نماز،روزہ،زکاۃ،حج اورکلمہ پراسلام ختم نہیں،شروع ہوتا ہے۔ ڈاکٹرسید ظفرمحمود

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-01-2024
ڈاکٹر سید ظفر محمود
ڈاکٹر سید ظفر محمود

 



 

    ۔ پچھلے بارہ سال کے دوران تقریبا ڈیڑھ سو امیدوار سول سروسیز کیلئے منتخب ہوئے جن میں سے 10فیصد غیرمسلم ہیں۔

۔ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ نماز،روزہ،زکاۃ،حج اورکلمہ پر اسلام ختم ہےمگرایسا نہیں،یہاں سےاسلام شروع ہے۔

۔۔ ڈھائی فیصد زکاۃ کا مقصد آپ کو تربیت دینا ہے تاکہ باقی ساڑھے سنتانوے فیصد کو کس طرح خرچ کرنا ہے۔

۔۔ کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ جتنے عمرہ کرلےاس کواتنا ہی ثواب ملےگاتووہ غلط ہے،اللہ کا پیغام ایسا نہیں ہے۔

زکاۃفاؤنڈیشن آف انڈیا‘اس وقت ملک میں تعلیمی سطح پر خاص طور پر اقلیتی فرقہ کے حالات کو بہتر بنانے میں مصروف ہے۔زیڈ ایف آئی نے پچھلی دو دہائیوں سے بچوں اور بالغوں تک کی تعلیم کیلئے منظم منصوبہ بندی کی ہے،سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تعلیمی مشن کیلئے زکا ۃ کے فنڈ کو اکٹھا کیا ہے،اس کے بہت مثبت نتائج بھی نظر آئے ہیں۔اسکول سے سول سروسیز تعلیمی راہوں پر کامیاب چہروں کو دیکھا جانے لگا ہے۔زیڈ ایف آئی کے سربراہ اور بانی ہیں جناب ڈاکٹرسید ظفر محمود صاحب۔ ریٹائرڈ سول افسر جو اپنے کرئیر کے دوران انکم ٹیکس آفس سے پرائم منسٹر آفس تک سرگرم رہے۔’آواز دی وائس‘ نے مختلف مسائل اور ان کے مشن پر ڈاکٹر سید ظفر محمود سے بات چیت کی۔پیش خدمت ہے ’آواز دی وائس‘ اردو کے مدیر منصور الدین فریدی کا ڈاکٹر سید ظفر محمود کا انٹر ویو۔

سوال: ظفر محمود صاحب!آپ کا سول سروسیز کا تجربہ ہے،اس وقت آپ نئی نسل کو تعلیمی میدان میں پیشقدمی کیلئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ڈاکٹر سید ظفر محمود:دیکھئے!علامہ اقبال کا ایک بہت مشہور شعر ہے کہ۔۔’اپنی دنیا آپ پیدا کراگر زندوں میں ہے‘۔یعنی اگر تم خود کو زندہ سمجھتے ہو تو اپنی دنیا خود پیدا کرو۔جب اللہ نے ہاتھ پیر اور دماغ دے رکھا ہے،تمام اہلیت موجود ہے،وسائل دے رکھے ہیں۔تو ان کا استعمال کریں۔زندگی کا جو سیکرٹ ہے،انسانیت کا جورازہے، وہ یہ ہے کہ آپ اپنے اندر تخلیق کی قوت پیدا کرو۔قرآن نے بھی یہی راستہ دکھایا ہے۔ ہم کو پیدا کرنے والے نے تخلیق کے عمل کیلئے اپنی روح پھوک رکھی ہے۔ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم ا س کی کچھ صفات اپنے اندر پیدا کریں۔جس میں سب سے اہم ہے تخلیق کی طاقت۔اگر ہم نے ایسا کرلیا، لگن اور ایمانداری سے کام کیا تو غیبی طاقت آ جاتی ہے۔اس کامطلب آسمان آپ کی حد ہے۔یہی میرا پیغام ہے نئی نسل کیلئے کہ بس تخلیق کی طاقت کو استعمال کرے۔

سوال:فاونڈیشن زکاۃکیسے اکٹھا کرتی ہے اور اس کا استعمال کس طرح ہوتا ہے؟

ڈاکٹر سید ظفر محمود: در اصل جب آپ زکاۃ کی تاریخ میں جائیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس کو منظم طور پر ہی استعمال کرنے کا حکم ہے۔ پیغمبر اسلام کیلئے اللہ تعالی کا حکم تھا کہ لوگ جو دے رہے ہیں وہ لے لو اور پھر اس کا استعمال قوم کی فلاح کیلئے کرو۔اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم اس رقم کو خود ضرورت مند کو دو۔اس بات کو کچھ اداروں نے آج سے 23سال قبل محسوس کرلیا تھا،اس کے بعد زکاۃ یہ کام شروع کیا۔سب سے پہلے تو ہم نے اپنی زکاۃ کو ہی اکٹھا کیا۔آہستہ آہستہ لوگ جڑتے گئے، اب تو بہت منظم نظام ہے۔ہمارا اپنا پورٹل زیڈ ایف آئی.او آر جی ہے۔زیادہ تر لوگ ’آن لائن‘ ہی زکاۃ ادا کرتے ہیں۔کچھ لوگ چیک سے ادا کرتے ہیں اور دہلی میں تو جو یتیم خانہ ”ہیپی ہوم‘ کے نامپرہیں ان میں نقد عطیات بھی لئے جاتے ہیں۔مگر 99فیصد فنڈ آن لائن زکاۃ کے زمرے سے ہی آتا ہے۔ سوال: زکا ۃ کے علاوہ فنڈ کے اور بھی راستہ ہیں؟ جواب: جی نہیں!اور بھی راستے ہیں۔ زکاۃ فاونڈیشن تو نام ہے کیونکہ بڑا حصہ اسی کا ہوتا ہے لیکن صدقہ بھی آتا ہے،ہر قسم کی خیرات جو اسلام میں جائز ہے،دی اور لی جاسکتی ہے۔

سوال: کیا ایسا نہیں کہ ہم ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرکے اپنی زمہ داریوں سے ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں؟

ڈاکٹر سید ظفر محمود : بہت اچھا سوال کیا آپ نے۔ بات زکاۃ ادا کرنے کے بعد اپنی ذمہ داری سے ہاتھ جھاڑنے کی ہے تو دیکھئے زکاۃ سال میں ایک بار ادا کی جاتی ہے،جس کیلئے کوئی خاص وقت یا تاریخ مقرر نہیں ہے۔آپ اپنی سہولیت سے 365دنوں میں ایک بار ایسا کر سکتے ہیں۔رمضان میں لو گ ایسا کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ اس میں ثواب زیادہ ہوتا ہے۔یہ تو فرض ہے کہ آپ ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کریں۔مگر اس سے آگے بھی ذمہ داری ہے۔

میں آپ کو بتا دوں کہ صدقہ کیلئے مسلمانوں میں ایک تصور یہ ہے کہ یہ کتنا دینا ہے اور کب دینا ہے یہ سب اختیاری ہوتا ہے۔لیکن میں نے قرآن پاک کو تفاسیر سے جو سمجھا ہے۔ ’سورہ بقرہ‘میں میں اللہ کہتا ہے کہ ’۔ اللہ کے پیغمبر آپ سے ساتھی پوچھ رہے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کرنا ہے تو انہیں بتا دیجئے کہ اللہ نے جو بخشا ہے اس میں جتنا تمہارے لئے ضروری ہے،بس وہی تمہارا ہے۔باقی تمہارا ہے ہی نہیں۔باقی دوسرے ضرورت مندوں کا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنے کے بعد جو ساڑھے سنتانوے فیصد بچ جاتا ہے،اس میں سے آپ کی ضرورت کیلئے جو واجب ہے اس کے علاوہ کچھ بھی آپ کا نہیں ہے۔ آپ نے درست کہا ہے کہ ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنے کے بعد مسلمان ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں۔میں یہ بھی بتا دوں کہ یہ صرف ’پیسہ‘ میں نہیں ہے۔آمدنی میں نہیں ہے،دولت میں نہیں ہے۔بلکہ آپ کے پاس جو وقت ہے، جو وسائل ہیں۔جو زمین ہے،جائداد ہے۔ اس میں آپ کی واجب ضرورت کے بعد کچھ بھی آپ کا نہیں۔دوسروں کا ہے،ضرورت مندوں کا ہے۔

سوال: ہمارے ملک میں زکاۃ ادا کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی اندازہ ہے؟

ڈاکٹر سید ظفر محمود:۔ زکاۃ دینے والوں کا ایسا کوئی سروے یا گنتی نہیں ہوئی ہے۔بس ایک اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ ایک سال قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ملک کی آبادی کا صرف ڈیڑھ فیصد شہری ہی انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔سچر کمیٹی رپورٹ کی بنیاد پرمسلمانوں کی اقتصادی حالت تو اور بھی پست ہے جس سے آپ کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔اگر مسلمانوں کی آبادی18کروڑ اور اس میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد بھی ڈیڑھ فیصد ہی مان لیں تو صاحب استعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر مجموعی تعداد بہت زیادہ ہے۔کیونکہ جیسے زرعی آمدنی پر ٹیکس معاف ہوتا ہے لیکن زکاۃ میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔

سوال: ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کمیونٹی زیادہ فراغدلی دکھائے تو بہت سے مسائل حال ہوسکتے ہیں؟

ڈاکٹر سید ظفر محمود :جی ہاں! بالکل۔سو فیصد درست بات ہے۔ کمیونٹی خود کفیل ہے۔اللہ نے معاشرے کے بارے میں دو باتیں بتائی ہیں،اول تو یہ کہ آپ اپنے سے نیچے لوگوں کو کم سے کم اوسط بلندی پر لا دیں۔یہ بات درست ہے کہ صرف زکاۃ ادا کرنے سے ذمہ داری پوری نہیں ہوجاتی ہے۔ آپ زکاۃ کے بعد آپ جو خرچ کریں گے اس پر اللہ کے ہاں نمبر ملتے ہیں۔

ہم مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ نماز،روزہ،زکاۃ، حج اور کلمہ پر اسلام ختم ہے مگر ایسا نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ یہاں سے اسلام شروع ہے۔جو اصل امتحان ہے،جو آزمائش ہے،وہ یہ ہے کہ دو نمازوں کے بیچ میں آپ کیا کرتے ہیں۔اللہ کی خوشنودی کیلئے کیا کام کرتے ہیں۔رمضان المبارک کے بعد دیگر 11ماہ میںآپکیا کرتے ہیں۔وہ اہم ہے۔ ڈھائی فیصد زکاۃ کا مقصد آپ کو تربیت دینا ہے تاکہ باقی ساڑھے سنتانوے فیصد کو کس طرح خرچ کرنا ہے۔

سوال: کیا ہم دکھاوے کی جانب زیادہ بڑھ رہے ہیں جیسے بار بار حج کرنا وغیرہ؟

ڈاکٹر سید ظفر محمود:ضروری نہیں کہ دکھا وا ہو۔اصل میں بہت سے لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ قرآن میں کیا کہا گیا ہے۔حج تو فرض ہے اور وہ بھی ایک بار۔ عمرہ تو فرض بھی نہیں ہے۔اب اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ جتنے عمرے کرلے اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا تو وہ غلط ہے۔اللہ کا پیغام ایسا نہیں ہے۔اب اگر حج کی بات کریں تو ہمارے پیغمبر اسلام نے ایک سے زیادہ بار کئے۔جبکہ قوم پیغمبر کی راہ پر چلنے کا جذبہ دیوانگی کی حد تک رکھنے کا دعوی کرتی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ اس معاملہ میں ’منتخب‘ہے۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حج ایک بار ہی کرنا ہے۔اب معلومات کی کمی ہے،اس لئے لوگ بہت کچھ نہیں جانتے ہیں۔ جو پڑھا لکھا انسان ہے اس کو اس سلسلے میں پہل کرنی چاہیے۔ قرآن کے ترجمہ کے ساتھ اس کی تفسیر پڑھنی ضروری ہے۔

سوال:فاونڈیشن کے دروازے صرف مسلمان امیدواروں کیلئے کھلے ہیں یا پھر اس سے غیر مسلم بھی فیضیاب ہوئے ہیں؟

ڈاکٹر سید ظفر محمود: ایسا ہے کہ اس کا’میمورنڈم آف ایسو سی ایشن‘ ہے،اس میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ اس فاؤنڈیشن سے جو فیضیاب ہونگے وہ کسی ایک مذہب کے ہونگے۔اگر آپ سول سروسیز کی بات کررہے ہیں تو اس کیلئے فاؤنڈیشن میں منظم طریقہ سے تیاری جاری ہے اور پچھلے 12سال سے سرسید کوچنگ اینڈ گائڈنگ سینٹر میں کام ہورہا ہے۔ان بارہ سال کے دوران تقربیا 150امیدوار سول سروسیز کیلئے منتخب ہوچکے ہیں۔ان میں سے 10فیصد غیر مسلم ہیں۔

سوال: آر ایس ایس کا ایک ادارہ ایسی ہی تیاری کراتا ہے،جس سے کئی مسلمان بچے کامیاب ہوئے ہیں۔اس سے کہیں نہ کہیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ مل سکتا ہے۔کیا خیال ہے آپ کا؟

ڈاکٹر سید ظفر محمود: جی با لکل!اس بات کا خیال رکھنا بھی چاہیے اور رکھا بھی جاتا ہے۔

سوال: آپ بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی دین ہیں۔حال ہی میں ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اے ایم یو کو ”منی انڈیا“ کہا۔آپ کیا کہیں گے اس بارے میں؟

ڈاکٹر سید ظفر محمود: اگر بات کرتے ہیں وزیر اعظم کے اے ایم یو کےخطاب کی،توبڑی بات ہے کہ وزیر اعظم نے اس دعوت کو قبول کیا، ورنہ ان کا آفس کہہ دیتا کہ مصروفیت ہے۔مگر انہوں نے دعوت قبول کی، سو سالہ جشن میں حصہ لیا اور تقریر کی۔ اس دوران انہوں نے بہت ہی مثبت باتیں کہی تھیں۔انہوں نے کہا کہ ”مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ نے مجھے اپنی خوشی میں شریک کیا۔زبردست خراج عقیدت پیش کیا کہ سو سال قبل جب برطانوی پارلیمنٹ کی منظوری سے جو یونیورسٹی قائم کی گئی تھی اس کی پہلی چانسلر ایک خاتون تھیں۔ مطلب مسلم قوم نے اس وقت پوری دنیا، ملک اورانسانیت کیلئے ایک قائد کا کردار ادا کیا تھا۔سوچئے سو سال قبل کوئی خاتون کسی یونیورسٹی کی چانسلر ہو کتنی بڑی بات ہے۔

اس کے ساتھ اور بھی بڑی اچھی اچھی باتیں کی ہیں۔بہت ہی مثبت رویہ رہا۔ اس کے ساتھ یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات سے یہ بھی کہا کہ اب آزادی کا 75واں جشن منایا جائے گا اس موقع پر آپ علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے مجاہدین آزادی کو تلاش کریں،ان پر ریسرچ کریں،ان کے رشتہ داروں سے ملاقات کریں۔اس پر اپنا ایک آڈیو ویڈیو دستاویز بنائیں۔انہوں نے لائبریری کی تعریف کی۔جس کو ڈیجٹل شکل میں دنیا تک پہنچانا چاہیے۔میرے خیال میں اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔اس کو ایک مثبت پیغام کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔