جینس : سدابہار لباس، جس کا ہے ہر کوئی دیوانہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 23-11-2021
جینس : سدابہار لباس، جس کا ہے ہر کوئی دیوانہ
جینس : سدابہار لباس، جس کا ہے ہر کوئی دیوانہ

 

 

منجیت ٹھاکر،نئی دہلی

جو لباس عام طور پر لوگ روز مرہ استعمال میں لاتے ہیں، ان میں ایک اہم ترین لباس جینس ہے، جینس دراصل ایک سدابہار لباس ہے، جو ہمیشہ استعمال کیا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جینس ایک ایسا سدابہار لباس ہے جو کبھی بھی فیشن کی دنیا سے باہر نہیں ہوا اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے فیشن سے باہر ہونے کا کوئی امکان ہے۔

جینس پینٹ کی خاصیت یہ ہے کہ اسے کسی بھی کپڑوں کے ساتھ میچ کر کے پہنا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر ہندوستان میں جینس کی پتلون نے نئی شادی شدہ خواتین کے ہاتھوں میں موجود چوڑیوں کے ساتھ اپنا ایک خاص ثقافتی امتزاج دکھایا ہے۔جینس شرٹ، کُرتا اور ٹی شرٹ سبھی کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔ 

جینس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ زمین پر سب سے زیادہ پہنا جانے والا لباس ہے۔ ایک وقت تھا جب جینس صرف مزدور اور ملاح پہنا کرتے تھے لیکن آج فلمی پردے پر نظر آنے والے ہیروز سے لے کرلیڈرتک، صحافیوں سے لے کر مزدور تک سب کے پاس جینس ہے اور وہ سب اسے بڑے شوق سے پہنتے ہیں۔

جینس کا نام

جینس کا نام سنتے ہی آپ کے ذہن میں ایک لفظ گونجے گا اور وہ ہے 'ڈینم'۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ لفظ کہاں سے آیا ہے؟ دراصل ڈینم کا لفظ (De Nimes) سے آیا ہے۔   فرانس کے ایک شہرکا نام ڈینم(Serge de Nmes) ہے۔اسی شہر میں موٹا کپڑا تیار کرنے کا رواج شروع ہوا تھا۔

ایک معاشی تاریخ داں اور ماہر اقتصادیات انندا سین گپتا کہتے ہیں کہ 18ویں صدی میں ڈی نیمس کے کارکنوں نے اسی قسم کے موٹا کپڑے بنانے کی کوشش کی تھی، جو اٹلی کے جینوا میں بنی تھی۔

کورڈرے ایک قسم کا موٹا سوتی کپڑا ہے۔ یہ کپڑا اطالوی شہر جنیوا کے مزدوروں اور فوجیوں میں بہت مقبول تھا اور اس وقت لفظ 'جینیس' جنیواسے نکلا تھا اور اس سے جینس بنائی جاتی تھی۔ وہ لوگ ویسا ہی کپڑا نہیں بنا سکے، تاہم انہوں نے ایک نئی قسم کا کپڑا بنایا۔ جسے انہوں نے 'Serge de Nmes' کا نام دیا۔ بعد میں اس نام کو مختصر کرکے ڈینم رکھ دیا گیا۔ اس طرح ڈینم کی ایجاد ہوئی۔

یہ ایک موٹا کپڑا ہے، جس کی بنائی الگ طریقے سے کی جاتی ہے۔ سین گپتا کے مطابق تقریباً ایسے تمام ڈینم کپڑوں کو انڈگو یعنی نیل میں رنگا جاتا تھا۔ سوتی دھاگوں کو نیل سے رنگا جاتا تھا۔ اس کے تحت وارپ تھریڈ یعنی لمبائی والے کپڑے کو نیل میں رنگا جاتا تھا، جب کہ چوڑائی والے دھاگے کو سفید ہی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ سے ڈینم کے کپڑوں میں ایک طرف نیلا لیکن دوسری طرف سفید ہوتا تھا۔

awazurdu

جینس اور ہندوستان کا کنکشن

سین گپتا بتاتے ہیں کہ جینس کی ایجاد کا تعلق بھی ہندوستان سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل، ڈینم کپڑوں کو نیلا رنگ دینے کے لیے اسے انڈگو میں رنگا جاتا تھا اور انڈیا میں انڈگو کی کاشت کی جاتی تھی۔ اور اسی طرح نیلے ڈینم کے ساتھ برطانوی تعلق تھا۔ یعنی نیل کے ذریعے برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان بھی رشتہ رہا ہے۔

جینس کے ریویٹ

سن 1851 میں لیوی اسٹراس جرمنی سے نیویارک آئے۔ اس کے بھائی کا کپڑے کا کاروبار تھا۔ وہاں انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ دو سال تک کام کیا۔ پھروہ سان فرانسسکو چلے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے سوتی کپڑے کا کاروبار شروع کیا ۔ سین گپتا کے مطابق  جینس یا ڈینم پینٹ جس ریویٹ(rivets) یا بٹن کا استعمال کیا جاتا ہے، وہ دراصل کیلی فورنیا میں اس وقت دریافت ہوئے جب کہ وہاں کے مقامی درزی 'جیکب ڈیوس' نے کان کنی میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے ایسی پتلون بنانا شروع کئے تھے۔

 اس کے جلد ہی بعد ڈیوس نے لیوی اسٹراس کے ساتھ شراکت کر لی۔ ان دونوں کے درمیان 20 مئی 1873 کو ایک معاہدہ ہوا، جس میں مخصوص قسم کے پتلون کے لیے انہوں نے ایک ٹریڈ مارک حاصل کرلیا۔ جیکب نے اپنے یہاں کی پتلون کو مضبوط بنانے کے لیے ان میں تانبے کے ریویٹ(rivets) یعنی کیل ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ یہ کیل ایسی جگہ ڈالی گئی تھی جہاں سے پتلون کے پھٹنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ جیسے - جیب وغیرہ۔

ڈینم کپڑا بنانے کے لیے دو یا زیادہ دھاگوں کو ایک ساتھ بُننا پڑتا تھا۔ جب کہ ایک دھاگے کوایک رنگ سے اور دوسرے دھاگے کو دوسرے رنگ سے رنگنا ہوتا تھا۔

awazurdu

جینس اور پولو

جینس کے ابتدائی دنوں میں، اسے یا تو بہت محنتی افراد یا کان کنی میں کام کرنے والے مزدور پہنا کرتے تھے، جنہیں صرف کاو بوائے(Cow boy) پہنتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ آہستہ آہستہ پولو کھیلنے والوں میں بہت مشہور ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں بھی پولو کھلاڑی پریکٹس کے دوران نیلی جینس پہنتے ہیں اور میچ کھیلنے کے لیے سفید جینس کا استعمال کرتے ہیں۔

اگرچہ جینس کو 1960 کی دہائی تک آل اوور(All Over) کہا جاتا تھا، لیکن بعد میں بیبی بومرز نے انہیں 'جینس' کہنا شروع کیا۔ بیبی بومرز وہ نسل ہے جو 1946 اور 1964 کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔

سین گپتا بتاتے ہیں کہ جیکب ڈیوس اور لیوی اسٹراس نے جو پیٹنٹ کروائے تھے وہ 1890 کی دہائی میں ختم ہو گئے  اور تب تک بلیو ڈینم مجموعی طور پر امریکی ورکنگ کلاس یونیفارم بن چکا تھا۔  پہلی جنگ عظیم کے دوران، لی یونین آلس جینس تمام امریکی فوجیوں کے لیے معیاری لباس بن گئی۔  سنہ 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں، ہالی ووڈ کے خوبصورت کاؤبوائے جیسے گیری کپور نے نیلے ڈینم ٹراؤزر پہننا شروع کیا۔

ہالی ووڈ فلم

جینس کے مشہور ہونے کی ایک بڑی وجہ ہالی ووڈ فلمیں تھیں۔ جینس ہالی ووڈ فلموں کے ہیروز کی کھردری اور سخت تصویر کے لیے موزوں ہے۔ لیکن اس کا سہرا پہلے جیمز ڈین کو جاتا ہے۔  سنہ 1955 میں انہوں نے جیمز کی فلم 'ریبل ودآؤٹ اے کاز' کے لیے ٹی شرٹ، چمڑے کی جیکٹ اور جینس پہنی۔ فلم بہت ہٹ ہوئی اور جینس بھی۔ یہ فلم پہلے بلیک اینڈ وائٹ میں بنائی جانی تھی لیکن بعد میں اسٹوڈیو نے اسے رنگین بنانے کا فیصلہ کیا۔ ڈین کی جینس کو جان بوجھ کر گہرا رنگ دیا گیا تھا تاکہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو۔ اور ایسا ہی ہوا۔ جینس امریکہ کے نوجوانوں میں بہت مقبول ہوگئی۔

 اس سے قبل 1953 میں 'مارلین برانڈو' نے بھی جینس کو بہت مقبول بنایا تھا۔ وہ اپنی فلم 'دی وائلڈ ون' میں پورا وقت اسے پہنتے رہے۔ خواتین میں جینس کو مقبول بنانے کا سہرا مارلن منرو کو جاتا ہے۔

جنس عام عوام کے درمیان

یہ جینس کے ساتھ عوام کے رومانس کا آغاز تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، یعنی 1939 اور 1945 کے درمیان، امریکی فوجیوں نے اپنی ڈیوٹی کے بعد پہننے والے بلیو اوورآلز سے دنیا کو متعارف کرایا۔ اور اس کے بعد ڈینم کی عالمی فتح کا سفر شروع ہوا۔
سن 1930 کی دہائی تک، جنجر روزس سمیت ہالی ووڈ کے بہت سے ستارے ڈینم پینٹ پہہنے لگے اور انہوں نے جینس کو خواتین کے درمیان بھی مقبول بنا دیا۔ سین گپتا کہتے ہیں کہ مارلن برانڈو ریل اور حقیقی زندگی میں بھی جینس پہنتی تھیں۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 1950 کی دہائی میں، ڈینم ٹراؤزر امریکی نوجوانوں کے لیے چھٹیوں کے دوران پہنے جانے والے ترجیحی لباس بن گیا۔مارلن برانڈو اور جیمز ڈین جیسے ستاروں کو جینس پہنے دیکھ کر بھی کریز بڑھ گیا۔

سین گپتا کے مطابق 1960 کی دہائی میں، ویتنام جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے ہپی اور نوجوان ڈینم پہنتے تھے۔ جسے اب ہم جینس کہتے ہیں، وہ ڈینم ٹراؤزر ان دنوں احتجاجی یونیفارم کی طرح بن گیا تھا۔۔

سن 70 اور 80 کی دہائی کے بعد پھٹی ہوئی یا تباہ شدہ جینس(destroyed jeans) بھی ثقافتی مخالفت کا حصہ بن کر ابھری۔

ایگی پاپس(Iggy Pops)، سیکس پسٹل( Sex Pistols) اور میڈونا(Madonna) جیسی مشہور شخصیات نے پھٹی ہوئی جینس کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ستر کی دہائی کے آخر تک جینس نے فیشن کی دنیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1976 میں، کیلون کلین پہلے ٹاپ ڈیزائنر تھے، جنہوں نے ریمپ پر ڈینم کو جگہ دی

۔ 1981 میں جب 15 سالہ بروک شیلڈز نے یہ اعلان کیا کہ اس کے اور اس کی جینس کے درمیان کچھ بھی نہیں ہوگا، تب فیشن کی دنیا میں یہ ایک بڑی بات مانی گئی۔

awazurdu

 ہندوستان میں جنس کی آمد

 ہندوستان میں جینس کی آمد ستر کی دہائی میں ہوئی۔ 1975 میں ریلیز ہونے والی فلم شعلے میں امیتابھ بچن ڈینم پہنے نظر آئے۔ لیکن 1980 کی دہائی تک، شہری متوسط ​​طبقے کے نوجوان ڈینم پتلون کے لیے اپنے غیر ملکی رشتہ داروں پر انحصار کرتے تھے۔ ہندوستانی بازار میں لیوایس، لی یا رینگلر کی آمد سے پہلے یہاں کے لوگ عموماً نیو پورٹ، رف اینڈ ٹف یا ایکسکیلیبر جینس ہی پہنتے تھے اور ان میں سے زیادہ تر برانڈز مسٹر اروند ملز کے تھے

۔سن 1990 کی دہائی تک یہ کمپنی دنیا میں ڈینم کی سب سے بڑی پروڈیوسر تھی۔ مغربی دنیا کی طرح جینس 1990 کی دہائی میں ہندوستان میں ایک جمہوری لباس کے طور پر ابھرا، جس میں فیشن کے نئے رجحانات نے سماجی مجبوریوں، صنف اور امیری اور غربت سے بالاتر ہو گئے۔ مغربی دنیا میں جینز کا رجحان بھی وقتاً فوقتاً بدلتا رہا، لیکن ہندوستان میں ہم کب کلاسک فٹ سے بیگی سے لو کمر تک اور پھر سے فٹ کلاسک لُک کی طرف واپس آ گئے، ہمیں پتہ ہی نہیں چلا

 ہندوستان میں جینس میں کچھ خصوصیات بھی شامل کی گئیں، جیسے کہ لڑکیوں کے لیے تیزاب سے دھوئی گئی یا پھٹی ہوئی قسمیں یا کڑھائی والی جینس

 ہندوستان میں جینس کے ساتھ ہر طرح کی روایات کا امتزاج ہے۔ چوڑیاں اور بندیاں نیزکرتی تک۔ چاہے جیسا بھی ہو، جینس نے لباس کو ایک یکساں شکل دی ہے۔ اور اب یہ ہمارے لباس کے سب سے اہم حصوں میں سے ایک ہے۔