محمد اسماعیل: بنگلور کا نوجوان جو انسانی خدمت کی علامت بنا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-06-2021
محمد اسماعیل
محمد اسماعیل

 

 

کورونا وائرس کی وبا  نے بہت خراب دن دکھائے تھے۔بدترین انسانی المیہ سب کو ہلا گیا۔ لوگ اب بھی ان لمحات کو نہیں بھول سکے ہیں ،ان لمحات میں انسانی خدمات انجام دینے والے کسی فرشتہ سے کم نہیں تھے۔آج جب کورونا نے دم توڑنا شروع کیا ہےاور زندگی نارمل ہونے لگی ہے۔اس وقت جہاں ایک اور لہر کا خوف ہے وہیں لوگ اس بحران میں ان چہروں اور کرداروں کو یاد کررہے ہیں جو انسانی خدمت کی علامت بن گئے تھے۔کورونا کے دوران سب سے بڑا مسئلہ ہلاک ہونے والے کی آخری رسومات تھی، کیوں کہ جہاں کورونا پروٹوکال کے تحت آخری رسومات میں چند آدمی شریک ہوسکتے تھے وہیں متعدد ایسے مہلوک تھے، جن کی آخری رسومات ادا کرنے والا کوئی نہ تھا۔

یہ صورت حال بھارت میں مختلف حصوں میں تھی، حتیٰ کہ بعض متوفی افراد کے اہلِ خانہ نے تو آخری رسومات کو ادا کرنے سے انکار کردیا تھا۔

اگر بات کریں ریاست کرناٹک کے شہر بنگلور کی تو وہاں کی صورتِ حال بھی ناگفتہ با تھی۔تاہم وہاں کورونا کے تاریک دنوں میں ایک ایک سافٹ ویئر انجینئر محمد اسماعیل شمع کی طرح روشن ہوئے۔

بنگلور کے محمد اسماعیل کورونا وبا کے دوران ایک مسیحیٰ کی شکل میں نمودار ہوئے، جہاں انھوں نے کورونا متاثرین کی امداد کے لیے عملی طور پر کوششیں کی وہیں انھوں نے کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی آخری رسومات بھی ایک ذمہ داری سمجھ کر ادا کروائی۔

محمد اسماعیل اگرچہ پیشے سے انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) سے وابستہ ہیں، تاہم وہ کورونا وبا کی دوسری لہر کے دوران کبھی اسپتالوں کے چکر کاٹتے نظر آئے تو کبھی ایمبولنس کو اسپتال کی جانب بھاگتے دکھائی دیے۔

محمد اسماعیل نے گذشتہ ایک برس کے دوران کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے تقریباً 1500 افراد کی آخری رسومات ادا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کسی بھی شخص کی آخری رسومات عزت و احترام کے ساتھ ادا کی جانی چاہئے۔ کیوں کہ ان کا بنیادی حق ہوتا ہے۔

اس کے لیے بھی محمد اسماعیل کی کارکردگی قابلِ ستائش ہے۔انھوں نے بے شمار مردہ خانوں سے لاوارث لاشوں کو اُٹھایا اور ان کی آخری رسومات ادا کرائی۔

محمد اسماعیل کہتے ہیں کہ اپریل اور مئی 2021 کا زمانہ انتہائی مشکل زمانہ تھا۔ان دنوں افوات بہت زیادہ ہو رہی تھیں۔میرا پورا دن ہسپتالوں اور شمسان گھاٹوں میں گزرتا تھا۔میں صبح کو سات بجے گھر سے نکلتا اور گھرواپسی میں رات کے دس بج جایا کرتے تھے۔

محمد اسماعیل نے دراصل ڈاکٹر طٰہٰ متین، ڈاکٹر مہدی اور محمد شریف علی کے قائم کردہ 'مرسی مشن'سے کے تحت کام کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مرسی مشن اس وقت کورونا وائرس کے تئیں متحرک ہوکر کام کرنے لگی، جب کہ مارچ 2020 میں کووڈ -19 کی پہلی لہر کے دوران اٹلی میں بڑے پیمانے پر لوگ ہو رہے تھے۔

محمد اسماعیل خود کہتے ہیں اٹلی میں بڑے پیمانے پر کورونا وائرس سے متاثرین کو مرنے والوں کی لاشوں کو ٹی وی پر دیکھنا حیران کن تھا۔

ابتداً محمد اسماعیل نے چھ رضاکاروں کو ایک ایمبولینس کے ساتھ لاشوں کو آخری رسومات ادا کرنے کے لیے تیار کیا، پھر اس کے لیے ایک 40 رکنی ٹیم تشکیل دی گئی، جس میں سات ایمبولینس بھی بھی تھے۔

چند افراد پر مشتمل ایک ٹیم اب 20 سے زائد غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے نیٹ ورک کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

مرسی گروپ نے  اس کے لیے 24 گھنٹے متحرک رہنے والی ایک ہیلپ لائن بھی شروع کی، جس کے ایک ویب سائٹ(covidhelplinebengaluru.com) بھی قائم کیا ہے۔

اس ہیلپ لائن کے ذریعہ مستحق افراد فوراً رابطہ کیا اور انہیں اسپتالوں میں بستر، آکسیجن، دوائیں اور ایمبولینس کی خدمات انہیں مہیا کرائی گئیں۔

اسماعیل کے الفاظ میں کسی کی آخری رسومات ادا کروانا ان کے لیے ناقابل فرامشو تجربہ ہے۔

مثال کے طور پر اپریل میں ایک خاندان نے اپنے دو بھائیوں کو کھو دیا ، جو ایک دن کے وقفے کے اندر الگ اسپتالوں میں فوت ہوگئے۔ انھوں نے کہا کہ ان دونوں بھائیوں ایک دوسرے کے بغل میں دفنایا جائے، مگر دونوں کی ہلاکت دو الگ الگ اسپتالوں میں ہوئی تھی، تاہم انھوں نے اپنی ٹیم کے ذریعہ کوشش کی، اور پھر دونوں کی آخری رسومات ایک ساتھ ادا کی گئی اور دونوں کو ایک جگہ دفنایا گیا۔

اسی طرح ، جب ریاست مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والا کووڈ-19 کے ایک مریض بنگلور میں انتقال کر گئے۔ان کے اہل خانہ کولکاتہ تھے۔لاک ڈاون کے سبب ان کا آنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے بعد محمد اسماعیل اور ان کے ساتھیوں کی مذکورہ شخص کی آخری رسومات ہندو رسم کے مطابق ادا کروائی اور اس کی راکھ کو ندی میں بہا دیا۔ اسماعیل اب بھی اس قسم اندوہناک داستان سے نکل نہیں پائے ہیں۔

اسماعیل کے پاس اس قسم کی بے شمار کہانیاں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک باپ اور بیٹی دونوں کو کووڈ-19 ہوگیا۔جب کہ باپ اسپتال میں ہلاک ہوگیا اور بیٹی گھر کے اندر کورنٹائن میں تھی۔ "رات کے قریب نو بجے تھے جب بیٹی نے مجھے روتے ہوئے فون کیا کہ اس کے والد کی لاش دو دنوں سے اسپتال کی مردہ خانے میں پڑی ہوئی ہیں، کیوں کہ کوئی بھی اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے موجود نہیں ہے۔"

محمد اسماعیل بتاتے ہیں کہ اس کی روندھی ہوئی آواز اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ وہ ایک بے بس لڑکی تھی، اس وقت وہ اپنے گھر سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔ بالآخر ہماری ٹیم نےاس کے والد کی آخری رسومات انجام دیں۔ کووڈ -19 کے دوران فلاحی کام کرنے کا یہ ان کا انوکھا اور پہلا تجربہ تھا۔ یہ ایسا ناقابل تسخیر تجربہ ہے، جس کو وہ کبھی بھول نہیں سکتے ہیں۔

ان تجربوں نے لیے انہیں مزید کام کرنے کے لیے ہمت فراہم کیا ہے۔ٓآئندہ بھی وہ سماجی کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔