو تب ایک لمبے، دبلے پتلے، خوبصورت نوجوان تھے،نے اس دن اپنی گرج دار آواز میں یہ نظم پڑھی، جس کا عنوان تھا 'تاج'۔جب مشاعرہ ختم ہوا تو لوگوں کا ہجوم کیفی، علی سردار جعفری اور مجروح سلطان پوری کی طرف آٹوگراف بک کے ساتھ جمع ہو گیا۔اس ہجوم میں وہ دوشیزہ بھی تھی۔

awaz

اس نے کیفی کی جانب آٹوگراف بک بڑھائی جس پرکیفی نے کوئی معمولی سا شعر لکھ دیا۔لڑکی نے پوچھا،آپ نے میری آٹوگراف بک پر عام سا شعر کیوں لکھا تو کیفی نے جواب دیا،تم نے پہلے علی سردارجعفری سے آٹوگراف کیوں لیا؟ یہیں سے دونوں کا پیار شروع ہوا۔یہ لڑکی بعد میں کیفی کی بیوی بنی،حیدرآباد چھوڑممبئی آگئی اور دنیا نے اسے شوکت اعظمی کے نام سے جانا۔اس جوڑے کے پیارکی نشانی اداکارہ شبانہ اعظمی اورسنیماٹوگرافر بابااعظمی ہیں۔

رومانیت سے انقلابی شاعری تک

کیفی اعظمی کی ابتدائی غزلیں اور نظمیں انھیں ایک رومان پرور شاعر کے طور پر پیش کرتی ہیں،مگرجلد ہی وہ ترقی پسندی کے رنگ میں رنگ گئے اورایک انقلابی شاعر کے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔ انھوں نے ظلم وجبراورناانصافی کے خلاف آوازبلندکی۔وہ کسی نظم میں عورت کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں توکہیں مزدورکی آواز بن جاتے ہیں۔ انھوں نے بابری مسجد کے انہدام پر ’’رام کا دوسرابنواس‘‘نظم لکھی تھی جو مشہور ہوئی تھی۔

کیفی کی ایک مشہورنظم ’’کیفیات‘‘ ہے۔حکومت ہند نے شبانہ اعظمی اور جاویداختر کی کوششوں کے نتیجے میں دہلی سے اعظم گڑھ کے لئے ایک ٹرین چلائی جس کانام ’کیفیات اکسپریس‘رکھا گیا۔

کیفی نے بہت سی فلموں کے لئے گیت لکھے۔ان کے لکھے ہوئے گیت اپنی مثال آپ ہیں مگر کچھ فلمی گیت تو آج بھی مشہور ہیں۔ جیسے فلم حقیقت کا گیت:

کرچلے ہم فدا جان وتن ساتھیو

اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو

فلم ’’نونہال‘‘کا گیت:

میری آواز سنو پیار کا راز سنو

میری آواز سنو ………..

اسی طرح فلم ’’ہیررانجھا‘‘کے گیت بھی آج تک مقبول ہیں۔ فلم کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ،اس کے تمام ڈائیلاگ نظم میں ہیں اورلکھا تھا کیفی اعظمی نے۔ کیفی نے اپنی آخری عمر میں ایک فلم میں اداکاری بھی کی تھی۔ فلم کا نام ’’نسیم‘‘تھا۔

شوکت اعظمی

شوکت اعظمی (21 اکتوبر 1926 - 22 نومبر 2019) ایک تھیٹر اور فلم اداکارہ تھیں۔ وہ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (اپٹا)سے وابستہ تھیں۔ وہ تقریباً ایک درجن فلموں میں نظر آئیں، جن میں ’’گرم ہوا‘‘ اور ’’امراؤ جان‘‘ جیسی بڑی پروڈکشنزشامل ہیں۔ 2002 میں کیفی اعظمی کے انتقال کے بعد، شوکت اعظمی نے ایک خود نوشت سوانح عمری بھی لکھی تھی۔ ان کی فلموں میں، سلام بمبئی،انجمن،لوری، بازار، دھوپ چھاؤن، ہیر رانجھا اور حقیقت شامل ہیں۔

شبانہ اعظمی

awaz

شبانہ اعظمی (پیدائش: 18 ستمبر 1950) ہندی فلم، ٹیلی ویژن اور تھیٹر کی ایک معروف اداکارہ ہیں۔انھیں روایتی خواتین کرداروں کی تصویر کشی کے لیے جانا جاتا ہے۔انھوں نے بہترین اداکارہ کے لیے ریکارڈ پانچ قومی فلم ایوارڈز، پانچ فلم فیئر ایوارڈز اور دیگر اعزازات کے علاوہ کئی بین الاقوامی اعزازات بھی جیتے ہیں۔

۔ 1998 میں، انہیں حکومت ہند کی طرف سے پدم شری سے نوازا گیا، جو ملک کا چوتھا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے، اور 2012 میں، انہیں پدم بھوشن سے نوازا گیا، جو تیسرا اعلیٰ ترین شہری اعزاز ہے۔

اداکاری کے علاوہ وہ سماج اور خواتین کے حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی خیر سگالی سفیر ہیں۔ اعظمی کی زندگی اور کاموں کی تعریف میں، ہندوستان کے صدر نے انہیں پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کی نامزد (غیر منتخب) رکنیت دی تھی۔

بابااعظمی

سید بابا اعظمی ایک فلمی سینماٹوگرافر ہیں۔ وہ ارجن، بیٹا، دل، تیزاب، مسٹر انڈیا، اکیلے ہم اکلے تم اور پکار جیسی فلموں میں اپنے کام کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1970 کی دہائی کے وسط میں اپنے تیلگو فلموں میں معاون طور پر کیاتھا۔ 2020 میں، انہوں نے نصیرالدین شاہ کی اداکاری والی فلم’’می رقصم‘‘ سے اپنی ہدایت کاری کا آغاز کیا۔ یہ 21 اگست 2020 کو زی 5 پرریلیز ہوئی تھی۔

تنوی اعظمی

بابااعظمی کی بیوی تنوی اعظمی فلم اور ٹیلی ویژن اداکارہ ہے۔ وہ مراٹھی-ہندی اداکارہ اوشا کرن اور منوہر کھیر کی بیٹی ہیں۔ انھوں نے ہندی،تیلگو، مراٹھی فلموں اور ٹی وی سیریلس میں کام کیاہے۔ اعظمی نے ٹیلی سیریز جیون ریکھا میں ایک ڈاکٹر کا کردار ادا کیاتھا۔ ٹیلی فلم راؤ صاحب (1986) میں ایک نوجوان بیوہ کا کردار ادا کیاتھا۔

انھوں نے ملیالم زبان کی فلم ودھیان (1993) میں بھی کام کیا، جس کی ہدایت کاری ادور گوپال کرشنن نے کی تھی۔ انہوں نے فلم اکیلے ہم اکیلے تم (1995) میں اپنے کردار کے لیے بہترین معاون اداکارہ کے لیے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزدگی حاصل کی تھی۔2014 میں، وہ سنجے لیلا بھنسالی کی فلم باجی راؤ مستانی میں باجی راؤ اول کی والدہ رادھا بائی کا کردار ادا کرتی نظر آئیں۔

انہیں فلم میں اپنے کردار کے لیے گنجا ہونا پڑا۔ انہیں فلم باجی راؤ مستانی میں شاندار اداکاری کے لیے بہترین معاون اداکارہ کا نیشنل فلم ایوارڈ ملا۔انھوں نے دیگرکام بھی کئے ہیں۔